کیا ہنر سیکھنا بےروزگاری کا توڑ ہو سکتا ہے؟ ملیے ایسے لوگوں سے جو ڈگری ہولڈرز سے زیادہ کماتے ہیں!


بلال ابھی تیرہ برس کے بھی نہیں تھے تو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر دو اینٹیں رکھ کر سٹیرنگ کنٹرول کرتے اور گاڑی چلانے کی کوشش کرتے تھے۔

آج وہ راولپنڈی میں گاڑیوں کی مرمت اور سپییئر پارٹس کی ایک بڑی مارکیٹ کے وسط میں اپنی ورکشاپ چلا رہے ہیں۔ تباہ شدہ گاڑی کو پھر سے نئی زندگی دینا ان کا کام ہے۔

ان کے والد کا ڈینٹنگ اور پینٹگ کا کاروبار ہے۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لینے تک بلال کبھی کبھار ورکشاپ آنے کی کوشش کرتے تھے لیکن والد انھیں ڈانٹ کر گھر بھجوا دیتے تھے۔

میں نے ان کے والد سجاد خان سے پوچھا کہ آپ کو کیوں پسند نہیں تھا کہ بلال یہ کام سیکھیں تو کہنے لگے میں نے میٹرک کے بعد حالات کی مجبوری کے باعث یہ کام شروع کیا آج تیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں لیکن اس شعبے کا ماحول اتنا اچھا نہیں اور میں بچوں کو ادھر اس ڈر سے نہیں آنے دیتا تھا کہ کہیں بری صحبت میں مبتلا نہ ہو جائیں اس لیے ان کی توجہ پڑھائی پر رکھنا چاہی۔

ان کے دیگر تین بچے تو پڑھائی میں بہترین رزلٹ لے کر آتے تھے۔ بلال نے بھی راولپنڈی کے ایک اچھے سکول سے میٹرک تو کر لیا لیکن پھر آئی کام کے فرسٹ ائیر کو مکمل نہ کیا اور والد کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور کہا میں گاڑیوں کا کام کرنا چاہتا ہوں۔

مزید پڑھیے

’مشکل وقت میں اگر ڈپلومہ نہ ہوتا تو مجھے نوکری نہ ملتی‘

اپنا کاروبار کرنے کے خواہشمند نوجوان درکار سرمایہ کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں؟

’وہ بازار جہاں بے صبروں سے پیسہ صبر کرنے والوں کو منتقل ہوتا ہے‘

یہ سنہ 2016 کی بات ہے۔ سجاد خان کہتے ہیں کہ میں نے اسے بٹھا کر سمجھایا اور پھر بات مان کر بلال کو اپنے ساتھ کام پر لگایا۔ اب یہ گاڑی تیار کر لیتا ہے۔ اب میں گیراج میں نہ بھی ہوں تو یہ کام سنبھال لیتا ہے۔

بلال کے والد کہتے ہیں کہ کام سیکھتے ہوئے اس کئی بار ڈانٹا اور مارا بھی یہ محنت طلب کام ہے اور بہترین رزلٹ مانگتا ہے۔

بلال سے پوچھا کہ سخت سردی اور سخت گرمی میں ڈینٹنگ پڑھائی کے مقابلے میں مشکل تو لگتی ہو گی۔

تو کہنے لگے محنت کے کام میں نہ شرم کرنی چاہیے اور نہ ہی اسے مشکل سمجھنا چاہے۔ آج میں کئی ڈگری ہولڈرز سے زیادہ کماتا ہوں مجھے پڑھائی سے زیادہ کام سیکھنا پسند تھا سو میں نے یہ کیا۔

وہ کہتے ہیں ایک مہینے میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب تو آمدن ہو ہی جاتی ہے۔

ان کے والد سجاد خان کہتے ہیں کہ کام یہ بہت اچھا ہے لیکن اس جانب بچے زیادہ تر مجبوری کی وجہ سے آتے ہیں کچھ تعلیم حاصل کر کے آیا جائے تاکہ ماحول زیادہ بہتر ہو۔

لیکن یہاں زمینی حقائق کچھ مختلف ہیں۔ 14 یا 16 سال تعلیم یعنی ڈگری کا حصول یہاں زیادہ نوجوانوں کا خواب ہے اور پھر ایک اچھی پوسٹ پر مناسب تنخواہ یا اپنا بزنس اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی زندگی۔

لیکن ایسے میں تکنیکی تعلیم یا ہنر مندی کی جانب جانا ہمیں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ والدین اور طالبعلم کی دوسری چوائس تو ہو سکتی ہے لیکن پہلی شاید کم ہی ہوتی ہے۔

آپ کو کسی ٹائر پنکچر کی شاپ پر چائلڈ لیبر کرتا بچہ تو دکھائی دے گا لیکن یہ کم ہو گا کہ آپ کسی میٹرک پاس لڑکے کو سکول سے آ کر شام میں کسی گیراج کسی پلمبر یا پھر کاریگر کی دکان پر دیکھیں۔ یعنی تعلیم اور ہنرمندی بیک یک وقت ساتھ ساتھ کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔

اب آئیے ایک نظر اعدادو شمار پر بھی ڈال لیں کہ ملک میں اس وقت ڈگری یافتہ اور بے روز گار افراد کی شرح کیا ہے؟

اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں مالی سال 21-2020 کے دوران بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ مالی سال 20-2019 کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔

لیبر فورس سروے 2017-2018 کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے بے روزگاری کی شرح 9.56 فیصد بتائی گئی ہے۔

ڈگری رکھنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریبا 3 گنا زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فراہم کی جانے والی تعلیم اور نئے تعلیم یافتہ افراد کو جزب کرنے کی معیشت کی ضرورت کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔

بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح 11.56 فیصد، 20-24 سال کی عمر والے افراد میں پائی جاتی ہے۔

ایسے میں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تکنیکی اور فنی تعلیم کے لیے قائم ادارے حکومتی سطح پر ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی، ٹیوٹا کے ماتحت چلتے ہیں۔

ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 1999میں وہاں 3856 طالبعلم تھے اور 2018 تک یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ پانچ سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔ لڑکیوں کی تعداد 31 جبکہ لڑکوں کی تعدد 69 فیصد ہے۔

ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق 65 فیصد طلبا و طالبات کو نوکریاں مل چکی ہیں جبکہ 35 فیصد بے روزگار ہیں۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ضلع ساہیوال میں محمد عدنان کی رہائش ہے۔ وہ یہیں پلے بڑھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے گھر کی ہر خراب چیز کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا تھا تو بھائی نے کہا کہ یہ ٹیکنیکلی سٹرانگ ہی اسے اسی فیلڈ میں ڈالیں۔‘

انھوں نے اپنے بھائی کے مشورے پر میٹرک کے بعد تین سال کا ڈپلومہ کیا۔

’ڈپلومے میں میں نے کمپیوٹر ہی پڑھا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بی ایس سی کی ڈگری ہمارے ڈپلومے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‘

کیا آپ نے نوکری کی لیے ڈپلومے کے بعد کوشش نہیں کی تھی۔

اس کے جواب میں عدنان کہنے لگے کہ ہم بہت جوشیلے تھے سمجھتے تھے کہ 50 ہزار کا چیک مل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا حقیقت مختلف ہوتی ہے وہاں آئس کریم کے پلانٹ میں گئے تو انھوں نے کہا جھاڑو لگاؤ۔ کچھ دن کام کیا پھر سمجھ آئی کہ نہیں ابھی مزید پڑھنا ہو گا۔ اس لیے میں نے بی ٹیک کر لیا۔

وہ کہتے ہیں کہ مجھے اینگرو میں بی ٹیک کی بنیاد پر نوکری مل گئی یوٹیلیٹی آفیسر کی اور اب میں اللہ کا شکر ہے بہت اچھا کما رہا ہوں۔

عدنان کہتے ہیں کہ اصل میں ڈپلومہ کرنے والے کے بارے میں یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ ای میل پر رابطہ کاری میں بی ایس سی اور ڈگری ہولڈر سے کم قابل ہو گا ورنہ پریکٹیکل کام میں ڈپلومہ ہولڈر ہی بہتر ہوتا ہے۔

مجھے ابتدا میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہتے تھے تجربہ لے کر آؤ لیکن شاید یہ ہر نوکری میں ہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ تجربہ ہے یا نہیں۔

عدنان کا کہنا ہے کہ میری کلاس کے سبھی لڑکوں کو کوئی نہ کوئی نوکری مل گئی تھی۔ رابطہ کرنے کے لیے ہمارا ایک وٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے۔

محمد اعجاز انہی کے ہم جماعت ہیں جنھوں نے مکینیکل میں ڈپلومہ کیا۔ لیکن ان کا تجربہ کچھ بہت اچھا نہیں رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا۔ سعودیہ کا ویزا ملا ٹیکنیشن کے طور پر نوکری ملی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے اس میں آپ سے بہت کام زیادہ لیا جاتا ہے۔ میں نے سات سال وہاں کام کیا۔‘

لیکن پھر وطن واپس آنا پڑا تو اعجاز نے یہاں نوکری ڈھونڈنے کے بجائے ایک مختلف کاروبار کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ میں نے پاکستان واپس آ کر پانچ لاکھ روپے سے ایک کنٹریکٹر کا کام شروع کیا۔

’میں ہسپتالوں کے سالانہ ٹینڈرز لیتا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ بہت اچھا کام چل رہا ہے۔‘

ان دونوں طالبعلوں کے استاد سمیع اللہ خان گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ساہیوال میں ہی موجود ہیں۔ انھیں پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ اس وقت مختلف طرح کے کورسز کروائے جا رہے ہیں اور ہم ساتھ ساتھ بچوں کی کاؤنسلنگ بھی کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ`ہمارے پاس تین قسم کی کیٹیگریز ہیں۔ تین سال کا پروگرام ہوتا ہے ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئیرنگ کروایا جاتا ہے۔ جی ٹی ٹی آئی، گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہوتے ہیں وہاں دو سال اور ایک سال کے کورس ہوتے ہیں یہ ڈپلومہ نہیں ہوتا۔ تیسرے گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس ہیں۔ اس میں بچوں کو تین یا چھ ماہ کے پروگرام آفر کیے جاتے ہیں۔’

ان تین قسم کے کورسز سے جاب کے مواقع کس قدر ہوتے ہیں؟

انھوں نے بتایا کہ ڈپلومے والے آگے پڑھ بھی لیتے ہیں۔ یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں نہ بھی پڑھیں تو کسی جگہ کسی بھی انڈسٹری میں لیب ٹیکنیشن کے طور پر کام شروع کر لیتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجسٹ ہوتے ہیں انجینئیر نہیں ہوتے۔ دو سال اور ایک سال کا کورس کرنے والوں کو باہر ملک میں بھی اچھی نوکری مل جاتی ہے۔ یا پاکستان کی اچھی انڈسٹریوں میں جیسے ہائر ہے ٹیوٹا ہے اس میں نوکری مل جاتی ہے۔

سمیع اللہ خان کہتے ہیں کہ چونکہ ٹینکنیکل انسٹی ٹیوٹ سے پڑھنے والے بچوں نے یونیورسٹی نہیں دیکھی ہوتی وہ کام کرنے کو عار نہیں سمجھتے ڈگری ہولڈرز کو اگر ایسا کام کرنے کا کہنا جائے تو وہ تو تو کہیں گے ہم نے کیا اس لیے اتنا پڑھا تھا۔

سمیع اللہ مانتے ہیں کہ اپنے 15 سال سے زیادہ عرصے کے تجربے میں انھوں نے اس نظام تعلیم میں ایڈمیشن لینے والے زیادہ تر طلبہ کو فیس کی مجبوری یا کم نمبروں کی وجہ سے اس فیلڈ کا انتخاب کرتے دیکھا لیکن ان کا خیال ہے کہ آگے آنے والے وقت میں ہنر مندی کا حصول اور انٹرپنیورشپ ہی اچھے مستقبل کی ضمانت ہوں گے۔

` میرا خیال ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ انٹرپنیور شپ کی جانب جائیں گے ہمیں جانا ہو گا۔ ہم ایسے لوگ تیار کریں جو نوکری پیدا کرنے والے ہوں نوکری ڈھونڈنے والے نہ ہو۔ ایک چھوٹی سی دکان جو دو لاکھ سے بھی شروع ہو گی کام چلے گا تو یا وہ اسے بڑھائے گا یا پھر اسی میں وسعت پیدا کرے گا اور کسی کو رکھے گا۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp