تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے



سیانے کہتے ہیں کہ زندگی موت کی امانت ہے اور موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے تآنکہ وقت مقرر آن پہنچے۔

مگر جواں سالی کی موت ہر ذی شعور انسان کو آبدیدہ کردیتی ہے۔ گزشتہ دنوں دو ساتھی صحافیوں ارشد وحید چوہدری اور شاہ نواز موہل کی موت نے دہلا کر رکھ دیا۔

گو ارشد وحید چوہدری کے ساتھ کسی صحافتی ادارے میں اکٹھے کام نہیں کیا مگر ارشد کے ساتھ شناسائی پارلیمنٹ ہاؤس کی پریس گیلری اور راہداریوں میں ہوئی اور پھر دوستی میں بدل گئی۔ گزشتہ سال ارشد وحید نے جیو ٹی وی پر ایک نیا پروگرام متعارف کروایا۔

وہ موبائل فون پر پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں سیاستدانوں کے ساتھ گفتگو کر کے ٹی وی پر نشر کرنے کی نئی روایت کے بانی ٹھہرے اور عوام کی اکثریت نے اسے شرف قبولیت بھی بخشا۔ چند ہفتے قبل اس کی بیماری کی مختلف خبریں دعا کی اپیل کے ساتھ سوشل میڈیا پر چل رہی تھی۔ دوستوں کے پاس دعا کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا خصوصاً کرونا وائرس جیسی وبا میں ہر شخص احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ ایسے میں دیگر صحافی دعاگو تھے کہ ارشد جلد صحت یاب ہو جائے گا مگر یہ ہو نہ سکا اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا۔

صحافیوں کے اپنے دکھڑے ہوتے ہیں۔ بدلتے حکومتی فیصلوں اور نئے میڈیا ٹریندز کے ساتھ صحافیوں کے بڑھتے دکھوں سے کوئی آگاہ نہیں مگر دکھوں کے ساتھ جینا اب ہماری مجبوری بن چکی ہے۔ ایک طرف خبر کے لیے سرگرداں اور خبر نہ چھپنے پر افسردگی، اور چھپ جائے تو نئے دھمکیوں، ہتک عزت کے نوٹسوں اور کچہریوں کے چکر لگانے والوں کے دکھ تو عوام نہیں جان سکتی۔ آئے روز ہم سڑکوں پر زندہ ہے صحافی زندہ ہے، زندہ ہے، کے نعرے مارتے مارتے کسی روز خاموشی سے قبر میں اتر جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔

حکمران صحافیوں سے اس لیے نالاں ہوتے ہیں کہ ”قومی بیانیے“ کو فروغ نہیں دیتے اور لوگ کہتے ہیں کہ کہیں سے لفافے مل رہے ہیں۔ ”جو گزرتے تھے داغ پر صدمے۔ اب وہی کیفیت سبھی کی ہے“ کے مصداق اب اکثر صحافی تنگدستی اور مجبوری کے عالم میں قبرستان کا رخ کر رہے ہیں۔ ابھی ارشد وحید چوہدری کی موت کے صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ عزیز دوست فرید صابری نے کوپن ہیگن میں رہنے کے باوجود صحافتی خدمات سرانجام دیتے ہوئے فیس بک کے ذریعے جواں سال صحافی شاہ نواز موہل کی موت کی خبر پوسٹ کردی۔

اس خبر نے تو جیسے دہلا کر رکھ دیا۔ بعد ازاں میں نے ”پاکستان ٹوڈے“ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر میاں ابرار صاحب سے اس بات کی تصدیق کی۔

شاہ نواز موہل کے ساتھ ”پاکستان ٹوڈے“ میں کچھ وقت ساتھ گزرا۔ شاہ نواز جذباتی نوجوان تھا۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت میں طبع آزمائی کی۔ کچھ عرصہ تک ”پاکستان ٹوڈے“ میں کام کرتا رہا بعد ازاں کالم نگاری شروع کردی۔ چند ماہ پہلے واٹس ایپ پر اس کی ایک کال آئی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں جرمنی میں ہے۔ اسی دوران انہوں نے ”بلوچستان ٹائمز“ کے لئے کالم لکھنا شروع کردیے تھے۔

شاہ نواز سوشل میڈیا پر مختلف ادبی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتا تھا، مطلب کہ کافی سرگرم جوان تھا۔ میاں ابرار صاحب نے بتایا کہ کچھ دن پہلے اسلام آباد آیا ہوا تھا اور روڈ ایکسیڈنٹ میں اس کی وفات ہو گئی۔ یہی کوئی 28۔ 30 سال کا جوان تھا، ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ شاہ نواز موہل اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ ابھی اس سحر سے باہر نہیں نکل پائے تھے کہ فیس بک پر دو مختلف لوگوں کی وال پر وحید الحسن کی موت کی خبر پڑھی۔

یقین نہیں آر ہا تھا تو شیراز ملک کو واٹس ایپ پر کال کی۔ شیراز، وحید الحسن صاحب کا چھوٹا بھائی ہے۔ اس کے ساتھ جمشید خان صاحب کے توسط سے کافی برسوں کی رفاقت ہے۔ جمشید خان صاحب بھی ریٹائرڈ بیورکریٹ ہیں اور بڑے دبنگ انسان ہیں۔ شیراز کچھ سالوں سے شادی کر کے مستقل طور پر کینیڈا منتقل ہو گیا ہے۔ وہاں رات کا وقت ہوگا اس وجہ سے شیراز سے رابطہ نہ ہوسکا تو سابق سفیر نائلہ چوہان صاحبہ کو فون کیا تو کہنے لگیں ”شمیم آج لگتا ہے جلدی اٹھ گئے ہو“ ۔

(عموماً صحافیوں کے بارے میں تاثر ہے کہ دیر تک سوتے رہتے ہیں ) میں نے اس بارے میں دریافت کیا تو انہیں بھی ابھی اس بارے میں علم نہیں تھا۔ کہا بہت افسوس ناک خبر دی ہے، صبح صبح۔ بہر حال آصف نور نے اس بات کی تصدیق کی۔ وحید الحسن، نہایت نفیس اور پیشہ ور سفارتکار تھے۔ دفتر خارجہ میں اعلی عہدہ (سپیشل سیکرٹری) سے ریٹائرڈ ہوئے، مختلف ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔ دفتر خارجہ میں ان سے ملاقات رہتی مگر ریٹائرمنٹ کے بعد رفاقت زیادہ رہی۔

بہت سے معاملات میں مختلف سوچ کے مالک تھے البتہ پیشہ ور سفارت کار ہونے کی وجہ سے ”قومی بیانیے“ پر قائم رہتے۔ 6 نومبر کو فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے طبعیت ناساز تھی ابھی کچھ بہتر ہے۔ پھر 8 نومبر کو واٹس ایپ پر پیغام چھوڑا

Dear friends، Due to my poor health condition، on the doctor advise، i m temporarily blocking whatsapp numbers۔ Will unblock them once condition is back to normal۔ Sorry for this۔ Bye for now۔ Stay safe and healthy

افسوس کہ وہ بھی سنبھل نہ پائے۔ کہنے کو تو ہم بہت مصروف ہوتے ہیں اور اپنی مصروفیات میں بعض اوقات ایک دوسرے کا فون بھی نہیں سن پاتے اور بعض تو ایسے خود غرض ہوتے ہیں کہ کال بیک کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے، یعنی کسی بات کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔ لیکن زندگی بہت بے وفا ہے۔ جانے کس وقت کس کا بلاوا آ جائے۔ پھر سوائے افسوس کے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ابھی تک اپنی فون بک سے عاصمہ جہانگیر سابق صدر سپریم کورٹ بار، مزمل حسین صابری سابق صدر اسلام چیمبر آف انڈسٹری اینڈ کامرس، طارق الہی سابق نیشنل ڈائریکٹر ”اعتماد“ اور فرانسس روفی سردار کے نمبر ڈیلیٹ کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).