ادیبوں اور شاعروں سے کچھ ملاقاتیں


گزشتہ دنوں معروف شاعر ادیب اظہر جاوید مرحوم جو تاریخ ساز جریدہ تخلیق کے مدیراعلیٰ رہے ہیں کے صاحب ذادہ سونان اظہر جوآج کل پاکستان کے ادبی حلقوں میں بہت جانے پہچانے جاتے ہیں نے اپنے فیس بک پر ایک افسردہ سی پوسٹ شیئر کی جو یہاں پیش خدمت ہے۔ ”افسوس صد افسوس! وہ واضعدار لوگ جو ہمیشہ اپنے دکھ اور غم بھول کر لوگوں میں محبتیں تقسیم کرنے میں پیش پیش رہے اور ادبی حلقوں میں لوگوں کے پروگراموں کے سٹیج کی شان بنے رہے اور لوگوں کی خوشیوں میں اپنی خوشیاں تلاش کرتے رہے افسوس اس کروڑوں کے معاشرے میں جہاں ادیب اور شاعر اینٹ اٹھائے تو مل جائے مگر درد دل رکھنے والے اس بے حس معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

لیجنڈ گلوکار شوکت علی پچھلے ایک ہفتے سے سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ بشریٰ رحمان صاحبہ دو ماہ سے آپریشن کروا کر گھر میں بستر پر ہے اور ڈاکٹر اجمل نیازی تین ماہ سے ہسپتال میں آپریشنز کروا کروا کر اب گھر میں زیر علاج ہے۔ مگرچند لوگ بھی ان کی عیادت کو نہ جاسکے۔ کل کو ہم بھی طلبگار ہو گے اور کوئی ہمارے پاس نہ ہوگا“ یہ پوسٹ دیکھی تو پڑھ کر بہت دکھ ہوا میں جب پاکستان میں تھا تو جب بھی فراغت اور آسودگی محسوس کرتا شعرو ادب کے سینئر زسے بلمشافہ ملاقات کے لیے جہاں تک ہوتا حاضری دیتا مجھے یاد ہے میں جب بھی راولپنڈی جاتا تو کئی دوستوں سے ملاقات رہتی تھی جن میں عارف فریاد، علی محمد فرشی، پروین طاہر، آنجہانی انوارفیروز، منشا یاد، اکبرحمیدی اور جناب اختر ہوشیار پوری جو کئی برس علالت کے باعث بستر پر رہے مگر ہر بار انھوں نے بڑی شفقت اور پیار سے ملاقات کی اور اپنی کتابوں سے بھی نوازتے رہے۔

اسی طرح معروف ادیب شاعر ناصر زیدی مرحوم سے بھی میری پہلی ملاقات راولپنڈی صدر بازار کے روڈ پر بچھی کتابوں کے بک سٹال پرہوئی، اسی طرح جولائی 2000 میں میری تالیف ”برگ افکار“ شائع ہوئی تو جیسے ہی میں راولپنڈی اسلام آباد گیا پہلی فرصت میں میں افتخار عارف صاحب سے ملنے گیا اور بلمشافہ ملاقات کے دوران ان کو اپنی کتاب پیش کی، چند برس قبل جب میں سپین میں تھا تو پاکستان روانگی سے ماہ قبل جولائی 2012 میں معروف شاعر شہزاد احمد سے گفتگو کے دوران انھوں نے سپین کے مشہور (Olive Oil) زیتون کے آئیل کی فرمائش کی جو جوڑوں کے درد کا بہترین علاج سمجھا جاتا ہے اور میں نے کر انہیں ملنے کا وعدہ کر لیا ( اس سے بیشتر میں دو بار انھیں ڈاکٹر وزیر آغا کے دولت کدہ پر مل چکا تھا) مگر 2 اگست 2012 کو وہ جہان فانی سے کوچ کر گئے اور مین ان کی فرمائش پوری نہ کر سکا۔

یوں تو میں نے شعر کہنے کی ابتدا 1990 کے وسط میں کی مگر اب تک کا سب سے بڑا مشاعرہ میں نے بیس برس پہلے جشن بہاراں کا آل پاکستان محفل مشاعرہ گوجرانوالہ میں پڑھا جس کی صدارت (سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے ) کے مشہور فلمی نغمہ نگار معروف شاعر احمد راہی نے کی اس مشاعرہ میں احمد فراز، منیر نیازی، منوبھائی، امجد اسلام امجد، شہزاد احمد اور ملک کے دیگر نامور شعراء شریک تھے، اس تقریب کے بعد (میرے سسر اور سابق کونسلر جناب اقبال غوری جو متعد ادیبوں شاعروں کے حلقہ احباب میں رہتے تھے خاص طور پر منیر نیازی سے ان کی اچھی یاد اللہ تھی نے ) جناب منیر نیازی صاحب کے ساتھ ایک یادگار تصور بنوائی جو آج تک مجھے نہیں ملی، اب زمانہ بدل گیا ہے نہ وہ عقیدت رہی ہے اور نہ وہ سیکھنے کا عمل اسی لیے اب سینئر کی عزت اور احترام ویسا نہیں رہا جیسا دو تین دہائی قبل تھا، آج اس تحریر کے ذریعے میں اپنے ادیبوں شاعروں سے گزارش کرنا چاہتاہوں کہ ایسے گروپس ادارے یا این جی اوز بنائی جائیں جو ادباء وشعراء کے برے وقت میں ان کی مدد کریں خاص طور پر ان کے علاج کا ذمہ اٹھائیں ہم کب تک اپنی اعلیٰ سرکاری حکومتوں کے طابع رہے گے کچھ ذمہ داری تو ہمیں بھی لینا پڑے گی۔ شاعر ادیب کیسی بھی معاشرے کا وہ نازک اور معتبر شخص ہوتا ہے جو قوموں کو سدھارنے میں ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے اس کی ایک تحریر سے ہی انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).