تشدد کی قیمت کیا ہے؟



اتفاق سے میری نظر ایک تبصرے پر پڑی، جو چھاتی کے سرطان کے متعلق آگہی دینے والے صفحے پر کیا گیا تھا۔ مجھے اتنا معلوم تھا کہ مفید معلوماتی مچان پر کوئی منفی انداز فکر موجود نہیں ہو سکتا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ چھاتی کا سرطان چونکہ چھاتی کا ہے تو اپنے ساتھ زندگی کو لاحق موت کے خطرے کے ہمراہ حیا اور شرم کے پہلو تک لے آتا ہے۔ حیا اور شرم کے جس پہلو کی جانب میرا اشارہ ہے جو اس نکتے کو کھینچتا ہے جس میں اس مرض کے متعلق واشگاف الفاظ میں بات کرنا غیر اخلاقی ہے۔

مزید یہ کہ موجودہ دور کی بڑھتی تنگ نظری بھی ہے جس کو طرح طرح کے سیاسی و مذہبی پہناووں سے سجایا بھی جا رہا ہے۔ تنگ نظری اور پدرسری ہمیشہ سے تھی مگر آج کل اس کا شور اور واویلے کی روش اور شہرت ہی الگ ہے۔ ماجرا کچھ یوں تھا کہ ایک صاحب چھاتی کے سرطان کو موجودہ ”کاروباری دور“ کا مرض قرار دے رہے تھے۔ حضرت کمیونسٹ ہونے کی ناکام کوشش میں کامیابی سے خود کو علم اور عورت دشمن ضرور منوا گئے۔ ان کی تنگ نظری اور فطرتی نفرت کو یہ بات ہرگز گوارا نہ کی کہ ایسا معلوماتی ادارہ ہے تو کیوں ہے؟

ان کی رائے میں پہلے زمانوں میں تو یہ مرض نہ ہوتا تھا، تو اب ہی اس کا چرچا کیوں؟ بظاہر آگاہی ان کی پدرانہ سوچ کے مطابق دہشت پھیلانے کے مترادف تھی۔ مگر ہم بحیثیت سماج بھی تو تکلیف، اذیت، غم، بے چارگی، ہراسانی کو رنگ برنگے جوازوں کے ڈوپٹے اور غیر معقول دلائل کے لباس پہناتے ہی آئے ہیں۔ معاف کیجئے مگر ہمارا شیوہ ہی یہی رہا ہے۔ ایسی کم علم، ناقص السمجھ اور بے حد عورت دشمن سوچ نے بچپن کا ایسا قصہ یاد دلا دیا جو ہمارے اسی شیوے کا ضابطہ ہے۔ جہاں تشدد کو رنگین غلافوں اور کڑوے حقائق وسیع پردوں میں پنہاں رکھے جاتے ہیں۔

ہم پاک فضائیہ کے بیس چکلالہ میں رہا کرتے تھے۔ عمر میں ہم سب پڑوسی اور ہم مکتب دوست ایک دوسرے سے دو تین سال چھوٹے اور بڑے تھے اور ہماری عمریں سات یا آٹھ سال ہی تھیں۔ ایک روز میری سہیلی مجھے آ کر بتاتی ہے کہ اس کی ٹیوشن والی استاد گھر میں نہ تھیں تو پڑوس والے انکل نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے گھر میں بلایا جو خود گھر میں بے لباس تھے اور بچوں سے کہا کہ وہ ان کو پیار کریں گے۔ میری سہیلی نورین نے مزید بتایا کہ وہ تو بس تیزی سے گھر کو بھاگی۔

میں نے جواباً پوچھا کہ اس بارے گھر میں بتایا؟ اس کا جواب تو اثبات میں تھا مگر وہاں سب بڑے یہ کہتے تھے یہ آدمی تھوڑا پاگل ہے۔ معاف کیجئے مگر وہ آدمی پاگل نہیں عرف عام میں چائلڈ سیکس آفنڈر تھا جو یقیناً گھریلو تشدد کرنے کے حوالے سے بھی خاصی شہرت کا حامل تھا۔ اتنے بڑے دفاعی ادارے میں سند یافتہ پاگل نہیں رکھے جاتے۔ ایسے لوگ ہمارے گھروں میں، گھروں کے آس پاس کہیں نہ کہیں رہتے ہیں اور گھر کے بڑے ان کی مجرمانہ حرکات سے آنکھیں چراتے باز نہیں آتے۔

جب ٹیوشن کی استاد اپنا گھر بدل رہی تھیں تو ہم سب بچوں نے بڑھ چڑھ کر ان کی منتقلی خوب جوش و خروش سے یقینی بنائی۔ جب ہی ایک روز ان کے خالی گھر کی کنجی ہمارے پاس تھی۔ میری سہیلی نورین نے مجھے اور دیگر دوستوں کو بتایا کہ ساتھ والے وہی انکل جو برہنہ ہو کر گولیوں ٹافیوں کی لالچ کے عوض بچوں کے کپڑوں کے اتارنے پر مصر رہتے ہیں، اپنے بچوں کو زنجیروں سے باندھتے ہیں۔ جس روز ٹیوشن کی استاد کے گھر سے آخری رہ جانے والی چھوٹی موٹی اشیا ہم لینے گئے، تب ہی نورین نے ہم سب کو دیوار کے ساتھ لگی سیڑھی سے وہ منظر دکھایا جو آج بھی یادوں کے ڈبے سے اچھل کر آنکھوں میں پیوست ہو جاتا ہے۔

کیا دیکھتے ہیں کہ مئی کی شدید گرمی کی تپتی دوپہر میں دو تین اور چار سالہ اطفال برہنہ بدن زنجیروں میں بندھے امی امی پکار کر روئے جا رہے تھے۔ روتے روتے چپ کرتے تھے، تپش اگلتے سیمنٹ کے فرش سے کبھی ایک پاؤں اٹھاتے تھے تو کبھی دوسرا۔ گرم فرش پر بیٹھتے نہیں کہ گرم فرش پر بیٹھا جا نہیں سکتا تھا۔ کھڑے کھڑے تھکتے تھے تو بیٹھ جاتے تھے مگر تپش کی شدت سے جلد ہی کھڑے ہو کر ماں کو پکار کر روتے۔

زنجیروں میں جکڑے کہیں سائے میں جا بھی نہیں سکتے تھے۔ جب ان کی سسکیاں بلند ہوتی ہیں تو اندر بیٹھے باپ کے روپ میں چائلد سیکس ابیوزر کی گرج دار آواز آتی اور بچے سہم جاتے۔ آس پاس کے گھروں کے مکینوں کو معلوم تھا کہ ان کا معزز پڑوسی تپتی دوپہر اور ٹھٹھرتے دنوں میں کم سن بچوں کو برہنہ زنجیروں سے باندھتا ہے مگر کسی کو اتنی توفیق نہ تھی کہ اپنے ہاتھ یا زباں سے نہ سہی کم از کم جنسی و نفسیاتی مجرم اور مریض کی یونٹ میں شکایت کر دیں۔

ہمارے یہاں تو وحشیانہ تشدد بھی بچوں کی تربیت کا اہم جزو قرار دیا جاتا ہے۔ اس تشدد کے دلائل کو جنت میں ہر تھپڑ کے بدلے سونے کی مہر ملنے کا رومانوی جبہ پہنا دیا گیا ہے۔ جب ہم بچے تھے تو سنا تھا کہ استاد کی طرف سے رسید کی جانے والی ہر چماٹ جنت میں سونے کی مہروں کے برابر ہے۔ یعنی تشدد سہتے جائیے اور جنت میں سونے کی مہریں اکٹھے کرتے جائیں۔ پس ہمارے یہاں پائے جانے والے جنسی تشدد اور گھریلو زیادتیوں کی بنیاد بھی یہی سب ہے۔

جب اس آدمی نے صحن میں آ کر حقارت اور غصے سے ہمیں ڈانٹا تو ہم ڈر کر گھروں کو ہو لئے۔ ہم ٹی وی پر سب دیکھتے تھے، روشن پاکستان کے نام سے صبح کی خوشگوار نشریات، پی ٹی وی ورلڈ کا خبروں سے لیس سید طلعت حسین کا نیوز مارننگ تک میں شوق سے دیکھتی تھی، نشان حیدر سے منسوب تمام بہترین ڈرامے، ان کے تمام دل موہ لینے والے مکالمے تک یاد تھے۔ ریحان شیخ، ایوب کھوسو اور وجاہت ملک کے بے حد عمدہ اور معلوماتی ٹریور گائیڈ نامی تمام شوز کا مجھے علم تھا، مجھے آمرانہ دور کی کٹھ پتلی کابینہ کے وزرا کے نام تک معلوم تھے، مجھے نہیں معلوم تھا تو چائلڈ سیکس ابیوز، چائلڈ سیکس کرائمز، گھریلو جنسی تشدد کا علم نہیں تھا نہ ہی رتی برابر ادراک تھا کہ یہ سب کیا ہوتا ہے جو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئی، جس کے خوف کے مارے ہم سب بچے چپ رہے۔

جنسی تشدد تو تب بھی تھا، پر اس پر آگہی کیوں نہ تھی؟ اس پر بلند ہوتی آوازوں کی گونج بھی نہ تھی۔ غرض کہ کچھ بھی نہ تھا۔ بچوں اور خواتین کی لاشیں تب بھی زیادتی کے بعد یوں ہی گرائی، جلائی، دفنائی جاتی تھیں، بیویاں تب بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوتی تھیں، خواتین کے خلاف پدرسری نفرت تب بھی تھی، تب بھی مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی اور پورے ملک نے اسی کو بدکردار کہا، یہاں تک کہ ملک کے غیر آئینی حکمران یعنی آمر نے بھی۔

مگر ہمارے بڑوں کو تو سب پتا تھا کہ جنسی تشدد کیا ہوتا ہے، مگر کوئی آواز تک نہ اٹھاتا تھا اور وہی چار سو پھیلی خاموشیاں آج تک ہوتے ہر جنسی تشدد اور ہراسانی کے واقعات اور سانحات کی فصل بوتے آئے ہیں۔ ایک چپ سو دکھ ہوا کرتے ہیں جن کے شور سے بہت کچھ بچایا جاسکتا تھا مگر ایسا نہ ہوا۔

اس لئے مہلک امراض ہوں یا زہر اگلتی تشدد آمیز سوچ، ہمیشہ سے رہے ہیں۔ اگر ان کا پہلے سدباب یا نشاندہی نہیں ہوئی، اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ انسانی فلاح اور عورتوں کے تحفظ اور خودمختاری کے لئے اٹھائے جانے والے اقدام کو کسی بھی غیر منطقی دلیل سے مدھم کیا جائے۔ سو بہتر ہوگا کہ چھاتی کے سرطان سے لے کر ہر قسم کے سرطان کی نشوونما کو تلف کیا جائے تاکہ انسان صحتمند، سکھی اور محفوظ رہ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).