مار نہیں پیار


ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مار پیٹ کے ذریعے بچوں کی تربیت اور اصلاح کرنے کا خاصا رجحان پایا جاتا ہے۔ بالخصوص جب بچہ زیادہ شرارتی اور عام زبان میں بگڑا ہوا ہو۔ تحقیق کے مطابق ہر 5 میں سے 4 والدین اپنے بچوں کی اصلاح کے لئے مار کا سہارا لیتے ہیں اور ایسے ہر 10 واقعات میں سے 9 واقعات میں مار سہنے والے بچوں میں بچیوں کی تعداد نمایاں ہوتی ہے۔

کیا ہم نے کبھی کسی پتھر کو مار پیٹ کے ذریعے کچھ سکھانے کی کوشش کی ہے؟ کیا مار پیٹ کے ذریعے کسی پتھر کو بہتر کیا جا سکتا ہے؟ جواب شاید ’نہیں‘ ہے کیونکہ مار پیٹ سے ایک پتھر کو صرف توڑا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ بچہ ایک جیتا جاگتا انسان ہوتا ہے۔ اس کی شرارتیں اور کھیل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ حالات، واقعات، لوگ اور اپنے ماحول کا مشاہدہ بہت غور سے کرتا ہے اور سوچنے سمجھنے کے ساتھ ساتھ چیزوں کا تجربہ اپنے تئیں کرنا چاہتا ہے۔ اس کوشش میں اس سے نئے نئے کھیل دریافت ہوتے ہیں اور نتیجتاً شرارتیں بھی ہوتی ہیں۔ ایسے میں جب والدین اسے ہوشمندی سے سمجھانے کے بجائے اگر مار پیٹ کا سہارا لینے لگیں تو یاد رکھیئے اس بچے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ نئے تجربات سے بھی گھبرانے لگتا ہے۔

اگر میں مار پیٹ سے ہونے والے نقصانات کا تذکرہ کروں تو میرے نزدیک درج ذیل نقصانات سب سے زیادہ پہنچتے ہیں :

1) مار پیٹ سے حالات میں سدھار کے بجائے بگاڑ زیادہ پیدا ہوتا ہے

یہ بات سچ ہے کہ بچے بعض اوقات بہت تنگ کرتے ہیں، چلاتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں وہی کرنا ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ اور شاید ”اسی“ لئے وہ بچے کہلاتے ہیں۔ والدین کے حوصلے اور برداشت کی حد ہوتی ہے جب وہ حد پار ہو جاتی ہے تو بہت سے والدین شدید مار پیٹ سے اپنے اس ذوق کی تسکین کر لیتے ہیں کہ اس کے بعد بچہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا۔ تحقیق یہ بات ثابت کرتی ہے کہ مارنا پیٹنا شاید وقتی فائدہ تو دے سکتا ہے لیکن مستقبل میں اس کا نقصان کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔

کیونکہ مار پیٹ سے بچہ صرف اپنی شرارت یا غلطی کے نقصان کا خمیازہ تو بھگت لیتا ہے لیکن اس نے کس وجہ سے شرارت کی یہ سوال تشنہ رہ جاتا ہے۔ ماں باپ اگر اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے تو شاید وہ آگے محتاط ہو جاتا لیکن کیا کریں ہمیں تو بس وقتی نتیجے کی پڑی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں بچے جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں کہ والدین انہیں کسی کام سے کیوں منع کرتے اور روکتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔ اگر کم عمری سے ہی بچے کو ہر وجہ بہتر انداز سے سمجھا دی جائے اور کچھ اصولوں سے روشناس کروا دیا جائے تو اس کا مستقبل ایک ذمہ دار انسان کی تشکیل کی صورت سنور سکتا ہے۔

2) آج مار سہنے والے بچے مستقبل کے مارنے والے والدین بنیں گے

والدین یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی کل کو اس منصب پہ فائز ہو گا۔ جیسی پرورش وہ بچے کی کر رہے ہیں بچہ کل کو وہی سب کچھ من و عن اپنے بچوں کے ساتھ کرے گا۔ تحقیق اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ مار پیٹ کرنے والے والدین، اپنے بچپن میں بھی ایسے تکلیف دہ لمحات سے گزرے تھے جب معمولی شرارتوں پر ماں کی سخت ڈانٹ یا باپ سے تھپڑ اور بیلٹ کے ذریعے مار سہنی پڑی تھی۔ ایسے والدین ہر بار مارنے کے دوران اپنی آواز کا زیر و بم اور تھپڑ کی قوت میں اضافہ کرتے ہیں تاکہ بچہ زیادہ تیزی سے اصلاح لے سکے۔ حالانکہ جتنی شدت سے وہ مارتے اور چلاتے ہیں اس سے دگنے تناسب کے ساتھ بچہ اس رویے اور سلوک کا عادی ہو جاتا ہے۔

3) جسمانی اور ذہنی تشدد بچے کو بغاوت پر اکساتا ہے

جب تواتر کے ساتھ بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک باغی ان بچوں میں جنم لے لیتا ہے۔ ایسا بچہ والدین کو اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے اور اس وقت کا انتظار کرنے لگتا ہے کہ کب وہ خود انحصاری اور آزادی کا ذائقہ چکھے اور اپنے من اور مرضی کے مطابق اپنے دل کی بات سنے۔ میں اس احساس سے گزر چکی ہوں کہ پھر جب ایسے بچے کو خود انحصاری اور آزادی ملتی ہے اور وہ ویسی ہی شرارت کرتا ہے تو پھر نتیجتاً اسے اس کا نقصان پتا چلتا ہے اور پھر وہ سوچتا ہے کہ کاش ماں باپ یہی بات اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتے تو یہ سبق آرام سے سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ ایسے میں یا تو انسان سنبھل کر سبق سیکھ لیتا ہے یا پھر ذہنی امراض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ احساس جرم اور غلطی کرنے کا خمیازہ خود کو سزا دے کر بھگتتا ہے۔ اگر والدین اتنا مارنے پیٹنے کے بجائے بچے کو سمجھانے کی تگ و دو کرتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔

4) بچہ تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے

والدین یہ بات یاد رکھیں کی ایک بچہ کھلتے ہوئے پھول کی مانند ہے۔ اگر ایک پھول کو وقت مقررہ پر کھلنے سے روک دیا جائے تو کیا وہ اپنے رنگ اور خوشبو کے عروج کو پا سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ یہ غیر ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو مار پیٹ سے روئی کے جیسے دھنک کے رکھ دیں اور پھر اس سے یہ توقع بھی کریں کہ وہ آپ کے دل میں اپنے لئے اس احساس کو بھی محسوس کرے کہ آپ کتنے اچھے ماں باپ ہیں اور اس کے بھلے کے لئے اس کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں۔

بچے فطری طور پر بہت حساس ہوتے ہیں۔ وہ کم عمری سے ہی مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں کہ دوسرے لوگوں میں اور اس کے اپنے والدین میں کیا فرق ہے۔ گھر کے اور باہر کے ماحول میں کیا فرق ہے۔ یہ فرق ہی تو وہ زمین ہوتی ہے جہاں ایک نونہال اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور گھر والوں کے لئے محبت، خلوص اور عزت کی فصل کاشت کرتا ہے۔ وہ والدین کی آنکھوں سے ہی تو دنیا دیکھتا ہے۔ والدین کے لمس سے ہی دنیا کو محسوس کرتا ہے۔ اگر تحفظ دینے والے ہاتھ ہی اس پر اٹھ جائیں اور تسلی دینے والی آواز ہی اس پر طنز اور ڈانٹ کے تکلیف دہ نشتر برسانے لگے تو ایسا بچہ خاک دوست بنائے گا اور بہترین تعلیمی کارکردگی دکھائے گا؟ ہرگز نہیں۔ وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے پر مجبور ہو جائے گا کہ کیا پیار کرنے والے والدین بھی اس قدر متشدد ہو سکتے ہیں کہ میری شرارت اور تجربہ کرنے کی فطری صلاحیت کے ہی دشمن بن جائیں۔ ایسا بچہ تنہائی اور ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

5) مار پیٹ کے شکار بچوں کی قوت مدافعت بے حد کم ہو جاتی ہے

ایسے تمام بچے جو مار پیٹ اور ذہنی تشدد کا شکار ہوں وہ اسٹریس کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی قوت مدافعت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ بات بے بات ایسے بچے بیمار رہنے لگتے ہیں۔ کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور بیماریوں اپنی طرف کو متوجہ کرنے لگتے ہیں۔

پھر وہ کون سے طور طریقے ہیں جن سے ہم اپنے بچوں کی تربیت سازی کر سکتے ہیں کہ انہیں ان کی غلطی کا احساس دلایا جا سکے۔ وہ کون سا طریقہ ہے جس سے ہم انہیں سمجھا سکیں کہ جو شرارت یا کھیل انہوں نے کھیلا اس میں کیا غلط بات یا نقصان پوشیدہ تھا اور وہ اسے کیسے بہتر کر سکتے ہیں۔ بے شمار طریقے ایسے ہیں جو اپنائے جا سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک درج ذیل بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں :

1) اپنے بچے کو ڈانٹنے، مارنے یا سزا دینے سے پہلے اپنا تجزیہ خود کریں

بطور والدین ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بچہ بے حد مہذب، تمیزدار اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ہو۔ ہماری بات اور اشارہ ایک ہی مرتبہ بتانے پر ہمارا مقصد سمجھ جائے اور ہم خود کو کامیاب والدین تصور کر سکیں۔ لیکن جب وہی بچہ کسی غیر مناسب رویے کا مظاہرہ کرے تو عمومی طور پر والدین ایک زوردار تنبیہ کو کافی سمجھتے ہیں اور اس بات پر ایمان لے آتے ہیں ان کی رعب دار اور اونچی آواز اور گھورتی ہوئی سرخ آنکھیں بچے کو روکنے کے لئے کافی ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بچہ جو ایک سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے آراستہ ذی روح ہے وہ دراصل والدین کے ایسے تنبیہی رویے سے روکے جانے کی وجہ کشید کر رہا ہوتا ہے لیکن والدین کا سارا زور صرف روکنے اور کنٹرول کرنے پر ہوتا ہے وجہ سمجھانے پر نہیں۔

اس لئے بطور والدین بچے کے کسی بھی نامناسب رویے یا شرارت پر سب سے پہلے یہ سوچیں اور مشاہدہ کریں کہ کیا بچے کا رویہ یا شرارت اس کی عمر کے مطابق ہے یا آگے پیچھے ہے۔ پھر اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل دیکھیں کہ اس کو کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مثلاً دو سال کے بچے کو اگر آپ تیز آواز میں ڈانٹیں گے یا گھوریں گے اور یہ توقع کریں گے کہ وہ چپ کر کے ایک جگہ بیٹھ جائے گا تو یہ ایک بے وقوفانہ سوچ ہے۔ دو برس کا بچہ اس بات کو نہیں سمجھتا کہ اس کی لا ابالی فطرت اور کودنے پھدکنے سے والدین کیوں متاثر ہو رہے ہیں۔

اچھل کود اور بات بے بات ہر چیز پر کیوں کا سوال اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ دو سے پانچ سال کی عمر میں بچہ ایک ہی بات بار بار پوچھتا ہے کیونکہ اسے جواب اور یقین دہانی چاہیے ہوتی ہے کہ ماں یا باپ اسے جو بتا رہے ہیں وہ کافی ہے اور اس کی وجہ کیا ہے۔ اب ایسے میں اگر آپ بچے کے ساتھ اپنے مزاج سے باہر ہو جائیں گے تو اس میں بچے سے زیادہ آپ کا قصور ہے۔

2) صاف، واضح اور مثبت ہدایات دیں

آپ نے بہت مرتبہ بچے کو منع کیا لیکن وہ دوبارہ وہی شرارت یا رویہ اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا ذہن جو شعور اور لاشعور پر مشتمل ہے بہت باریک بینی سے کام کرتا ہے۔ ہمارا سوچنے کا عمل اور ہمارا ذہن صاف اور واضح، جی ہاں صاف اور واضح ہدایات کو پسند کرتا ہے۔ والدین غلطی تب کرتے ہیں جب بچے کو ہدایت یا تنبیہ ہی آدھی کرتے ہیں۔ مثلاً بچہ چھوٹی بہن یا چھوٹے بھائی یا کزنز کے ساتھ کھیل کھیل میں چٹکیاں کاٹ کر یا تھپڑ مار کر بھاگ جاتا ہے اور اس عمل کو اپنی تفریح سمجھتا ہے اور زور زور سے کھلکھلا کر ہنستا ہے تو والدین اسے کہتے ہیں اب مت کرنا، تمیز سے کھیلو، اب ایسا کیا تو کھیلنے نہیں دیں گے یا میں بہت ماروں گا اگر اب چھوٹی بہن کے ساتھ ایسا کیا۔

ان سب جملوں میں ہدایت آدھی محسوس ہو رہی ہے، ساتھ ہی بچہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے اس عمل سے کیا نقصان ہو رہا ہے۔ اب اگر اسی بچے کو اوپر درج کیے گئے جملوں کے بجائے یہ کہا جائے کہ چھوٹی بہن کے ساتھ احتیاط اور پیار سے کھیلو۔ آپ جب ایسا کرتے ہو تو اسے درد ہوتا ہے۔ اگر آپ کو بھی کوئی ایسا کرے تو آپ کو بھی درد ہو گا۔ غور کیجیئے کہ اوپر لکھے گئے جملے میں کہیں بھی نہیں کا لفظ استعمال ہوا؟ نہیں ہوا۔ یاد رکھیں کہ ہمارا ذہن منفی ہدایات کی نسبت مثبت ہدایات کو زیادہ جلدی قبول کرتا ہے۔

3) چیخنے اور چلانے کے بجائے دھیمی اور نیچی آواز میں بچے سے بات کریں

جب آپ محسوس کریں کہ بچہ آپے سے باہر ہو رہا ہے، بہت زیادہ چیخ رہا ہے، شور کر رہا ہے، دوسرے بچوں یا کسی بڑے کے ساتھ لڑ رہا ہے یا غصے سے رو رہا ہے تو آپ اپنے آپے سے باہر نہ ہوں۔ یاد رکھیں جب ہم جذباتی ہو جاتے ہیں تو ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ ہم مکمل طور پر جذبات کی رو میں بہنے لگتے ہیں۔ اس لئے والدین کو چاہیے کہ خود پہ قابو رکھیں۔ اگر چیختے ہوئے بچے کے ساتھ آپ بھی چیخنے لگیں گے تو حالات اور خراب ہوں گے اور بات مزید بگڑ جائے گی۔

اس کے بجائے پرسکون رہیں، بچے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں، آواز کو دھیما رکھتے ہوئے بچے کو اپنے ساتھ لے کر ایک طرف ہو جائیں اور اگر ممکن ہو (بچے کی عمر کے مطابق) تو اسے گلے یا سینے سے لگائیں۔ پانی پلانے کی کوشش کریں اور اسے کہیں کہ آپ اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور اسے اس حال میں دیکھ کر آپ تکلیف محسوس کر رہے ہیں۔ بچے کو احساس دلائیں کہ ہنستے ہوئے وہ بہت پیارا لگتا ہے۔ آپ دیکھیں گے بچہ چیخنا، چلانا اور رونا بند کر کے آپ کو دیکھنے لگے گا اور پرسکون ہو جائے گا۔ یاد رکھیں کہ سکون اور دھیمے پن میں بہت قوت ہے اور پچانوے فیصد سے زائد بچے اسی طریقے سے پرسکون ہو جاتے ہیں اور اپنے ساتھ لاحق مسئلے کا حل ڈھونڈ کر اپنے مزاج کو خوشگوار کر لیتے ہیں۔

4) ٹائم آؤٹ تکنیک کا درست استعمال

جب بچہ بالخصوص بڑی عمر کے بچے اپنے آپے سے بالکل باہر ہو جائیں یا ان کا رویہ ناقابل برداشت ہو جائے اور بدتمیزی پر اتر آئیں تو ٹائم آؤٹ کی تکنیک استعمال کریں۔ یعنی والد یا والدہ بچے کو کسی کمرے یا اکیلی جگہ لے جائیں اور اسے بٹھا کے بتائیں کہ ان کا رویہ کس حد تک غلط ہے اور کیوں غلط ہے اور کس طرح ماحول کو خراب کر رہا ہے۔ اس کے بعد بچے سے کہیں کہ وہ پانچ منٹ تک خاموشی سے وہیں بیٹھے اور پانچ منٹ کے بعد اگر اسے لگے کہ وہ بہتر رویہ اپنا سکتا ہے تو واپس آ کر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل میں یا محفل میں شریک ہو سکتا ہے۔

بصورت دیگر محفل کے اختتام تک وہ وہیں خاموشی سے بیٹھا رہے۔ تحقیق کے مطابق پچاسی فیصد سے زائد بچے اس تکنیک سے اپنا رویہ درست کر لیتے ہیں۔ لیکن والدین دھیان رکھیں کہ یہ تکنیک تھوڑے بڑے اور سمجھدار بچوں کے لئے وضع کی گئی ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے یہ اچھی طرح کام نہیں کرے گی۔ چھوٹے بچوں کے لئے اس تکنیک سے پہلے بتایا گیا طریقہ بہتر کام کرتا ہے۔

5) پانچ سال اور اس سے بڑی عمر کے بچوں کو نتائج ایک مرتبہ بھگتنے دیں

بڑی عمر کے بچے اگر پھر بھی اپنے رویے سے باز نہ آ رہے ہوں اور ایک ہی شرارت دہرا رہے ہوں تو انہیں ایک مرتبہ اپنی شرارت سے پہنچنے والا نقصان یا غیر مناسب نتیجہ (اگر بے ضرر ہو) ایک مرتبہ چکھنے دیں۔ مثلاً اگر چھوٹا بچہ چھلانگیں لگا رہا ہے اور گرنے کا خدشہ ہو تو احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے کسی نرم سطح پر اسے ایک مرتبہ گرنے دیں اور پھر پیار سے سمجھائیں کہ دیکھو آپ کو بتایا تھا کہ ایسے چوٹ لگ سکتی ہے۔

6) حوصلہ افزائی کے ذریعے رویے میں بہتری لائیں

بچے بہت حساس ہوتے ہیں وہ ہر شاباش اور ڈانٹ ڈپٹ کو یاد رکھتے ہیں۔ بچے کو مثبت رویے کی طرف راغب کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کا سہارا لیں۔ ان کی تعریف کریں اور ہر اچھی کی گئی بات چاہے چھوٹی سی بات ہو اس پر ان کو سراہیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں سونپ کر بھی آپ ان میں خود اعتمادی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ خود اعتماد بچے اپنے رویوں کو خود ہی بہت حد تک سنوار لیتے ہیں۔

7) درست وقت پر ہدایات اور اچھی بات سمجھائیں

جب بچے سیر یا واک پر جائیں، یا بہت خوش ہوں یا پرسکون ہوں مثلاً رات کو سونے کے وقت یا پرجوش ہوں مثلاً صبح اسکول جاتے وقت تب وہ سیکھنے، یاد رکھنے اور سمجھنے کے عروج پر ہوتے ہیں۔ ان اوقات میں کی گئی تربیت بچہ ساری زندگی یاد رکھتا ہے۔ اس لئے ایسے تمام لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اخلاقیات، خیر اور اچھائی کا ہر وہ سبق جو آپ اپنے بچے کو سکھانا چاہتے ہیں اسے بتائیں۔ میں یقین سے کہتی ہوں آپ مایوس نہیں ہوں گے۔

محبت اور اچھائی میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ یہ ناممکن کو ممکن اور انہونیوں کو ہونیوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ معجزے دکھا دیتی ہے۔ یہ اندھیروں کو روشنیوں کا سبق پڑھا دیتی ہے۔ اس لئے اپنے آپ اور اپنے بچوں سے زیادہ آپ کی محبت کا حقدار کوئی نہیں۔

یاد رکھیں والدین بننا بڑے شرف کی بات ہے۔ بچوں کی مسکراہٹ ایک ماں کو جہاں سکون دیتی ہے وہیں ایک باپ کی دن بھر کی تکان بھی اتار دیتی ہے۔ اپنے بچوں کے دوست بنیے۔ روایتی مار پیٹ کرنے والے والدین کا دور اب نہیں رہا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے ہیں جہاں انسان خود اپنے ساتھ وقت گزارنے سے وحشت محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں اپنے معصوم نونہالوں کو وقت دیجیئے تاکہ کل کو انہیں اپنے ساتھ وقت گزارنے سے وحشت اور خوف محسوس نہ ہو اور کسی ڈیوائس کا سہارا نہ لینا پڑے۔ انہیں رشتوں کی عزت، محبت، خلوص اور احساس کی وہ چاشنی دیجیئے جو ان کی آنے والی زندگی کے کسی رنگ کو پھیکا نہ پڑنے دے۔

فضیلہ حیدر
Latest posts by فضیلہ حیدر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).