عدالتوں میں خواتین وکلا اور ججوں کو درپیش ہراسانی: ’خاتون جج ہونا آپ کو اکیلے پن کا احساس دلاتا ہے، آپ کی حمایت میں بہت کم لوگ بولتے ہیں‘


ایمان، زینب، ناصرہ
’مجھے عدالت میں کہا گیا کہ آپ اللہ اللہ کریں، وکالت میں کیا کر رہی ہیں۔ کیونکہ میں نے وکالت بہت دیر سے شروع کی تو مجھے میری بڑی عمر پر وکلا کی طرف سے طعنے دیے جاتے تھے۔ ہر طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔‘

یہ کہنا ہے 89 سالہ جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کا جنھوں نے سنہ 1986 میں اپنی وکالت کا آغاز کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’خاتون جج ہونا آپ کو اکیلے پن کا احساس دلاتا ہے۔ آپ کی حمایت میں بہت کم لوگ بولتے ہیں اور زیادہ تر تو حمایت میں بولتے ہی نہیں ہیں۔‘

ناصرہ اقبال کا تعلق ان 40 میں سے 20 ججز سے تھا جن کو سنہ 1994 میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں جج کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔

ناصرہ اقبال کا کہنا ہے کہ کمرہ عدالت میں انھیں اکثر وکلا کو کہنا پڑ جاتا تھا کہ ’جب میں آپ کے کام میں مداخلت نہیں کر رہی تو آپ کیوں کر رہے ہیں؟‘

پاکستان میں خواتین ججز بہت کم ہی اعلی عدلیہ تک پہنچ پاتی ہیں اور اس شعبے سے منسلک بہت سے افراد کا خیال ہے کہ اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ ’خواتین کا عدالت میں کیا کام؟‘

یہ بھی پڑھیے

دفتروں میں جنسی ہراس کیا ہے؟

’میں بے باک لڑکی ہوں لیکن اس لمحے میرا سانس رُک گیا‘

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر اب کیوں بات کی جا رہی ہے؟ اس کا جواب ہے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کی جج ڈاکٹر ساجدہ احمد کا وہ خط جو انھوں نے حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو تحریر کیا ہے۔

اس خط کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے اس کے بارے میں بحث جاری ہے۔ اور یہ وہ ہی بحث ہے جو پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ہر شعبے سے منسلک خواتین اور مرد کرتے آ رہے ہیں یعنی کام کی جگہ کو کیسے محفوظ بنایا جائے؟ اور یہ بھی کہ کیا خواتین کو ملازمت پر رکھ لینا ہی کافی ہے؟ یا پھر کسی بھی شعبے میں بنیادی تبدیلی، جو وہاں کام کرنے والی خواتین کی ہراسانی کو روک سکے، بھی اتنی ہی اہم ہے؟

جج ساجدہ احمد نے خط میں کیا لکھا؟

’اگر میرے بڑوں نے آج کچھ نہ کیا تو میں اپنا راستہ خود چنوں گی۔۔۔ اگر اسلام میں خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں سپریم کورٹ کے باہر احتجاجاً خودکشی کر چکی ہوتی۔ کیونکہ روز روز کی بےعزتی سے ایک بار مر جانا بہتر ہے۔۔۔ اگر ان بے راہ روی کا شکار وکلا کو سنبھالا نہیں جا سکتا، تو بچیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دیجیے تاکہ کوئی عدالت تک پہنچ ہی نہ سکے۔۔۔‘

یہ اقتباس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ فتح جنگ کی موجودہ جج ڈاکٹر ساجدہ احمد کے حالیہ خط میں سے لیا گیا ہے جو انھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کو لکھا ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر ساجدہ کا شمار اُن وکلا میں ہوتا ہے جنھوں نے سنہ 2007 کی وکلا تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ مگر اب ایسا کیا ہوا ہے کہ انھوں نے خودکشی کرنے جیسا قدم اٹھانے کی بات کی ہے؟

بیس سال وکالت کے شعبے سے منسلک رہنے کے بعد جج کا عہدہ سنبھالنے والی ڈاکٹر ساجدہ احمد نے اس خط میں وہ تمام باتیں لکھ ڈالی ہیں جو مرد وکلا عدالت میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں کہتے ہیں اور یہ باتیں صرف بند دروازوں کے پیچھے کی جاتی ہیں یا ان پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ کیس کی سماعت کے دوران وکلا ’غلیظ ترین گالیاں دے کر چلے جاتے ہیں، عدالت اور ایک خاتون جج کے عہدے کا خیال نہیں کرتے۔ میرے پاس وکالت کا تجربہ ہونے کے باوجود مجھے اس قابل نہیں سمجھا جاتا کہ وکلا میری بات سُنیں۔ میرا فیصلہ سننے سے پہلے ہی چلے جاتے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ خواتین ججز کے ایک واٹس ایپ گروپ میں اسی ’مائٹی (طاقتور) مافیا‘ کے خلاف چند باتیں شیئر کی گئی ہیں جن کو پڑھنے کے بعد انھوں نے کہا کہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ ججز تو عوام کی حفاظت کا خیال کرتے ہیں لیکن خواتین ججز کی حفاظت کون ممکن بنائے گا؟

خواتین ججز کی تعداد کتنی ہے؟

اگر پاکستان کی عدلیہ کے ڈھانچے پر ایک نظر دوڑائی جائے تو اس میں خواتین ججز کی تعداد بہت کم ہے۔ خواتین وکلا کی طرف سے یکجا کیے گئے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی مجموعی تعداد 40 ہے لیکن ان میں خواتین ججز صرف دو ہیں۔ اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی مجموعی تعداد 38 ہے لیکن ان میں سے 36 مرد اور صرف دو خواتین ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد سات ہے جن میں چھ مرد اور صرف ایک خاتون جج ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ میں ججز کی مجموعی تعداد 18 ہے جن میں صرف ایک خاتون جج شامل ہیں۔ بلوچستان میں ججز کی کُل تعداد 10 ہے اور یہ تمام جج صاحبان مرد ہیں۔

سو اگر پاکستان کی اعلی عدلیہ میں ججز کی مکمل تعداد دیکھی جائے تو یہ 113 بنتی ہے جن میں سے 107 مرد اور صرف چھ خواتین ہیں۔

دوسری جانب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں خواتین ججز کی تعداد قدرے بہتر ہے لیکن وہاں سے اکثر اوقات ہراسانی اور بدتمیزی کے واقعات کی رپورٹس آتی رہتی ہیں۔

’نہیں، آپ لیٹ جائیں‘

اس کی ایک مثال ایک اور واقعے سے بھی لی جا سکتی ہے۔ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد کچہری ویسٹ کی سِول جج شائستہ کُنڈی کے پاس ایک آرڈر میں ترمیم کرنے کی درخواست لے کر وکلا کا ایک گروپ پہنچا۔

جج نے اس معاملے پر کوئی بھی آرڈر جاری کرنے سے انکار کر دیا، تو اس پر ان کے سامنے کھڑے ایک وکیل نے کہا کہ ’کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے سامنے بار کونسل کے صدر کھڑے ہیں؟‘ جج نے جواب میں کہا، ’تو میں کیا کروں؟ کھڑی ہو جاؤں؟‘ تو اس پر اس وکیل نےجواب دیا، ’نہیں آپ لیٹ جائیں۔‘

اس کے بعد وکلا نے جج کی عدالت کا بائیکاٹ کیا جبکہ شائستہ کُنڈی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ان وکلا کے خلاف ایکشن لینے کے حوالے سے خط لکھا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ہائی کورٹ کی وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ ’اس بات پر خوب شور شرابا ہوا تھا، لیکن یہ روز ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بار کونسل کا ایک رعب ہوتا ہے کہ اگر جج یا وکلا کچھ غلط کریں گے تو ان سے پوچھا جائے گا۔ لیکن یہاں یہ رواج نہیں ہے۔ بار کونسل سے منسلک ہونے کے بعد وکلا کا طریقہ کار ہے کہ وہ بدمعاشی والے مقدمات لے سکتے ہیں۔ جس کو بنیاد بنا کر وہ ججوں کو دھمکی دیتے ہیں یا ان کی قابلیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔‘

اور اس دوران خاتون ہونا مزید مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے

زینب بتاتی ہیں کہ ’میں ہائی کورٹ میں جاتی ہوں۔ وہاں ماحول قدرے بہتر ہے۔ لیکن اگر آپ ڈسٹرکٹ عدالتوں کا حال دیکھیں تو وہاں مسائل اور ہیں اور حالات دونوں صورتوں میں مشکل ہیں۔ اگر میں وکیل کے طور پر جاتی ہوں تو بھی اور اگر کوئی خاتون جج وہاں ہوں تب بھی۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’وکلا اکثر ایک خاتون جج کی عدالت میں خاص ذہنیت کے ساتھ آتے ہیں۔ یعنی اگر وہ سخت فیصلہ سنا دیں تو کہتے ہیں کہ بڑی سخت ہے، اور اگر جلدی پریشان ہو جاتی ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ وکلا گروپ کی شکل میں ان کی عدالت میں حاضر ہوں تاکہ اُن پر مزید دباؤ بڑھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ الزامات اور اس خط میں کہی گئی باتیں نئی نہیں ہیں۔‘

ایڈووکیٹ ایمان مزاری حاضر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں ان عدالتوں کا نام تو نہیں لے سکوں گی کیونکہ مجھے بعد میں انھیں ججوں کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ خواتین سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو چارج شیٹ کا مطلب بھی پتا ہے؟ یا آپ شادی کیوں نہیں کرتیں؟ یا ایک عام تاثر یہ ہے کہ خواتین کا وکالت کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یا پھر اونچی آواز میں بات کی جاتی ہے تاکہ خواتین وکلا کی آواز دبا دی جائے، اور یہ رویہ کمرہ عدالت تک محدود نہیں ہے۔‘

زینب جنجوعہ نے کہا کہ اس وقت بار کونسل کے ذریعے وکلا کا احتساب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وکلا کٹہرے میں پیش ہوں

ڈاکٹر ساجدہ کے خط پر جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال نے کہا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے کے جن وکلا نے ان کو تنگ کیا ہے ان کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ کیا جائے، تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ اس کے لیے ایک امید بار کونسل کو مضبوط بنانا ہے، جس پر تاحال جھگڑا فساد پھیلانے وکلا کا راج ہے۔ بار کے منتخب ہو کر آنے والے نمائندے ان کو کچھ نہیں کہہ پاتے کیونکہ انھیں عناصر سے ان کو ووٹ ملتے ہیں۔‘

سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ’عدالتوں کی تمام تر سماعت ریکارڈ ہونی چاہیے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کی صحیح معنوں میں تحقیقات نہیں ہو سکتیں کیونکہ قیاس آرائی زیادہ ہو جاتی ہے۔ عدالتی کارروائی ویسے بھی ریکارڈ ہونی چاہیے اور پبلک ہونی چاہیے۔ تاکہ پتا چل سکے کہ غلطی پر کون ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بار کونسل اور بار ایسوسی ایشن میں بھی ہراسانی کی شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں کئی بار کچھ شکایات سنگین ہوتی ہیں جیسا کہ ریپ یا تشدد جبکہ زیادہ تر شکایات میں بدتمیزی، کام کے دوران زبانی اور جسمانی ہراسانی کی شکایات بھی آتی رہتی ہیں۔

’ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام تر شکایات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کا حل نکالا جائے اور وہ عدالتی کارروائی کے ریکارڈ ہونے سے کچھ حد تک ممکن ہو سکے گی۔ دوسری جانب خواتین کو بھی ایسی تمام شکایات کو سامنے لے کر آنا چاہیے تاکہ بروقت فیصلہ یا کارروائی کی جا سکے۔‘

سابق جج جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا کہ ’یہ تمام تر عدالتیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور چند وکلا بھی وہی (معاشرے میں رائج) چھوٹی ذہنیت لے کر عدالت آتے ہیں۔ان میں جہاں ہائی کورٹ کا ماحول قدرے بہتر ہے وہیں کچہری میں بہت بُرے حالات ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اِن حالات میں بار کونسل ایک ایسی جگہ ہے جسے مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ماحول تو جلدی بہتر نہیں ہو پائے گا لیکن احتساب ہونے کا اور کسی وکیل کا خود کٹہرے میں کھڑے ہونے اور جوابدہ ہونے کا خوف سر پر سوار رہے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp