الیکشن نتائج مسترد کرنے کی روایت کب ختم ہو گی؟


ڈھول کی تھاپ پر میدان میں مقابلے کے لیے اترنا بہادری نہیں، درحقیقیت بہادری یہ ہے کہ انسان ہار کے بعد کھلے دل سے اپنی شکست یہ کہتے ہوئے تسلیم کرے ”مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا“ ، لیکن عہد حاضر میں ایسے بہادر مقابلہ باز ناپید ہیں، چراغ زیبا لے کر ڈھونڈیئے! شاید مل جائیں، ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نصیب میں ایسے حکمران نہیں ہیں، جو کھلے دل سے شکست تسلیم کر یں اور جمہوری رویے کی داغ بیل ڈالیں، ہر بار الیکشن ہو جانے کے بعد شکست خوردہ لوگ دھاندلی کا نعرہ لگاتے ہوئے الیکشن مسترد کردیتے ہیں، الیکشن سے پہلے عوامی جلسوں میں اپنی کارکردگی پر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، عوام کی بے مثال حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں، خود کو تیس مار خان ثابت کرتے ہیں۔

بے پناہ حوصلہ اور بہادری کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اوراسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے تیر برساتے ہیں، ایوان اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سرگوشیوں کو سننے کا دعوی ٰ کرتے ہیں، ، کارکنوں کی جان نثاری پر داد و تحسین کے ڈنگرے برساتے ہیں، پارٹی رہنما علاقے کے مقبو ل ترین اور مضبوط ترین امیداوار کو پارٹی ٹکٹ دیتے ہیں، لیکن جب الیکشن میں متعلقہ امیدوار الیکشن ہار جاتا تو یہ حضرت روایتی، قدیمی اور مکروہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ”الیکشن چوری ہو گیا ہے“ ۔

یعنی آپ منہ میں چوسنی لے کر الیکشن کے میدان میں اترے تھے کہ مخالف امیداوار نے آپ کا الیکشن چوری کر لیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جوامیدوار اپنے ووٹ کو چوری ہونے سے نہ بچا سکا وہ عوام کے حقوق کی کیا خا ک حفاظت کرے گا۔ میں نے عرض کیا ہے نا کہ میدان میں جا کر لڑنا ہی بہادر ی نہیں ہے بلکہ ہار نے کے بعد کھلے دل سے شکست تسلیم کرنا اصل بہادری ہے۔ مگر افسو س ہمارے معاشرے میں جہاں اور بہت سے مثبت رویے نہ پنپ سکے۔

وہاں یہ رویہ بھی موسموں کے جبر کی بھٹی میں جل بجھا اور تن آور شجر بننے سے رہ گیا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ملک کا سیاسی منظر نامہ ابہام، کشیدگی، بہتان طرازی، اورالزام تراشی سے آلود ہ ہے۔ پندرہ نومبر کو گلگت بلتستان کے دس ضلعوں میں الیکشن ہوا جس میں پی ٹی آئی نے 9، پاکستان پیپلز پارٹی نے 3 نے اور مسلم لیگ نون نے 2 سٹیں حاصل کیں، 7 نشستیں آزاد امیداوار ں نے حاصل کیں۔ الیکشن کے نتائج موصول ہوتے ہی مسلم لیگ ن، اور پیپلز پارٹی نے سیاسی جماعتوں کی قدیمی روش کو برقرار رکھتے ہوئے الیکشن نتائج مسترد کردیے، دراصل عوام نے ان لوگوں کو مسترد کر دیاتو انھوں نے الیکشن مسترد کر کے اپنا غصہ اتارا ورنہ کسی دانا کی یہ کہی ہوئی بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی الیکشن چوری کرتی تو سادہ اکثریت تو لیتی۔

نیز اس الیکشن میں چار ایسے امیداوار آزاد حیثیت سے جیتے ہیں جو الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی میں شامل تھے لیکن پی ٹی آئی نے ان کو ٹکٹ نہیں دیا چناچے وہ آزاد امیداوار کی حیثیت سے میدان میں اترے اور کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ یہ نکتہ اہل فہم کے لیے ہے کہ جو سیاسی پارٹی اپنی نا قص سیاسی بصیرت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے چار ایسے امیداوارں کو ٹکٹ دینے سے معذرت کر لیتی ہے جن کی جیت یقنیی تھی، اچانک اس پارٹی میں اتنی ہوشیاری در آئی کے ملک کے دو بڑی سیاسی پارٹیوں کا الیکشن چوری کر لیا، اور دنوں پارٹیاں پولنگ بوتھ پرکھڑی منہ دیکھتی رہیں۔

تعجب کی بات یہ ہے مذکورہ سیاسی جماعتوں نے بارہا اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھا ہے، نیز دونوں سیاسی جماعتوں کو، الیکشن لڑنے کا کئی سالہ تجربہ بھی ہے، اس کے باوجود یہ سیاسی جماعتیں کمال ڈھٹائی سے راگ آلاپ رہی ہیں کہ الیکشن چوری ہو گیا ہے۔ جن پارٹی رہنماؤں میں جمہوری رویے کا فقدان ہے وہی رہنما جمہوریت کا راگ آلاپتے ہیں۔ قوم و فعل کا تضاد معاشرے کو مضبوط اساس فراہم نہیں کرتا۔ عوام اپنے رہنماؤں کے طرز عمل کو اختیار کرتی ہے۔ حکمرانوں کے کاندھوں پردوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، رہنمائی کی بھی اور تربیت کی بھی۔ لیکن خدا جانے حکمران کب سمجھیں گے کہ، ڈھول کی تھاپ پر میدان میں مقابلے کے لیے اترنا بہادری نہیں، درحقیقت بہادری یہ ہے کہ انسان ہار جائے تو کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).