دوسری بیوی کی سہ روزہ بے وفائی


میل ملاپ کی اس رسمی محفل کو دعوت کہنا تو شاید مناسب نہ ہو۔ نیویارک کی فاصلوں اور مصروفیت سے ہلکان جیون دھارا، کرچی کرچی خوابوں سے زخمی، ڈالروں ہڑکائی دوسرے درجے کی زندگی میں دعوت کی موج اور فراوانی کیسی۔ بس پینے اور جینے والوں کو پینے اور جینے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ مہمانوں میں کوئی نہ کوئی کچھ ساتھ لے آتا ہے اور فریق ثانی رضا مند ہو تو لے بھی جاتا ہے۔

ہم میزبانوں کو جانتے نہ تھے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر نوشیروان عرف شیری کی ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ اچھا نہ لگا کہ پہلی دفعہ کسی کے گھر خالی ہات جاتے۔ راستے میں ایک دکان آتی تھی جس کا نام ہی The Container ہے. وہاں سے پیپر گلاس اور پلیٹوں کے ذخیرے کے علاوہ خواتین کی چپل جوتیوں کا ایک سنہری اسٹینڈ جو بطور آخری پیس سیل پر تھا وہ ہی لے گئے۔ پڑوس میں ایک مست کالی، چیز کیک فیکٹری کا کیک لینے گھسی تو ہم سے خود کو روکا نہ گیا۔ وہاں سے TIRAMISU اطالوی کسٹرڈ کے کچھ پیس اٹھا لیے۔

میزبان خاتون اسٹینڈ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ کہنے لگیں ”میں بہت دنوں سے اسے آن لائن ڈھونڈ رہی تھی“ ۔ ہم نے مذاق کیا کہ ”اچھے مرد اور جوتوں کے اسٹینڈ آسانی سے کہاں ملتے ہیں۔“

خوش دلی سے کہنے لگیں۔ ”اب آپ کو ہمارے گھر آنے کے لیے ڈاکٹر شیری جیسے لوزر کا ریفرنس درکار نہیں“ ۔ پتہ چلا خاتون کراچی کی ہیں۔ نبیلہ نام ہے۔ سندھ کے ایک سابق گورنر کی قریبی عزیزہ ہیں۔ مانوسیت کا سبب یہ بھی محسوس ہوا کہ گھر آمد پر تحائف کے انتخاب میں کراچی کا ٹچ تھا۔ جانتی تھیں کہ یہ بندۂ نووارد اگر ملتان یا وہاڑی کا ہوتا تو کوسٹا ریکا کے کیلوں کی لوم پلاسٹک کے شاپر میں ڈال مختاریا کی طرح وڑ آتا۔ (بھائی اقبال دیوان، آپ کا لکھا کہا سب سر آنکھوں پر۔ آپ کے قلم سے ملتان اور وہاڑی کی یہ تنقیص ہم پر گراں گزری۔ اس کا ترکی بہ ترکی جواب تو آپ کے لکھے کی توسیع ہو جائے گا۔ اتنی عرض ہے کہ کراچی سے محبت بیان کرنے کے لئے ملتان اور وہاڑی سے نا انصافی کرنا ضروری نہیں۔ و-مسعود) سال دو سال پہلے کا نیویارک ہوتا تو جھپیاں پپیاں اور ان کے درمیان نیب کی فائلوں سے ابھرتی او۔ آ کی سسکیاں اس وقت تک Roar سے آتی رہتیں جب تک کوئی انگڑائیاں لے کر سینے سے بغیر فیوی کول کے چپک نہ جاتا۔ تب یہ معمول کی بات تھی۔ اب سماجی فاصلوں کی وجہ ہم نے جاپانیوں کی طرح کورنش بجائی، امراؤ جان کی طرح آداب ماتھے پر سجایا اور سوارا بھاسکر کی طرح دور ہی سے رس بھری والا نمستے کیا۔

لیونگ روم میں ڈاکٹر شیری کی البانوی بیوی گونچے (Gonxhe) راج ہنسوں کے غول میں شتر مرغ کی طرح نمایاں تھی۔ اسی نے اشارہ کیا کہ ڈاکٹر خان ٹیرس پر بیٹھے ہیں۔ نبیلہ نے البتہ ہمیں ٹیرس کے طرف لے جاتے ہوئے اشارتاً بتایا کہ چی اور شیری ایک دوسرے سے کچھ کٹے کٹے لگتے ہیں۔ ٹیرس پر شام کے سائے منڈلاتے تھے۔ ڈاکٹر شیری ریلنگ پر پیر ٹکائے، ساتھ پٹیالہ پیگ جمائے زیر لب کشور کمار کا وہ گیت گا رہے تھے کہ میرے نصیب میں اے دوست تیرا پیار نہیں۔ فون پر بتا چکے تھے کہ گھات لگ گئی ہے گونچے جسے وہ چی بلاتے ہیں۔ اس نے پہلی دفعہ بے وفائی کی۔

مردوں کی جنسی واردات اور شکست دل کا چراغاں فیس ٹائم پر مزا نہیں دیتا۔ اس کے لیے تو بالمشافہ سینہ کوبی، عزا داری اور چس لینے کے لیے تابڑ توڑ کمینے سوال ضروری ہوتے ہیں۔ ہم نے اب یہ داستان درد دل سن لی ہے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس داستان بے وفائی کا آغاز کیوں کر ہو۔ اس دوستی میں فریقین کے درمیاں اگر آپ کی حیثیت اس ڈنڈی (Beam) کی ہو، جس کے دونوں سرے پر ہم وزن پلڑے ٹنگے باہمی مسابقت میں مصروف ہوں تو طرف داری بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں صحیح یا غلط کی تقسیم واضح نہیں ہوتی۔ دونوں پلڑوں میں یا تو صرف صحیح رکھا ہوتا یا ہر غلط سودا پڑا ہوتا ہے۔ البانیہ کی گونچے اور پاکستان کے ڈاکٹر نوشیرواں خان کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس میں ان دونوں سے پہلے ایک مہمان کردار کی انٹری لازم ہے۔ وہ ہے مریانا۔

گرم جوش، تنک مزاج، شدت پسند، غلط فیصلوں کی عادی، مردوں سے ہمیشہ کی شاکی، مضبوط بدن اور کھل کے ہنسنے والی مریانا دیکھنے میں اپنے ملک گوئٹے مالا کی مشہور ریپر ربیکا لین جیسی لگتی ہے۔ اس کی اپنی داستان بھی خاصی پرلطف ہے مگر محل مضموں نہیں۔

ڈاکٹر نوشیروان ہمارے پختون دوست ہیں۔ وہ اور مریانا امریکی کی اس اسٹیٹ یونی ورسٹی کے کمیونٹی اپارٹمنٹس میں پڑوسی ہیں۔ یہ ہمارے پاکستانی اور بھارتی دوستوں کا حلقہ ہے۔ ڈاکٹر شیری نے اپنی بیگم کی داستان بے وفائی سنانے کے لیے ہمیں منتخب کیا ہے۔ انہیں اس پر مان ہے کہ ہم موساد کی طرح کہانی میں اتنے داؤ پیچ ڈال دیتے ہیں کہ اصل کرداروں کو کھوجنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ویسے ہمیں پختہ یقین ہے کہ وہ اس حوالے سے اہم فیصلے کر چکے ہوں گے۔ بس اعلان کے لیے مناسب وقت کا انتظار ہو گا۔

ڈاکٹر نوشیرواں اپنی خوش مزاج اور دلدار طبیعت البانوی بیوی گونچے کو چی کہتے ہیں اور بیگم انہیں شیری پکارتی ہیں۔ اس شادی کو بچوں کی پہنچ سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈاکٹر نوشیرواں نے اسے خشک اور ٹھنڈی جگہ پر رکھا ہے۔ پشاور کے گردونواح سے بہتر مانع حمل اور کون سی بستیاں ہو سکتی ہیں۔ چی کو دیکھیں تو اس کی جنسی کشش کی وجہ سے یہ باور کرنا مشکل لگتا ہے کہ اس سے کسی مرد کو خود کو شعوری طور پر دیر تک دور رکھنا آسان کام ہو گا۔ میاں بیوی کا نجی معاملہ ہے، سو اس پر خامہ فرسائی سے گریز۔ ممکن ہے کسی فریق میں کوئی طبی پیچیدگی ہو مگر مریانا کا خیال ہے کہ یہ ایک طرح کی same-sex marriage ہے۔ مریانا جھوٹ بولتی ہے۔ پڑوسی ہونے کے علاوہ بھی پورے سال بھر شیری کے ساتھ بطور رہائشی گرل فرینڈ رہ چکی ہے۔ خوب جانتی ہے کہ وہ خود اگر گوئٹے مالا کی کوگر تھی تو مرد کوہستانی پڑوسی ڈاکٹر شیری بھی مارخور (Ibex) سے کم نہ تھا۔ کانٹے کا جوڑ تھا۔

اسی اثنا میں کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ نوشیروان خان جی کو گونچے بہت پسند آ گئی۔ اس سے نوشیروان کو مریانا نے ہی ملوایا تھا۔ مزاجاً دونوں ایک دوسرے کی ضد تھیں۔ جواں سال دونوں ہی تھیں مگر گونچے کا بدن اور لاگ لپٹ کا انداز ساحل افتادہ، جزیرہ گمنام میں گھونگوں سیپیوں اور اسٹار فش کے اسرار سمیٹے ہوئے تھا۔

گونچے امیگریشن لاٹری میں امریکہ آئی تھی۔ تعلق سراندے، البانیہ کے اس حصہ سے تھا جو یونانی جزیرے کورفو کے قریب ہے۔ یہ پورا خطہ ہی بہت دلربا ہے، سیاحوں کا پسندیدہ مقام۔

گونچے کی ان کی زندگی میں باقاعدہ آمد سے پہلے ہی شیری کا وقت یونی ورسٹی کے نصاب اور تحقیق کے حوالے سے مشرق وسطی میں بالخصوص ترکی سعودی عرب اور مصر میں زیادہ گزرنے لگا تھا۔

اس دوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ مریانا بھی تلخی دل میں لائے بغیر نائیجریا کے کسی فٹ بالر مرد سے جڑ گئی۔ دونوں کی اس وحشت بھری رفاقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بھر بون چائنا کی کراکری اور رات کو بستر ٹوٹا کرتا تھا۔ یاد رہے کہ اپارٹمنٹس کی دیواریں لکڑی کی تھیں مکین ادھر کے بھی، باتیں ادھر کی سن سکتے تھے۔ مریانا بستر میں گلے سے سائلنسر نکال کر سوتی تھی۔ ڈاکٹر خان کا کہنا تھا کہ کیمپس میں رات کو سب سے زیادہ بستر میں اللہ کو مریانا یاد کرتی ہے۔ اس کی او مائی گاڈ کی گلے کی گہرائیوں سے بلند صداؤں سے کیمپس کے در و دیوار اور پادری سب ہی ہل جاتے تھے۔

گونچے نے وہ غلطی نہ کی جو مریانا نے کی تھی۔ اس نے لپک جھپک ڈاکٹر شیری سے شادی کرلی۔ شادی سے پہلے ہی دونوں نے ایک دوسرے کو گونچے اور نوشیروان کی بجائے چی اور شیری پکارنا شروع کر دیا تھا۔

چی سے ڈاکٹر شیری کی ملاقات کا قصہ عجب ہے۔ مریانا کے ذمے یونیورسٹی کی جانب سے بیرون ممالک میں طالب علموں کے معاملات کی دیکھ بھال تھا۔ بڑی یونی ورسٹی تھی۔ ڈاکٹر شیری ترکی کی کسی یونی ورسٹی کے میں سال بھر کے لیے تحقیق و تعلیم کی غرض سے آئے تھے۔ عثمانی دور میں عربوں کے ترکوں سے سیاسی تعلقات ان کی تحقیق کا موضوع تھا۔ امریکہ میں خفیہ ادارے اور ان کے طفیلی تھنک ٹینکس ایسے کئی پروگرامز بہت کھل کے اسپانسر کرتے ہیں۔ بات شیری اور چی کی تھی مگر مریانا کے ضروری کوائف جانے بغیر بات نہیں بن رہی تھی۔

ان دنوں خیر سگالی کا دور دورہ تھا۔ ترکی بھی یورپی یونین میں شامل ہونے کو بے تاب تھا۔ شام میں بھی فسادات کا آغاز ہونے کو تھا۔ امریکی اس جنگ میں ترکی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے۔ داعش کا سارا اسٹیج ترکی میں سجنا تھا۔ یورپ اور امریکہ کی جامعات کے طالب علموں کے منی اولمپئیڈ قسم کا ایک ایونٹ منعقد ہوا۔ چی، مریانا والی جامعہ کی شوٹنگ ٹیم کی کوچ تھی۔ استنبول آتے وقت اپنے ساتھ اپنی ہائی پاؤر رائفل لے آئی تھی۔ ترکی کسٹم کو یہ منظور نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کے علاوہ وفد کے کسی اور رکن کو اسلحہ لانے کی اجازت نہیں۔

باقی ٹیم کو تو انہوں نے جانے دیا تھا۔ پچیس برس کی چی کو روک لیا۔ سفارت خانے کا کوئی افسر استنبول میں موجود نہ تھا۔ کرسمس کی تعطیلات والے ایام تھے۔ سب چھٹیوں پر تھے۔ مریانا کا شیری جی کو فون آیا کہ ان کی کوچ کو ائرپورٹ پر روک لیا گیا ہے ۔ سخت ہراساں و پریشاں ہے۔ مدد درکار ہے۔ ترکی کی جامعہ میں ڈاکٹر شیری کے ایک ساتھی کا بھائی کسی جنرل کا داماد تھا۔ ترکی بھی اپنے پاکستان جیسا ہے۔ جنرلوں کا بہت لحاظ کرتے ہیں۔ ادھر ادھر فون کھڑکے تو طے ہوا بندوق کو ترکی کسٹم ڈاکٹر صاحب کے نام پر عارضی پرمٹ پر لے جانے کی اجازت دے گی۔ میدان کے علاوہ اس کا کہیں دکھاوا نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب ایسے ہر مظاہرے پر پرمٹ سمیت موجود ہوں گے۔ اس وقت رات ہو رہی ہے۔ کسٹم کے متعلقہ افسر گھر چلے گئے ہیں۔ اجازت نامہ شہر میں کل ڈاکٹر صاحب کی جامعہ والی رہائش گاہ پر تصدیق کے بعد بذریعہ پولیس موصول ہو جائے گا۔

البانوی گونچے کو بہت الجھن ہوئی۔ ترکوں کو وہ امریکہ سے زیادہ البانیہ کے حوالے سے جانتی تھی۔ مزاجاً اپنے قومی نشان سرمئی بھیڑیے (گرے ولف) جیسے نو۔ نان سینس، جلد مشتعل ہوجانے والے۔ جنگ بلقان میں ان کے ملک البانیہ کو ایک طویل عرصے کے بعد خلافت عثمانیہ کے تسلط سے رہائی ملی تھی۔ ایک لامتناہی تلخ اجتماعی یاد داشت تھی جو نسل در نسل منتقل ہو کر ان سب کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔ امریکا آن کر بھی گونچے پر امریکا کے سپر پاور ہونے کا رنگ غالب نہ آیا تھا۔ اندرونی آسیب اب بھی اودھم مچاتے تھے۔ گمان گزرا کہ یہ علم ہو گیا کہ وہ البانوی مہاجر ہے تو ممکن ہے اسپرنگ فیلڈ کی یہ قیمتی رائفل ہی ضبط کر لیں۔ جب کسٹم سے باقی معاملات طے ہو گئے تو اس کی جان میں جان آئی۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ مریانا کی ہدایت پر وہ شیری کی رہائش گاہ چلی گئی۔

ڈاکٹر شیری اچھا مرد تھا۔ وجیہہ اور شعور مند بھی۔ مزاج میں ایک آسودہ سی بے اعتنائی کے ساتھ اس کے مزاج میں ایک محتاط نگرانی بھی تھی جو چی پر گراں نہ گزری۔ چپ چاپ قدرے سلیقے سے اس کا کیس بھی لڑ رہا تھا۔ ایک دفتر سے دوسرے دفتر تک ساتھ رہا۔ پہلے ڈنر کرایا پھر کافی بھی پلائی۔ ترکوں میں اس کا احترام تھا۔ گھر بھی اپنی خوش رنگ قیمتی ایس یو وی میں لے گیا۔

گونچے کے اطمینان کی ایک وجہ یہ تھی کہ مریانا نے اسے بتایا تھا کہ وہ یونی ورسٹی میں اس کا پڑوسی اور دوست ہے۔ پڑھا لکھا مانا جاتا ہے۔ افغانوں کے ایک خان کا بیٹا ہے۔ یوں خاندانی مرد ہے۔ خاندانی ہونے کا تصور امریکہ میں عام نہ تھا گو ایک بہت مضبوط اشرافیہ کا وجود ضرور تھا مگر مریانا خود کو خاموشی سے محفوظ رکھ کر فروغ دینے والے اس طاقتور گروپ کی اس تہہ در تہہ شناخت سے واقف نہ تھی۔ اس نے بس اتنا کہا

Dr. Sheri Khan is every inch of a gentleman though I don’t like any one to be gentle with me over my favorite inches.

چی مردوں کے حوالے سے دیر آشنا تھی۔ ویسی سپردگی اور تھرو نہ تھا جو مریانا میں تھا۔ ماں نے ترانہ کے ہوائی اڈے پر سمجھایا تھا کہ وہ حسن میں مشہور البانوی ماڈل ایمنہ کن ملاؤ Emina Cunmulaj جیسی ہے۔ کن ملاؤ تو پھر بھی غیر معمولی طویل القامت کی مالک اور استری کی میز جیسی لگتی ہے۔ ماڈلنگ میں یہ فلیٹ فگر چل جاتا ہے۔ ایمی بچ بچا کے رہے گی تو کچھ پالے گی ورنہ Exotic Beauty   کے طلب گار امریکہ میں ہر قدم پر گھات لگائے رہتے ہیں۔ امریکن ذائقے کے معاملے میں کھلے دل، کریڈیٹ کارڈ والے لہرانے والے، بد لحاظ لوگ ہیں، میکسکن ٹاکو، جاپانی سوشی اور تائیوان کی ببل ٹی سب ہی کچھ گھٹکا لیتے ہیں۔

ماں بیٹی نے بہت غربت دیکھی تھی۔ گونچے اپنے باس کے نوجوان بیٹے دیمتری کے عشق والے چکر میں سولہ برس کی عمر میں حاملہ بھی ہو گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں دیمتری سے زیادہ اس کی اپنی امی کا قصور تھا جس نے اسے شہ دی کہ وہ اس کے ساتھ وینس چلی جائے۔ رومیو جولیٹ کے شہر کا سحر انگیز ماحول بھی بہت جان لیوا تھا۔ اٹھارہ برس کا مرد بہت جھلا ہوتا ہے۔ شادی ہوتے ہوتے دو سال لگ جائیں گے۔ وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ان کا وینس، ایتھنز میں بھی کاروبار ہے۔ تنگ آبی پگ ڈنڈیوں پر گنڈولوں کے ساتھ وہ بھی پیار کے ندی نالوں میں بہتی چلی گئی۔ دیمتری جھلا تو نہ تھا۔ بڑے سلیقے اور چاؤ سے وہ سب کچھ کیا جو ایک مرد کو کسی حسین عورت کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھی وعدے وعید کے سائباں تلے۔

اس نے اپنی والدہ سے پہلے دیمتری کو یہ بتایا کہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے، بہتر ہے کہ شادی جلد ہو جائے۔ یہ سننا تھا کہ دیمتری کے اوسان خطا ہو گئے اور دیمتری سے زیادہ اس کے والدین نے چالاکیاں دکھائیں۔ اپنے بیٹے کو ملائیشیا بھجوا دیا۔ لو پکڑ لو۔ جب وہ امریکہ سدھار گئی تب واپس آیا۔ چی کو بہت مشکل ہوئی۔ امریکہ آتے ہوئے بہت روئی۔ پڑھائی ختم ہوئی شہریت اور نوکری ملی تو اس نے دیمتری کو اور اپنی ماں دونوں ہی کو معاف کر دیا۔

دیمتری کو اس لیے کہ وہ اس سفر میں خود بہت بہک گئی تھی۔ کسی طور یہ ماننے پر راضی نہ تھی کہ یہ تعلق شادی کے علاوہ بھی کسی اور رخ پر جا سکتا ہے۔ کون سا مرد ہوگا جو ایسی جواں بدن نوخیز حسینہ سے گریز کر پائے۔ ماں کو اس لیے معافی دی کہ وہ اس کو غربت کی اس آگ کا ایندھن بنانے پر راضی نہ تھی جس میں اس کی اپنی جوانی بری طرح جھلس کر رہ گئی تھی۔

گونچے کی ماں نے جیسے ہی موقع ملا امیگریشن لاٹری میں اپنا نام اور بیٹی کا نام ڈال دیا۔ کامیابی ہوئی۔ یہاں آ گئے۔ قدم جمانے کے لیے امریکہ میں ابتدائی برس بھاری تھے۔ رائفل شوٹنگ کی بنیاد پر گونچے کو یونی ورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جلد ہی اسے وہاں اسی بنیاد پر ملازمت بھی مل گئی۔ ماں البتہ ایک بوڑھی مالدار عیسائی عورت کی دیکھ بھال اور کتے سنبھالتی تھی۔

ترکی میں ایک ہفتے کے اس قیام میں وہ ایک دوسرے کے رفیق تو رہے مگر چی نے خان جی کو رسائی نہ دی۔ فاصلے رکھے۔ گونچے نے اتنا ضرور کیا کہ انطالیہ جہاں یہ کھیلوں کے مقابلے ہو رہے تھے وہاں اسکوبا ڈائیونگ کے دوران اس نے ایک دفعہ خان جی کو اس وقت بچایا جب اس کے آکسیجن ٹینک میں سوراخ ہو گیا تھا اور وہ اسے کھینچ کے باہر لائی اور مصنوعی تنفس کے ذریعے اس کی سانس بحال کی۔ خان جی کو تیرنا تو آتا تھا مگر بلاوجہ پانی کی مچھلی جیسی چی کو متاثر کرنے کے لیے اسے کہتے رہے کہ وہ افغانستان اور ہنزہ میں اسکوبا ڈائیونگ کرتے رہے ہیں۔ چی کو سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں سمٹے ان علاقوں کی معلومات اتنی زیادہ نہ تھیں کہ اسے شیری پر شک ہوتا کہ ان علاقوں میں کیسی اسکوبا ڈائیونگ۔

خان جی کا کہنا ہے کہ انہوں نے چی کو شادی کی درخواست عین اس وقت کی جب ان کی سانس میں سانس چی کے بوسہ تنفس کی وجہ سے بحال ہوئی۔ چی کا خیال اس سے مختلف ہے۔ اس کو جلد ہی یہ یقین ہو گیا کہ خان کوئی فیصلہ خود سے نہیں کر سکتا۔ وہ اسے اپنی ماں سے ملانے لے گئی۔

ماں نے چی کو سمجھایا کہ اگر خان سے وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تو یہ کام وہ اس کی جگہ سرانجام دے سکتی ہے۔

وہ اس کی والدہ سے ملے تو اسی نے ڈاکٹر نوشیروان کو قائل کیا کہ اتنی اچھی لڑکی جو عمر میں تم سے پورے سولہ سال چھوٹی ہو۔ جسے کسی مرد نے چھوا تو کیا جس کو باتھ روم کے آیئنے بھی جی بھر کے نہ دیکھا ہو وہ مریخ پر پانی کی طرح نایاب ہے۔ چی نے ماں کے سمجھانے پر ڈاکٹر شیری سے صرف ایک ضد کی تھی کہ وہ اس کے وطن پاکستان میں اس کا رہن سہن دیکھے گی۔ اس کی ضد شیری کی کزن بیوی سے ملنے کی بھی تھی۔ جس سے اس کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ یہ بیٹا چی سے معاشقے کے دوران پیدا ہوا۔

خان نے جواباً اس سے کہا اس شادی میں بس ایک اہتمام کرے۔ مذہب کو ایک تھیلی میں بند کر کے رکھ دے۔ بدترین سچویشن میں بھی جھوٹ نہ بولے۔ بچہ کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو گی۔ اس کی ملک سے باہر نقل و حرکت پر قدغن نہ ہو گی۔

اپنی والدہ کو تو شادی کے بعد چی نے امریکہ چھوڑا اور خود پاکستان آ گئی۔ یہاں آن کر اسے لگا کہ خان اس سے کہیں زیادہ مالدار آسودہ حال اور معتبر ہے جو وہ امریکہ میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ پسر گئی کہ امریکہ بھلے آنا جانا لگا رہے، رہنا پاکستان میں ہے۔ اس نے یہ سب اس لیے کیا کہ امریکہ میں باتھ روم کی صفائی کھانے پکانا، سردی میں برف ہٹانا، اپنی کار خود چلانا، یہ سب انسانی جان کا آزار ہیں۔ اسے اپنی غربت کے حوالے سے صرف بیگم بن کر رہنا اچھا لگتا تھا۔ دیمتری کو مکمل سپردگی اور بچے کا معاملہ بھی اسی لیے پیش آیا کہ وہ ایک شارٹ کٹ کی تلاش میں تھی۔

کئی برسوں سے دونوں میاں بیوی یہاں پشاور سے ذرا دور ایک بستی میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر خان اب ایک تھنک ٹینک کے لیے پاکستان سے کام کرتے ہیں۔ ہر سال چی پہلے البانیہ پھر یونان اور پھر اپنی ماں کے پاس فلوریڈا جاتی ہے۔ سب سے کم وہ امریکہ میں قیام کرتی ہے۔

چی سے ہماری گہری دوستی ہے۔ کراچی میں اکثر ہمارے پاس ہی قیام رہتا ہے۔ اس رات جب شیری نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اس کی بے وفائی کا ذکر چھیڑا تو جانے اس کی چھٹی حس نے کیسے اسے خبردار کیا کہ موضوع زیر بحث اس کی بے وفائی ہے۔ وہ ہم دو پرانے دوستوں کے درمیاں بیٹھ گئی۔ بہت سلیقے سے اس نے موضوع چھیڑا کہ یہاں بیٹھ کر میرے اعتراف محبت پر بات کرنا بھلا نہیں۔ بہتر ہے ہمارے یا آپ کے گھر چلیں۔

ہم انہیں مین ہٹن کے ایک ریستوراں چھوٹے نواب میں لے گئے۔ خان جی نے کھانا تو ساتھ کھایا مگر کسی سے ملاقات کا کہہ کر خود نکل لیے۔ ہمیں لگا کہ ایک مہذب جوڑے کے طور پر انہوں نے اس رکاوٹ کے بھاری پتھر کو تعلقات کے غار سے ہٹانے کے لیے ہمیں ایک قابل اعتماد دوست جانا ہے۔

چی کو ویسے تو ہم نے ہمیشہ سے کم گو پایا۔ لیکن لگتا تھا کہ آج وہ بولے گی۔ اسے ایک ایسا نقطہ نظر ہماری صورت میں دستیاب ہوگا جو اس معاملے کو ایک غیر جانبدار مگر باخبر اور روشن خیال دوست کے طور پر دیکھ کر اسے کسی فیصلے پر پہنچنے میں مدد دے گا۔

شیری چلا گیا تو کہنے لگی بات کچھ بھی نہیں۔ اب کی دفعہ میں سراندے سے کورفو یونان چلی گئی۔ شیری کو میں نے بہت کہا کہ وہ ساتھ چلے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی کئی سو سالیوں میں ایک سالی کی بڑی بیٹی کی شادی ہے۔ وہ بڑا بہنوئی ہے۔ اس کی عدم موجودگی خاندان میں بہت سے سوالات کو جنم دے گی۔ مجھے یہ سہ ماہی تعطیلات اچھی لگتی ہیں۔ پاکستان میں تو بہت ڈھکا چھپا رہنا پڑتا ہے۔ میں پانی کی مچھلی ہوں۔ نیوڈ ساحلوں پر نہ منڈلاؤں، نیلے سمندروں میں نہ اٹھلاؤں تو میرا بائیو کلاک الٹا ہو جاتا ہے۔

سراندے میں بٹ رنٹ پارک کی سیر کے دوران جانے کہاں سے دیمتری پہنچ گیا۔ مجھے کہنے لگا میں نے تمہاری فرقت میں شادی نہیں کی۔ اب میں باپ کے کاروبار کا تنہا وارث ہوں۔ باپ مر گیا ہے۔ ماں مان گئی ہے۔

Butrint – Albania

کیا میں شیری کو چھوڑ سکتی ہوں۔ میرے اندر کی عورت کچھ عجب مخمصوں کی شکار تھی۔ اپنی تنہائی اور دولت کے قصے اس انداز سے سنائے کہ مجھے اپنے ایام رفاقت یاد آ گئے۔ ہم نے پھر سے وینس اٹلی کے انہیں مقامات کی سیر کی۔ مجھے وصل کی وہ راتیں، اپنا ضائع کردہ بچہ سب بہت یاد آئے۔ مجھے لگا وہ سفر جو میں نے ایک کمسن الہڑ دوشیزہ کے طور پر کیا تھا۔ اس کے جذبات اور اب تیس برس کی چی میں کوئی فرق نہیں۔ مجھے دیمتری کا والہانہ پن بھی اچھا لگا۔ شیری ایسا نہیں۔ وہ چھوتا ہے تو لگتا ہے کہ آنکھ میں آنسو آیا ہے بچھڑنے کو، بہہ جانے کو بے تاب۔ دیمتری ایسا نہیں۔ دیمتری چھوتا ہے تو مانو کسی نام چیں وائلن نواز نے بڑے کنسرٹ سے پہلے وائلن پر پیار سے کئی کئی دفعہ آنکھیں بند کر کے دھیمے سے مزے مزے لے کر گز پھیرا ہو۔ میری پور پور سے موسیقی اچھل پڑتی ہے۔

میں عجب الجھن میں تھی۔ دیمتری کی ضد اور پہلی محبت کا ذائقہ اتنا نشیلا تھا کہ ضبط کرنے کا اس وقت مجھے یارا نہ ہوا۔ جب دیمتری کی ضد اور پرانے تعلق کو دوبارہ استوار کرنے کا اصرار جاری تھا۔ اس وقت میرے لیے دو راستے تھے۔ میں یا تو اس کی خاطر ڈاکٹر شیری کو چھوڑ دیتی۔ ایسی صورت میں اپنا دیس، اپنا ماحول، اپنا پہلا پیار مجھے سب کچھ مل جاتا یا میں وہ عرصہ رفاقت جو اس کے ساتھ گزرا تھا اسے ایک دفعہ شعوری طور پر اور بے دھڑک اپنی مرضی سے جی لیتی

Say Hello to Yesterday

ہم عورتوں میں بھی بہت ہوتا ہے مگر ہمارا کیلکولیٹر اس وقت ہمیں لوٹ جانے کا اشارہ کرتا ہے جب اس پر ہندسے ٹھیک سے جگمگانے لگیں۔ میں نے دوسرا راستہ چنا۔ ایک وفادار بیوی کا۔ یہ سوچ کر کہ شیری کو جو ہوا وہ سب بتا دوں گی۔ میں قائل ہوں کہ یہ میری غلطی نہیں۔ میں پرانی محبت اور، اپنے پہلے مرد کے ہاتوں میں مجبور تھی۔ میں بہت بنیادی رویوں کی مالک ہوں۔ تعلقات میں مجھے منصف بن کر سوچنا اچھا نہیں لگتا۔ سچ پوچھیں تو میری زندگی میں لے دے کہ ساڑھے تین افراد ہیں۔ میری ماں، دیمتری، شیری اور وہ کم بخت ادھوری مریانا۔ اس مختصر سے خزانے میں بھی میں اگر افراد کو اپنی زندگی سے نکال باہر کروں تو میرا کام کیسے چلے گا۔

پاکستان واپسی آسان نہ تھی۔ میں شیری کی بیوی ضرور ہوں مگر مجھے بخوبی علم ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے سیکنڈ بیسٹ ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی پہلی ترجیح نہیں۔ میری محبت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں اس آزار کا ذکر کروں جو شیری کی رفاقت کے سکھ نے بخشا ہے۔ اس میں رفاقت کا فریب تو ہے محبت کی سچائی نہیں۔ یہ شادی ایک ٹریلر ہوم جیسی ہے۔ اس میں خاندانی حویلی والی شان و شوکت اور نہ ٹوٹنے والے تعلق کی کیفیت نہیں۔

ہم نے پوچھ لیا کہ آپ کیا اس ارادے سے واپس آئی ہیں کہ دیمتری کی طرف واپس جانا ہے؟

وہ بہت دیر چپ رہی۔ ایک فاصلہ رکھنے والی عورت کی خاموشی کا یہ عرصہ ہم پر خاصا گراں گزر رہا تھا۔ بہت دیر بعد وہ گویا ہوئی کہ میں نے اتنا دریچہ ضرور کھلا رکھا ہے کہ اگر شیری یہ سب سننے کے بعد مجھے طلاق کا کہتا ہے تو میں دیمتری کی جانب لوٹ جاؤں گی۔ دیمتری سچا مرد ہے میں نے اسے اتنا قائل کر لیا ہے کہ جب وہ مجھے چھوڑ گیا تھا اور امریکہ میں مجھے کسی مناسب مرد کی تلاش تھی شیری ہی وہ مرد تھا جو میرے لیے اس کا بہترین نعم البدل تھا۔ اس لحاظ سے شیری کا First Right of Refusal بنتا ہے۔

ہماری عمر کے تفاوت کی بہرحال ایک خلیج تھی جس سے سمجھوتا کرنا پڑا۔ اس نے مجھے حتمی جواب کے لیے چھ ماہ دیے ہیں۔

جس طرح شیری کے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ ایک متروکہ مرد سے دوبارہ کیسے تعلق جوڑا جا سکتا ہے اسی طرح دیمتری کے ذہن میں بھی میرے اس اجنبی ماحول، ملک، میں خوش رہنے اور اسے نظر انداز کرنے کے بارے میں بے شمار سوالات ہیں۔ میں البتہ اس بارے میں بہت واضح ہوں کہ یہ ان دو مردوں کے سوالات ہیں۔ میرے سوال جواب میرے اپنے ہیں۔ یہ بہت آزاد اور خود غرضی پر مبنی ہیں۔

میں اگر پیدا اپنی مرضی سے نہیں ہوئی۔ اپنی مرضی سے مروں گی نہیں تو کم از کم زندگی اپنی مرضی سے جیؤں گی۔ اس کا ہر عمل اور اس سے حاصل نتیجہ میرا اپنا ہو گا۔ تم بتاؤ میں کیا کروں۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ جب سب بات ڈاکٹر شیری کو بتا دی گئی ہے تو وہ ان کی جانب سے اشارے کا انتظار کرے۔ وہ اسے چھوڑنے کا کہے تو بحث لا حاصل ہوگی۔ یہ ایک روایتی مرد کا سوچا سمجھا فیصلہ ہوگا۔ اس میں ایک مرد کا دل و دماغ کارفرما ہوگا بس اتنا یاد رکھے کہ جو کچھ آپ کرتے ہیں اس کو ثمرات کو تو بدلا جاسکتا ہے مگر جو کچھ آپ کا دل چاہتا ہے اسے نہیں بدلا جا سکتا۔

اس دوران وہ کورفو اور وینس اکیلے جانے سے بھی گریز کرے۔ ابھی ہم یہ بات پوری کر رہے تھے کہ خان جی آ گئے۔ اس بات کو اب دو ماہ ہوئے۔

ڈاکٹر شیری کا پچھلے ہفتے واٹس ایپ پر فون آیا تھا۔ کہہ رہے تھے۔ گونچے چلی گئی ہے اور اس نے دیمتری سے وینس میں شادی کر لی ہے۔ ہم نے کہا آپ کہاں ہیں؟ تو جواب ملا ”ترکی میں مگر اب کی دفعہ کسی کی ہائی پاور رائفل چھڑانے کا معاملہ نہیں۔ رنجور تھے۔ کہنے لگے

کوئی ایسی بات کرو جس سے میرا بہل جائے”۔ ہم نے کہا پنجابی کہتے ہیں۔ جیوے میرا بھائی تے گلی گلی بھرجائی (بھابھی) ۔ آسماں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ تا دیر ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کرے۔ ویسے بھی عورتوں کے معاملے میں شاعر گلزار کی یہ بات یاد رکھیں کہ۔۔ ہر چوٹ مزہ دیتی ہے، جینے کی سزا دیتی ہے اور دل کو ہر وقت اس بات پر آمادہ رکھیں کہ کوئی جواں بدن دلفریب حسینہ قریب ہو تو اس کی جھوٹی موٹی باتیں سن کے، گنگناتی آنکھیں سن کے، جلاوے بجھاوے، بجھاوے جلاوے موم بتیاں۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan