سلطانی جمہور کا زمانہ


پاکستان کے قیام میں آنے کے فیصلہ کن مرحلے کے ساتھ ہی یونینسٹ پارٹی کے جاگیردار جو متحدہ پنجاب میں پہلے ہی حکمرانی کے امور میں انگریزوں کے جونیئر پارٹنر تھے اور ہندوستان کے لوگوں کی محنت پہ ڈاکہ ڈال کر موج میلہ کر رہے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ پاکستان بننے کے بعد یہی ٹولہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ گیا۔ اپنے مفادات کے پیش نظر وفاداریاں بدلنے کا سیاسی کلچر آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ ہماری سوسائٹی کاجزولانیفک بن چکا ہے۔

ضیائی مارشل لا میں 1985 کے غیر جماعتی الیکشن اور بے لگام کرپشن کے بطن سے نو دولتیوں کے طبقہ (class of nouveau riche) نے جنم لیا۔ جاگیردار اور نئے دولت کے پجاری اقتدار کے ایوانوں پرقابض ہو کر ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ گروہ مافیہ بن کرملک کے ہر شعبے کو اپنی گرفت میں لے چکاہے۔ اس مافیہ کا گاڈ فادر ( (God۔ Fatherٖ بہت بڑا خطرہ بن کرملکی سالمیت کو چیلنج کر رہا ہے۔ قومی سلامتی کولاحق خطرات کی حالیہ رپورٹ اس بات کی متقاضی ہے کہ اس عفریت (Monster) سے نجات پانے کے لئے ایک بہت بڑی جراحی کی ضرورت ہے۔ اس سے کم اقدام سے اس پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔

مافیہ کے کارندے جمہوریت کے نام پر الیکشن کے موقع پر ہر اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں جس کی جیت غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے یقینی بنا دی جاتی ہے۔ ٹکٹ کی خرید و فروخت کے بازار سج جاتے ہیں۔ اربوں کھربوں کے کھیل میں ووٹ کی بھی قیمت لگ جاتی ہے۔ غریب ووٹرکا چند دنوں کے لئے چولہاگرم ہو جاتا ہے۔ حکومت بننے کے بعد ووٹر انصاف کے حصول کے لئے تھانے اور کچہری سے ریلیف لینے کے لئے اپنے منتخب کردہ ”خادم“ کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ لیکن ذلت کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاٍتا۔ آج بھی ”مدینے کی ریاست“ میں کوتوا ل اور قاضی کی مٹھی گرم کیے بغیراسے انصاف نہیں ملتا۔ لوٹوں کی سیاست اورالیکشن پر کروڑوں اربوں کے اخراجات پر پابندی لگائی جائے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو بار بار الیکشن کا ڈرامہ رچانے سے ملکی بحران مزید شدت اختیار کرتا جائے گا۔

اسمبلیوں میں پروفیشنل، مرد و خواتین کی اکثریت ( 95 فیصد) ۔ ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل، انجنیر، اسکولوں کے اساتذہ، کسان، مزدوروں کی نمائندگی کے بغیر جمہوری ادارے جڑ پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کے حق میں قانون سازی ہو سکتی ہے۔ کسانوں سے 1400 روپے فی من گندم خرید کر 3000 روپے فی من بیچی جا رہی ہے۔ کسانوں اور عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ ذخیرہ اندوز اور سمگلر تجوریاں بھر رہے ہیں۔ حکومت آئندہ سال گندم کی سرکاری قیمت 1600 روپے سے زیادہ بڑھانے سے گریزاں ہے۔

بالا دست طبقے جمہوریت کے نام پر ناجائز دولت کے ذریعے عوام کو یرغمال بنا کراقتدار کے ایوانوں پر قابض ہیں۔ موجودہ طبقاتی نظام میں پاکستان کی جمہوریت کو ”سرمایہ داروں کی حکومت، سرمایہ داروں کے ذریعے، سرمایہ داروں کے لئے“ کا نا م ہی دیاجا سکتا ہے۔ جمہوریت عوام کی اکثریت کی نمائندہ حکومت کا نام ہے۔ یہی جعلی جمہوری حکمرانوں کا گروہ مٹھی بھر بالا دست با اثر لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے نام نہاد منتخب نمائندے جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک دن کی روٹی کما کر نہیں کھائی۔ جو بندہ کام ہی نہیں کرتا اس کو عام لوگوں کے مسائل کاعلم ہوتاہے اور نہ ہی احساس۔ وہ قانون سازی کا اہل ہی نہیں ہو سکتا۔ موجودہ نظام حکومت کو کوئی بھی نام دے دیں۔ کسی بھی معیار پر پرکھ لیں۔ یہ جمہوریت نہیں ہے۔

عوام کو آزادی کے ساتھ جینے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے برابری کے حقوق ملنے سے ہی پر امن سوسائٹی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ چار دیواریوں کے اندر بڑے بڑے محل بنا کر اور آہنی دروازوں پر مسلح گارڈز۔ عوام سے کٹ کر آخر کب تک حکمرانی کرتے رہو گے۔ آئین عوام کو پاکستان کے آزاد شہری تسلیم کرتا ہے۔ لیکن حکمران ان کو اپنی رعایا سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے۔

میں نے اقوام متحدہ کے اکتیسویں ( 1976 ) جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ پوری دنیا کے نمائندوں سے ملنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ ناروے کے نوجوان مرد و خواتین نمائندوں سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ اپنے ملک میں ا سکول ٹیچر ہیں اور ناروے کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں۔ وہاں کی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے متناسب نمائندگی کے طریقہ انتخاب کے ذریعے پارلیمنٹ میں پہنچے۔ حقیقی جمہوری ملکوں میں کسی بھی شہری کے  سیاست میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں۔ متوسط اورنچلے طبقوں کے لوگوں کی اکثر یت ہی اسمبلیوں کے ممبر بن کر حقیقی جمہوری نظام کونافذ کرتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھو۔ کوئی بھی جمہوری نظام با اختیار لوکل گورنمنٹ کے بغیرکامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کا جڑ پکڑنا تو دور کی بات ہے۔ (Empower the People for the democracy to succeed and take root۔ )

سلطانی جمہور کے قیام اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے ریاست ہر بچے کی صحت اور تعلیم کے لئے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی پابند ہے۔ دور رس زرعی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ کسانوں کو کم از کم ساڑھے بارہ ایکڑ زرعی اراضی ملکیت کی بنیاد پر دے کر کواپریٹو فارمنگ کو فروغ دے۔ اراضی کی قیمت اجناس کی شکل میں آسان قستوں میں وصول کی جائے۔

پارلیمنٹ کا انتخاب متناسب نمائندگی پر ہو۔ سربراہ مملکت کا انتخاب ڈائریکٹ ووٹ سے ہو۔ جرمنی اور بیشتر ممالک میں انتخابات متناسب نمائندگی پر ہوتے ہیں۔ پروفیسر منتخب ہو کر پارلیمنٹ کے ممبر بنتے ہیں۔ اکثر وزیراعظم اور وزیر پی ایچ ڈی (PhD) ہوتے ہیں۔

ملک کا سیاسی بحران حکمران طبقوں کے درمیان مفادات کی لڑائی ہے۔ اس میں ملک اورعوام کا مفاد کہیں نظر نہیں آ رہا۔ اگر آج محنت کش، مزدور اور کسان، سکول ٹیچرز اور متوسط طبقے کے پروفیشنلز منظم ہو کر اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں تو آج کے اپوزیشن اور حکومت کے کرتا دھرتا جو آپس میں دست و گریبان ہیں۔ عوام کے خلاف ایک صف میں کھڑے نظر آئیں گے۔ لوگوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ اپنے حقوق کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے۔

متحد ہو کر ان وراثتی اور خانقاہی سیاست سے جان چھڑائی جائے۔ آخرکب تک ان سیاسی مداریوں اور ان کے بچہ جموروں کا جمہوری تماشا تماشائی بن کر دیکھتے رہو گے اور استحصالی طبقہ کی غلامی کے طوق کو اپنے گلے کی زینت بنائے رکھوگے۔ محب وطن مقتدر حلقوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ عوام ہی اس ملک کی اصل قوت اور وارث ہیں۔ جن کا اس دھرتی کے سوا اورکوئی ٹھکانا نہیں۔ (People of Pakistan are the real stake holders۔ )

ان پر بھروسا کریں۔ اگر ان کوموقع ملا۔ لوگ ہر قسم کے فرسودہ ثقافتی، سماجی۔ معاشرتی اور معاشی بندھنوں سے آزادی حاصل کر کے باوقار زندگی گزاریں گے۔ یہ ایسی قوت بن جا ہیں گے۔ کہ پہاڑوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ ویت نام کے مزدوراور محنت کش ہی تھے جنہوں نے ہوچی منہ (Ho Chi Minh نے (کی قیادت میں دنیا کی سپرپاور کو اپنے ملک کے جنگلوں میں دھول چٹائی تھی جو آج تک اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں۔ تاریخ کا ایک بہت بڑا سبق یاد رکھنے کا متقاضی ہے۔

جب ظلم سہتے سہتے محنت کشوں، مزدوروں اورکسانوں کی خفیہ توانائی کو باہر نکلنے کا راستہ مل جائے تو دنیا کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت جدید ہتھیاروں سے لیس ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی (when the latent energy of the masses under the yoke of exploitation is finally released no technological military power can stop them to win their respectable place in the comity of humankind۔ ) آج کے جدید دور میں ویت نام اور افغانستان کی جنگوں کا یہ بہت بڑا سبق ہے۔

پاکستان کے لوگوں نے ہی بے مثال قربانیاں دے کرملک بنایا۔ اس کی تعمیر کی۔ اور ایٹمی قوت بنا کر ناقابل تسخیر اور لا زوال بنا دیا۔ دہشت گردی نے ملک کو ایک لمبے عرصے تک ایک بڑی بحرانی کیفیت سے دو چار رکھا ہے۔ لیکن ہماری فوج نے اس چیلنج کا بہادری سے مقابلہ کیا اور جان کی بازی لگا کر کامیابی حاصل کی۔ لوگوں کی بھرپور حمایت کے ساتھ یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ بھارت کی مودی سرکار پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ داخلی انتشار پیدا کر کے ملک کو عدم استحکام دو چار کرنے کی سازشوں میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ کشمیری عوام بھی اس کو شکست فاش دیں گے۔

اپنے نقطۂ نظر کے بیانیے کے اختتام سے پہلے جو بہت اہم بات کرنا چاہتا ہوں وہ تعلیم اور صحت کے متعلق ہے۔ دونوں شعبوں میں رسائی کے مواقع ہر بچے کو مفت بلا کسی تمیز یا سٹیٹس کے ملنے چاہیے۔ آئین میں ان حقوق کی گارنٹی دی گئی ہے۔ دولت کی تقسیم مساوی ہو۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق ملے۔ ضرورت سے زیادہ قومی خزانے میں جمع ہو۔ جو اجتماعی کاموں میں صرف ہو۔ یہ آسمانی باتیں نہیں ہیں۔ اس دھرتی پر یہ سہولتیں بہت سے ملکوں میں حاصل ہیں۔ اسی لئے تو ہمارے لوگ ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔

پاکستان ایک امیر ملک ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ بہت بڑی قوت انسانوں کی ہے۔ اس کو سرمایہ داری کے نظام میں ہیومن کیپیٹل کا نام دیا جاتا ہے ۔ تعلیم سے ان کی پیداواری قوت بڑھے گی۔ اقوام متحدہ کی ”انسانی ترقی کے انڈیکس“ کی فہرست میں پاکستان کا نام صف اول کے ملکوں میں آ جائے گا۔ غربت سے نجات مل جائے گی۔ ملک قرضے کی لعنت سے بھی چھٹکارا حاصل کرلے گا۔

علم ایسا نشہ ہے۔ جس کے حصول کے لئے انسان بے قرار رہتا ہے۔ علم کے سمندر کی گہرائی اور وسعت لا محدود ہے۔ اس سے باہر آنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس نشہ سے دولت کا نشہ ہرن ہو جاتا ہے ۔ اس نشے کی حقیقت کا ادراک اور احساس اس وقت ہو سکتا ہے جب اندلس میں مسلمانوں کی حکومت اوریورپ کے اس دور کا مطالعہ کریں جس دور میں ابن سینا ( 890۔ 1037 ) اورابن رشد ( 1126۔ 1198 ) نے اپنے علمی erudition کا سکہ پور ے یورپ میں منوایا تھا۔ آج تک یورپ اور دنیا ان کی احسان مند ہے۔ قرآن ہماری مقدس کتاب کا پہلا سبق ہی علم سے شروع ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک علم کی بدولت خوشحال ہیں۔ آج کا دور نالج اکانومی کا دور ہے۔ لوگوں کو علم کے حصول کے مواقع ملنے سے بے روزگاری اور کرائم کی شرح اس قدر کم ہو جائے گی کہ ہر بندہ، مرد۔ و۔ زن بلا خوف و خطر قانون کی بالادستی کے دائرہ میں زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوگا۔ لندن کے محلوں میں بسیرا کر کے لوگوں پر حکومت کرنے کے راستے بند ہو جائیں گے۔ آؤ مل کر پر امن سماج کی تعمیر کریں۔ ایک دوسرے کے جینے کا حق تسلیم کریں۔ جہالت کے اندھیرے علم کی روشنی سے ہی دور ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).