عبدالودود قریشی صاحب کی وڈیو پر تبصرہ


محترم ودود صاحب! آپ نے پروگرام کا نام فیکٹس ود ودود نام رکھا ہے لیکن اگر میں فیکٹس سے آگاہ نہ ہوتا تو آپ کی بات کو شاید سچ ہی سمجھ لیتا۔ آپ نے جو باتیں اپنی وڈیو میں مورخہ 22 ستمبر 2020 کو بیان کی ہیں وہ فیکٹس کے مطابق ہرگز نہیں ہیں۔

1۔ آپ نے کہا ہے کہ ”تاریخ بتاتی ہے کہ 1929 سے ہی مسلمان مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد سے اختلاف کرتے ہوئے انفرادی طور پر مصروف عمل تھے“ ۔ فیکٹ یہ ہے کہ مرزا صاحب تو 1908 میں وفات پا چکے تھے۔

2۔ ”سر فرانسس مودی نے جو کوڑیوں کے بھاؤ دریائے چناب کے کنارے زرخیز زمین“ آپ کے خیال میں ”سر ظفراللہ خاں کے اثر کے تحت دی تھی“ ۔ حالانکہ وہ بالکل بنجر اور شور زمین تھی اور علاقے کے لوگ رات کو ادھر سے گزرتے نہیں تھے۔ اور پانی جو گہرائی سے نکلتا وہ بھی کڑوا ہوتا تھا۔ ظفراللہ خاں کا اس معاملہ میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ قانون کے مطابق ساری کارروائی ہوئی۔ نو روپے مرلہ کے حساب سے پلاٹ ہمارے بزرگوں نے بھی محض ثواب سمجھ کر خریدا۔ ورنہ اسے تو ایک روپے مرلہ بھی کوئی نہ خریدتا۔ (معروف صحافی منیر احمد منیر نے 80 کی دہائی میں پنجاب کے سابق وزیر آباد کاری عبدالحمید دستی سے ایک طویل انٹرویو کیا تھا۔ دستی صاحب کے اس مکالمے سے بھی کولمبس خان صاحب کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ و۔ مسعود)

3۔ ”یہ الگ شہر بنا۔ غیر قادیانیوں کا داخلہ بند تھا“ ۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ احمدیوں کے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ بڑی تعداد میں غیر از جماعت والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو ربوہ تعلیم کے لئے بھجواتے اور ان میں سے بے شمار ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہوئے۔

4۔ یہ بات سو فی صد جھوٹ ہے کہ ”اگر کوئی مخالف عالم وہاں گیا تو پھر واپس نہیں آیا“ ۔ ایسا کوئی ایک نام بھی قریشی صاحب نہیں بتا سکتے۔

5۔ یہ درست ہے کہ ”ربوہ نام قرآن مجید ہی سے لیا گیا“ ہے۔ یہ قرآن سے آگاہی کا نتیجہ ہے۔ آپ بھی رکھ لیں کوئی پابندی تو نہیں۔

6۔ یہ کہ ”قادیانیوں کو اعلیٰ عہدوں پر لگوانا شروع کر دیا“ ۔ ”ائر فورس کے چیف نے قادیانیوں کے اجتماع پر ائر فورس کے طیارے سے گل پاشی کی“ ۔ ودود صاحب! کیا سی ایس پی یا فوجی افسر بغیر امتحان پاس کیے لگائے جاتے تھے؟ ہرگز نہیں اور اگر چند ایک اپنی قابلیت کی وجہ سے تھے تو پاکستانی ہونے کے ناتے یہ ان کا حق تھا۔ اور وہ نمایاں اپنے محکموں میں بہادری اور اپنی دیانت داری کی وجہ سے تھے۔ یہ قطعی جھوٹ ہے کہ کسی طیارے نے گل پاشی کی تھی۔

7۔ ربوہ چونکہ سرگودھا ائر فورس کے اڈے سے زیادہ دور نہیں اور جنگی جہازوں کی پروازیں چالیس پچاس میل کے رینج میں ہوتی تھیں اور وہ ربوہ کے اوپر سے اکثر گزرتے رہتے تھے۔ جس اجتماع کا ذکر آنجناب کر رہے ہیں اس میں خاکسار خود موجود تھا اور کوئی پھول نہیں برسائے گئے۔ اور نہ ہی ایسا اس زمانے میں ممکن تھا۔ البتہ تقریر کے دوران جہازوں کے شور کی وجہ سے خلل ضرور پڑتا تھا اس لئے ان کی دوسری بار آمد پر نعرے لگا کر وقت گزاری کی گئی۔

8۔ ”ایوب خاں نے ان کے ہاتھوں مجبور ہو کر 2 مارچ 1953 کو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا“ ۔ اب اس سراسر کذب بیانی کو کیا نام دیا جائے۔ 1953 میں لاہور میں مارشل لاء ایوب خاں نے نہیں لگایا تھا۔ جس نے لگایا تھا اس نے حکومت کی درخواست پر لگایا گیا تھا کیونکہ بد امنی بے قابو ہو چکی تھی۔ یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کہ اس تحریک میں دس ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ مارشل لاء اور کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے چند افراد مارے گئے تھے۔ البتہ ان کے ہاتھوں احمدی ضرور قتل ہوئے اور ان کی املاک لوٹ لی گئیں یا نذر آتش کی گئیں۔

9۔ ”قادیانیوں نے جسٹس منیر کی سربراہی میں ایک رکنی ٹربیونل بنوایا جو ان کے زیر اثر تھا“ ۔ یہ بھی ان کی لاعلمی کی انتہا ہے کہ یہ ٹریبونل احمدیوں نے نہیں بنوایا تھا بلکہ حکومت نے خود بنایا تھا اور یہ ایک رکنی نہیں تھا بلکہ نامور جسٹس رستم کیانی بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ بھی غلط ہے کہ ”23 لوگوں کو پھانسی کی سزا“ کا حکم ہوا تھا۔ ثابت کریں۔

10۔ ”ربوہ والا واقعہ 26 مئی“ کو نہیں ہوا تھا۔ طلباء 22 مئی کو گئے تھے اور 29 کو واپس آ رہے تھے جب یہ ہنگامہ ہوا۔ لگتا ہے کہ قریشی صاحب سنی سنائی باتوں پر انحصار کر رہے ہیں اور ان کا ذاتی علم صفر ہے۔

11۔ فرماتے ہیں کہ ”29 مئی کو ٹرین کے ربوہ رکنے کا کوئی شیڈول ہی نہیں تھا“ ۔ حالانکہ ربوہ جاتے آتے ہمیشہ ٹرین رکتی تھی کیونکہ لالیاں اور چنیوٹ کے درمیان ربوہ کے علاوہ دیگر دیہات کے لوگ بھی مسافر ہوتے تھے۔ یہ لاعلمی کی آخری حد ہے۔

12۔ ”طلباء کے ڈبے پر نشر آباد کے قادیانی سٹیشن ماسٹر نے نشان لگائے۔ جس کا ذکر اس رپورٹ (صمدانی) میں موجود ہے“ ۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ یہ لگ بھگ سو طلبا ٹرین میں شور و غوغا کرتے آ رہے تھے سبھی کو علم تھا کہ لڑکے اکٹھے جا رہے ہیں۔ نشان لگانا کہہ کر انتہا درجے کی لا علمی کا مظاہرہ کیا ہے۔

13۔ ”اس ڈبے پر پانچ ہزار قادیانی ڈنڈے آہنی مکوں زنجیروں سے مسلمان طلباء پر پل پڑے“ ۔ کاش کہ ان کو پتہ ہوتا کہ اس وقت ربوہ میں آبادی کے تناسب سے اتنے آدمیوں کی موجودگی ممکن ہی نہیں تھی۔

14۔ یہ کہ ”ایک سو طلباء زخمی آ رہے ہیں اس واقعہ کی اطلاع ریلوے حکام نے آگے کر دی“ ۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ اس وقت ربوہ سٹیشن پر متعین اسٹیشن ماسٹر عبد السمیع بھی احمدی تھے۔ اور یقیناً ربوہ کے چند نوجوانوں نے قانون شکنی کی تھی اور اس حرکت کو جماعت میں سخت ناپسند کیا جاتا ہے لیکن مولوی صاحبان جھوٹ بولتے رہے کہ مسلمان طلبا کی زبانیں کاٹ دی گئیں۔

15۔ محترم جسٹس صمدانی کی رپورٹ کو خفیہ رکھنے کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ جسٹس منیر کی رپورٹ اسی وقت منظر عام پر آ گئی جو آپ کو منظور نہیں۔ جو خفیہ ہے وہ منظور ہے۔ حیرت کی بات ہے۔ آپ اب ظاہر کروا لیں۔

16۔ ”تیرہ دن تک مرزا طاہر احمد اور لاہوری گروپ کے صدر الدین کو سنا“ اتنے بڑے صحافی سے ایسی غلطی کی توقع نہیں ہونی چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت مرزا طاہر احمد کو نہیں بلکہ حضرت مرزا ناصر احمد کو سنا گیا تھا اور ان پر ہی جرح کی گئی۔

مجھے آپ جیسے صحافی سے اس قدر لاعلمی کی توقع ہرگز نہیں تھی لیکن جب معیار اس قدر گر جائے تو یہ سب ممکن ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).