مہنگائی: اپوزیشن کا پروپیگنڈا


پرانے زمانے میں ایک بادشاہ اپنے وزراء اور درباریوں کی شاہانہ بودوباش سے بہت متاثر ہوا تو اسے خیال آیا کہ میرے وزیر وں اور مشیروں کی اتنی شان و شوکت ہے تو عوام بھی اسی طرح خوشحال ہوں گے ، یہ دیکھنے کے لیے وہ اپنے پورے لاو لشکر اور جاہ وجلال کے ساتھ عوامی بازارمیں گیا، جب بادشاہ بازار میں پہنچا تو لوگوں نے اپنی بد حالی کی وجہ سے آہ و بکا اورچیخ و پکار شروع کردی۔ بادشاہ نے اپنے وزیر خاص سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے یہ کیوں چیخ رہے ہیں وزیر با تدبیر نے بتا یا کہ بادشاہ سلامت بھوک سے چیخ رہے ہیں۔

بادشاہ نے کہا ان کے لیے راشن کا بندوبست کرو۔ اگلے دن وزیر باتدبیر نے اپنے مصاحبوں اور اپنے رشتے داروں کے گھر ضرورت سے زیادہ چیزیں بھیج دیں اور بقایا رقم اپنے ذاتی خزانے میں جمع کرا دی۔ اگلی دفعہ جب بادشاہ بازار گیا تو لوگوں نے اسی طرح چیخ و پکار کی تو بادشاہ نے وزیر سے پوچھا کہ ان تک ابھی تک راشن کیوں نہیں پہنچا؟ وزیر صاحب بولے حضور والا، وہ تو اسی دن پہنچا دیا گیا تھا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر ان کے چیخنے کاسبب کیا ہے؟

وزیر با تدبیر نے بتایا حضور والا چونکہ سردی آ گئی ہے تو یہ لوگ اب کپڑوں اور کمبل، رضائیوں کے لیے چیخ رہے ہیں۔ بادشاہ نے کہا تو اس کا بندوبست کرو۔ وزیر صاحب نے وہ بھی اپنوں کو نواز دیا اور عوام ویسے کے ویسے ہی رہے۔ اگلی دفعہ بادشاہ کے پوچھنے پر کہ یہ عوام اب کیوں چیخ رہے ہیں وزیر با تدبیر نے جواب دیا کہ جناب عالی، یہ لوگ تو آپ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ آپ نے ان کا اتنا خیال جو کیا اور اب جب بھی آپ ان کے درمیان سے گزریں گے یہ اسی طرح آپ کا شکریہ ادا کرتے رہے گے۔ بادشاہ سلامت بہت خوش ہوئے اور اپنے وزیر موصوف کو قیمتی انعامات اور خلعت سے نوازا اور عوام کے لیے سرکاری محصولات میں اضافہ بھی کر دیا گیا تاکہ ان کی فلاح و بہبود کے مزید کام بھی ہو سکیں۔

ہمارے وزیر اعظم عزت مآب جناب عمران خان نیازی صاحب فرماتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں اور یہ سب اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے جو ہماری حکومت کو ناکام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت جب بنی تو ملکی حالات بہت مخدوش تھے کیونکہ پچھلی حکومتوں نے صرف لوٹ مار کی اور ڈاکے ڈالے مگر ملک کے لیے کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے ملک کے حالات بہت مخدوش ہو گئے اور ہمارے وزیر اعظم کا بھی تنخواہ میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہو گیا مگر انہوں نے دو سالوں میں بہت محنت کی اور اپنے شاہی وزیروں کے تدبر کی بدولت آج ملک کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے اور ملک آسمان کی بلندیوں کو چھونے کے لیے پر تول رہا ہے۔

ان دو سالوں میں موجودہ حکومت کے تدبر اور حکمت سے بھرپور فیصلوں اور وزیر وں کی محنت شاقہ سے گندم کی اتنی پیداوار ہوئی کہ ہم نے دھڑا دھڑ باہر کے ملکوں کو بیچنا شروع کر دی اور اس سے پہلے ہر کسان سے وہ گندم بھی خرید لی جو وہ خود اپنے لیے ذخیرہ کیا کرتا تھا کیوں کہ ذخیرہ اندوزی کے خلاف تو جہاد کرنا بہت ضروری تھا ورنہ مافیا زور پکڑ لیتا۔ لیکن گندم کو باہر بھیجنے سے جناب آٹا صاحب غصہ کر گئے اور 35 روپے سے اٹھ کر 80 روپے تک دوڑ لگائی مگر ہماری حکومت بھی تو کھلاڑیوں کی ہے تو انہوں نے بھی اسے سینچری نہیں کرنے دی، اور 80، 70 کے درمیان تک ہی ہمت ہار کرآٹا منظر نامے سے ہی غائب ہو گیا۔

ہماری حکومت نے بھی ہمت نہیں ہاری اور باہر کے ملکوں سے تازہ گندم منگوا کر پھر سے میدان سجا دیا مگر قیمتیں وہیں کی وہیں رہیں۔ پھر گنے کی پیداور ہوئی تو حکومت نے سبسڈی دے کر چینی کی پیداوار اتنی بڑھا دی کہ خوشی کے مارے خود چینی صاحبہ بھی سینچری کراس کر گئیں۔ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا اور ملکی پیداوری حجم سکڑ تا گیا۔ ملک میں پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی اور درآمد پہ ہم نے قدغن لگا دی جس سے ہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو جو پچھلی حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا واپس زمین تک لے آئے، چاہے اس سے لارج سکیل انڈسٹری بھی زمیں بوس ہو گئی اور انفرادی آمدنی بھی گر گئی تو کیا ہوامعیشت تو مضبوط ہو گئی اور ویسے بھی یہی کیا کم ہے کہ خسارہ کم ہوا۔

محکمہ شماریات بھی حزب اختلاف کے پروپیگنڈا میں شامل لگتاہے جو ایسی رپورٹ تیار کر کے حکومتی سارے دعووں کی قلعی کھول کے رکھ دیتاہے۔ اپنی رپورٹ میں بتا تا ہے کہ مہنگائی کی شرح سال 2019۔ 2020 میں تقریباً 11 فی صد رہی جو کہ مالی سال 2017۔ 2018 میں تقریباً 5 فی صد تھی۔ پچھلے دو سالوں میں دال ماش 102 روپے، دال چنا 26 روپے، مونگ 119 روپے، چھوٹا گوشت 203 روپے، بڑا گوشت 98 روپے، آلو 40 روپے، پیاز 37 روپے، چاول 15 روپے اورمرغی کی قیمت میں 89 روپے ایک کلو پہ اضافہ ہوا۔ اسی طرح بجلی کی قیمت میں آئی۔ پی۔ پیز سے معاہدہ کر کے، ملک کے اربوں روپے بچا نے کے باوجود، فی یونٹ 4 روپے اضافہ ہوا۔ اور گیس کی قیمتوں میں تقریباً 400 فی صد تک اضافہ ہوا۔ اور ادویات کی قیمتوں کا تو سب کو پتہ ہی ہے میں اورکیا کیا گنواوں۔

چیخ اٹھے ہیں مرے گھر کے یہ خالی برتن
اب تو بازار سے مہنگائی کو واپس لے لے

دنیا میں کرونا کی وجہ سے ایک بحران کی کیفیت پیدا ہوئی تو کئی چیزیں بشمول پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور دوسری اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں حیرت انگیز کمی ہوئی اور ہماری ہوشیار حکومت کے با تدبیر وزراءکو موقع ملا کہ پچھلی حکومت کے معاہدوں کو دکھا دکھا کر یہ باور کرایا جائے کہ دیکھو انہوں نے کتنے مہنگے معاہدے کر رکھے تھے اور آج ہمیں کوڑیوں کے بھاو یہ سب مل رہا ہے مگر انہوں نے پھر بھی خریدا کچھ نہیں کہ ہمیں ضرورت ہی نہیں اور کیا ضرورت تھی انہیں لے کر ذخیرہ کرنے کی اور معاہدے میں شامل دوسرے فریق کو بھی بدنام کر دیا جس کی وجہ سے آج وہ ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں۔ مگر اب جب یہ قیمتیں ان معاہدوں سے بھی اوپر چلی گئی ہیں تو کیا ہو گیا ہم مہنگے داموں ہی خرید لیں گے اور نقصان عوام کی جیبوں سے پورا کر لیں گے اس کا تو ہمیں بہت تجربہ ہے۔

مخالفین چاہے جتنا مرضی روتے رہیں، جلسے کریں یا دھرنے دیں ان سے حکومت کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں کہ ان سے حکومت کمزور تو ہو سکتی ہے مگر ختم نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ تاریخ ہے کہ مارشل لاء کے علاوہ مہنگائی ہی ہے جس نے جمہوری حکومتوں کو ختم کیا انگریزوں کو دوسری جنگ عظیم کے بعد پڑنے والے قحط کی وجہ سے حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑے، گندم ہی تھی جس نے خواجہ ناظم الدین کو حکمرانی سے محروم کیا، جنرل ایوب جیسا حکمران بھی چینی کی وجہ سے کمزور پڑ گیا۔

اور اب تو اس بازار کی ہر چیز آسمان سے باتیں کررہی ہے اور عوام بڑی حسرت و یاس سے ان پہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کب یہ زمیں پر آئے اور ہم اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ کچھ حکومتی ترجمانوں کے اعتراف کے باوجود کہ ہمیں خطرہ حزب اختلاف سے نہیں بلکہ مہنگائی سے ہے، عملی اقدامات ندارد بلکہ الٹا یہ کہنا کہ مہنگائی نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ یعنی قلت اور بے یقینی کی صورتحال اس حکومت کی جڑیں کھود رہی ہے اور حکومتی توپوں کو رخ حزب اختلاف کی طرف ہے۔

حکومتی ایونوں میں اگر آج لرزہ طاری ہے تو یہ حزب اختلاف کے جلسوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس غریب کے دل سے نکلنے والی آہ کی وجہ سے ہے جو اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر بھی لاچار ہے اور ان کا پیٹ نہیں بھر سکتا، یہ ان خوددار سفید پوش لوگوں کے سینوں میں بہنے والے آنسو ہیں جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے فاقوں تک جا پہنچے ہیں، یہ ان مزدوروں کے رونے اور بلکنے کا شور ہے جو حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتا، یہ ان عام لوگوں کی مجبوری ہے جو گھر کا کرایہ نہ دے سکنے کی وجہ سے یا حکومتی فیصلوں کی وجہ سے گھر سے بے گھر ہوئے، یہ ان بے روزگار نوجوانوں کی مایوسی ہے جو انہیں خود کشی پر مجبور کر رہی ہے، یہ اس مہنگائی کا طوفان ہے جو حکومتی قلعہ کہ فصیلوں کو ہلا رہا ہے۔

حکومت کو اپنی ہی صفوں میں صفائی کی ضرورت ہے جو سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں وہی دراصل حکومت کے دشمن ہیں۔ مگر یہ بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا اور عام آدمی صرف دعا گو ہے کہ کاش کوئی ایسا حکمران آئے جو وزیر اعظم عمران خان نیازی صاحب کی ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنا دے جو انہوں نے حکومت میں آنے سے پہلے عوام سے کہیں۔ کوئی تو آئے جو ایسا لیڈر ہو جو انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی خوشحالی کی طرف رہنمائی کرے جو صرف میڈیا پہ سب اچھا کہنے اور اندھیروں کو روشنی بنا کر بیچنے کی بجائے، سب اچھا کر کے بھی دکھائے تاکہ غریب کے گھر بھی روشنی ہو۔

اس عہد حکومت میں ہے بس ایک خرابی
اس عہد حکومت میں حکومت کی کمی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).