پیلے کے 1000 گول: برازیل کے عظیم فٹبالر جو لیاری والوں کے لیے کسی دیوتا سے کم نہیں


پیلے
یہ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کا زمانہ تھا جب روسی سفارتخانے کی گاڑی، جسے چلتا پھرتا سنیما گھر کہا جاتا تھا، ہر دوسرے مہینے لیاری کے علاقے میں آتی۔ اس گاڑی کے ساتھ سفارتخانے کے ثقافتی شعبے کے لوگ بھی ہوا کرتے تھے۔

گاڑی میں پروجیکٹر، سکرین اور فٹبال میچوں کی فلمیں ہوا کرتی تھیں جو خاص طور پر لیاری کے فٹبال شیدائیوں کو دکھانے کے لیے ہوتی تھیں۔

ان میچوں کی فلمیں دیکھنے والوں میں لیاری کے فٹبال کلب سیفی سپورٹس کے ایک نوجوان کھلاڑی نادر شاہ عادل بھی ہوا کرتے تھے جو اب ایک سینئر صحافی ہیں۔

نادر شاہ عادل کہتے ہیں ʹان فٹبال فلموں میں اپنے وقت کے عظیم پرتگالی کھلاڑی یوسیبو اور برازیل کے پیلے سب کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوجوان پیلے کا طوطی بول رہا تھا اور ان کے خوبصورت کھیل میں موجود عجیب سی کشش دیکھنے والوں کو اپنی جانب کھینچے رکھتی تھی۔ʹ

اسی بارے میں

دنیائے فٹبال کے شہنشاہ ’پیلے‘ جنھیں برازیل نے ’قومی خزانہ‘ قرار دیا

برازیلین فٹ بالر پیلے 40 برس بعد بھی مقبول

بھئی ہم فٹ بال بھی جانتے ہیں

نادر شاہ عادل بتاتے ہیں: ʹلیاری والوں نے ہمیشہ سیاہ فام لوگوں سے محبت کی ہے، چاہے وہ ہالی وڈ کے اداکار ہوں، فٹبالرز یا پھر ویسٹ انڈین کرکٹر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیاری والوں کی جڑیں نسل در نسل مشرقی افریقہ سے جا ملتی ہیں۔‘

لیاری کے لوگوں نے ہمیشہ پیلے اور برازیلین ٹیم کو ایک مثالی ٹیم سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ ہر چار سال بعد ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے موقع پر لیاری کی گلیوں اور گھروں کی چھتوں پر برازیل کے پرچم لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے اس علاقے کی برازیلین ٹیم سے جذباتی وابستگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

لیاری

لیاری میں آج بھی ورلڈ کپ کے موقعے پر سڑکوں اور گھروں کی چھتوں پر برازیل کا پرچم نظر آتا ہے

دیوتا اور کھیل کا مکمل نصاب

نادرشاہ عادل کہتے ہیں ʹ پیلے اپنے کریئر میں بجا طور پر فٹبال کے دیوتا کہلائے جاتےتھے۔ان کی تقلید دنیا کے ہر کھلاڑی نے کرنی چاہی۔لیاری کے نوجوان فٹبالرز بھی ان کے کھیل کی فلمیں دیکھ کر انہی جیسا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پیلے جس خوبصورتی سے گیند کو اپنے سینے پر روک کر پیروں کے کنٹرول سے آگے لیجاتے تھے حریف کھلاڑیوں کو ڈاج دیا کرتے تھے اور دونوں پیروں اور ہیڈ سے یکساں مہارت کے ساتھ ان کا گول کرنا یہ سب کچھ کوئی دوسرا کھلاڑی نہیں کرسکتا تھا ʹ۔

نادر شاہ عادل کا کہنا ہےʹ پیلے فٹبال میں نصاب کا درجہ رکھتے ہیں کہ اگر آپ 90 منٹ کا ان کا میچ دیکھ لیں تو آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔ ان کے کھیل کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت بھی بےداغ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیاری والوں نے کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کیا کہ ان کا موازنہ ڈیاگو میراڈونا سے کیا جائے کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ میراڈونا یقیناً ایک بڑے کھلاڑی تھے لیکن ان کی شخصیت غیر متنازع نہیں ہے۔ʹ

پیلے

مت روئیں، ورلڈ کپ میں جتواؤں گا

1950 کے ورلڈ کپ میں برازیل کی ٹیم کو متوقع فاتح سمجھا جا رہا تھا تھی لیکن فائنل میں اسے یوراگوئے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس پر پورے ملک میں سوگ کا سماں تھا۔ ایک گھر میں باپ بیٹا کمنٹری سن رہے تھے، برازیل کی ٹیم جب ہاری تو باپ زاروقطار رونے لگا۔ اس موقع پر اس کا دس سالہ بیٹا اسے د لاسہ دینے لگا کہ ’آپ مت روئیں۔ اگلی مرتبہ میں برازیل کو ورلڈ کپ جتواؤں گا۔‘

آٹھ سال بعد یہ لڑکا نہ صرف برازیل کی فٹبال ٹیم میں شامل ہوا بلکہ تین لگاتار ورلڈ کپ جیتنے والی فاتح ٹیموں میں بھی وہ شامل تھا۔ یہ تاریخ رقم کرنے والے فٹبالر کو دنیا پیلے کے نام سے جانتی ہے۔

1958 کے ورلڈ کپ کے بعد ہی برازیل کی حکومت نے انھیں قومی خزانہ قرار دے دیا تھا جس کا مقصد یورپی فٹبال کلبوں کی طرف سے انھیں کھیلنے کی پیشکشوں کو روکنا تھا تاکہ وہ برازیل میں ہی رہیں۔

پیلے

کریئر میں ایک ہزار گول

19 نومبر 1969 کو سینٹوس اور واسکو ڈی گاما کی ٹیمیں ریو ڈی جنیرو کے ماراکانا سٹیڈیم میں مدمقابل تھیں۔ پیلے سینٹوس کی طرف سے میدان میں اترے تھے۔ یہ میچ ان کے لیے اس لیے اہمیت کا حامل تھا کہ انھیں اپنے کریئر میں 1000 گول کا سنگ میل عبور کرنے کے لیے صرف ایک گول درکار تھا۔

یہی کشش 80 ہزار تماشائیوں کو بھی سٹیڈیم میں کھینچ لائی تھی۔ سینٹوس کو پنلٹی کک ملی اور پیلے نے گول کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ اس موقع پر تماشائیوں کی بہت بڑی تعداد انھیں مبارک باد دینے میدان میں آگئی اور کھیل دوبارہ شروع کرنے میں 30 منٹ لگے۔

آج بھی سینٹوس میں 19 نومبر کو پیلے کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

فٹبال کی تاریخ میں پیلے کے علاوہ آسٹریا کے جوزف بائکن، جرمنی کے جرڈ مولر اور برازیل کے آرتھر فائریڈنریچ نے بھی ایک ہزار سے زائد گول کیے ہیں۔ کچھ اور کھلاڑیوں کے ناموں کے آگے بھی ایک ہزار گول لکھے جاتے رہے ہیں لیکن فٹبال کے اعدادوشمار کی تصدیق کرنے والی بین الاقوامی تنظیم انھیں تسلیم نہیں کرتی، جن میں برازیل کے کھلاڑی روماریو بھی شامل ہیں۔

پیلے

پیلے نے اپنے کیریئر میں 1284 گول کیے ہیں تاہم 526 گول غیرسرکاری دوستانہ اور ٹور میچوں میں کیے گئے۔ بین الاقوامی مقابلوں میں ان کے 77 گول ہیں جبکہ باضابطہ میچوں میں ان کے گولز کی مجموعی تعداد 767 ہے۔

جرابوں سے بنی فٹبال سے کھیلنا

پیلے کا بچپن غربت میں گزرا کیونکہان کے والد فٹبالر ہوتے ہوئے بھی معاشی مشکلات سے دوچار تھے۔ پیلے نے چائے خانوں میں ملازمت بھی کی لیکن فٹبال سے انھیں جنون کی حد تک پیار تھا۔ وہ سڑکوں پر اکثر گیند کو کک لگاتے نظر آتے تھے لیکن یہ گیند باقاعدہ فٹبال کے بجائے جرابوں میں کاغذ بھر کر بنائی گئی ہوتی تھی۔

پیلے نے اسی غربت میں اپنے محلے کے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیم بنائی تھی جو ’جوتوں کے بغیر کھیلنے والوں کی ٹیم‘ کے طور پر مشہور تھی۔

صرف پندرہ سال کی عمر میں ان کے ٹیلنٹ کو برازیلین فٹبالر ڈی بریٹو نے بھانپ لیا تھا اور انھیں یہ کہہ کر مشہور کلب سینٹوس میں شامل کرایا کہ وہ دنیا کے عظیم فٹبالر ثابت ہونگے۔

پیلے

میراڈونا نے ایک بار کہا ‘پیلے کی بات کی پرواہ کون کرتا ہے؟ ان کی جگہ تو عجائب گھر میں ہے’

پیلے کی میراڈونا سے کبھی نہیں بنی

میراڈونا اور پیلے کے درمیان کبھی بھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے اور دونوں ایک دوسرے پر طنزیہ فقروں کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔

ایک مرتبہ پیلے نے کہا کہ میراڈونا ’نوجوان نسل کے لیے اچھی مثال نہیں ہیں‘، جس پر میراڈونا کا تبصرہ تھا کہ ’پیلے کی بات کی پرواہ کون کرتا ہے؟ ان کی جگہ عجائب گھر میں ہے۔‘

پیلے اپنا موازنہ میراڈونا سے کیے جانے کے بارے میں کہتے تھے ’میں یہ سوال سالہا سال سے سنتے آئے ہیں کہ دونوں میں سے بہتر کون ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ حقائق دیکھیں کہ میراڈونا نے دائیں پیر یا ہیڈ سے کتنے گول کیے ہیں؟‘

پیلے

پیلے کے میچ کے لیے جنگ بندی

1967 میں نائیجریا میں اس وقت 48گھنٹے کی جنگ بندی کی گئی تاکہ سرکاری اور باغی فوجیں پیلے کو کھیلتا ہوا دیکھ سکیں جو اس وقت سینٹوس کلب کی ٹیم کے ساتھ خانہ جنگی کا شکار نائیجریا کے دورے پر تھے۔

پیلے جنگی قیدی کے روپ میں

پیلے پر ’برتھ آف اے لیجینڈ‘ کے نام سے فلم بن چکی ہے۔ خود پیلے نے دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں بننے والی فلم ’اسکیپ ٹو وکٹری‘ میں بھی کام کیا تھا جس میں جرمن کے ہاتھوں جنگی قیدی بننے والے اتحادی، جرمنی کی ٹیم کے خلاف فٹبال میچ کھیلتے ہیں حالانکہ انھوں نے میچ کے وقفے کے دوران سرنگ سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔

اس فلم میں پیلے کے علاوہ متعدد دیگر فٹبالرز نے بھی کام کیا تھا جن میں بابی مُور قابل ذکر تھے۔

پیلے

پیلے اور بابی مور کی ایک یادگار تصویر

آسمان بھی رو رہا تھا

فٹبال کے مشہور رائٹر جیفری گرین کا کہنا ہے کہ ڈی اسٹیفانو زمین پر تیار کیے گئے تھے جبکہ پیلے جنت میں۔

یاد رہے کہ ڈی اسٹیفانو بھی اپنے وقت کے بہترین فٹبالر تھےجنہوں نے تین ممالک ارجنٹائن، کولمبیا اور سپین کی طرف سے انٹرنیشنل فٹبال کھیلی تھی۔

جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن مینڈیلا بھی پیلے کی غیرمعمولی صلاحیتوں کے معترف تھے ان کا کہنا تھا کہ پیلے کو کھیلتے دیکھنا ایسا ہے جیسے آپ کسی بچے کی خوشی اور کسی مرد کےغیرمعمولی وقار کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہوں۔

پیلے

اٹلی کے شاعر پاسولینی نے فیفا کی ویب سائٹ پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب گیند پیلے کے قدموں میں آتی تھی تو فٹبال کا کھیل شاعری میں تبدیل ہوجاتا تھا۔

امریکہ کے سابق صدر رونلڈ ریگن نے ایک مرتبہ پیلے سے کہا تھا کہ ’میں امریکہ کا صدر ہوں لیکن آپ کو اپنا تعارف کروانے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پیلے کون ہیں۔‘

لیورپول کے منیجر یورگن کلوپ وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتے جب ان کی سالگرہ کے موقع پر پیلے نے شرٹ نمبر 10 اپنے دستخط کے ساتھ انھیں دی تھی۔

سب سے دلچسپ تبصرہ برازیل کے اس اخبار کا تھا جس نے پیلے کی ریٹائرمنٹ پر لکھا تھا ʹ یہ وہ موقع تھا جب سب افسردہ تھے یہاں تک کہ آسمان بھی رو رہا تھا ʹ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp