میرے پاس کوئی ڈرائی کلیننگ مشین نہیں


بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ لکھنے کی عادت بھی ایک بیماری ہے۔ آپ لکھتے کیوں ہیں؟ کیونکہ آپ سوچتے ہیں۔ آپ مشاہدہ کرتے ہیں۔ آپ چیزوں کو اپنے سامنے ارتقائی مراحل طے کرتے دیکھتے ہیں۔ پھر آپ وہ لکھتے ہیں جو بالکل کلیئر ہو۔ کلیئر سوچنے کے لیے آپ کا اپنے آپ کو بھی کلیئر کرنا ضروری ہے۔ سوچ کے نظریات کے حوالے سے ہم سنتے آئے ہیں۔ کہ جی ایک رائٹ ونگ ہوتا ہے۔ ایک لیفٹ ونگ ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایک وچ کارلا (درمیانہ، مجھے پنجابی لفظ زیادہ بہتر لگا) ونگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو کبھی لیفٹ کی سائیڈ پہ ہو جاتا ہے۔ کبھی رائٹ کی سائیڈ پہ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ جدھر بھی ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ان کے مفاد اسی ونگ سے جڑے ہوتے ہیں۔

خیر یہ ان کی خالصتاً اپنی مرضی ہے۔ کہ جو چاہے کریں۔ مگر عرض یہ ہے کہ دوسروں کو اپنے تابع کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ رات مولانا خادم رضوی انتقال کر گئے۔ فیس بک، ٹویٹر ہر جگہ شور مچ گیا۔ موت ظالم ہے۔ ظاہر ہے کسی کی بھی موت کی خبر سن کے افسوس ہونا فطری بات ہے۔ مگر یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک انسان جس کی زندگی سے براہ راست ہر ذی شعور، اقلیتوں اور انسانوں کو خطرہ تھا۔ اس کی موت سے ایک دم ان کے وہ سارے حوالے، وہ ساری کہی گئی باتیں، وہ دھمکیاں وہ گالیاں، وہ اقلیتوں سے سلوک اور سر تن سے جدا کے نعرے دھل کیسے گئے۔

2017 کا فیض آباد دھرنا کسے بھولے گا۔ ہم لاہور میں ہی ایک رشتے دار کے گھر شادی پہ گئے تھے۔ لیٹ ہو گئے تو وہیں رک گئے کہ صبح صبح واپس چلے جائیں گے۔ صبح واپس آنے لگے تو معلوم ہوا کہ شہر بند ہو گیا۔ اس دن پتہ چلا کہ مولانا اصل میں کون ہیں (گل وچ ہور اے ) ۔ تین دن ہم پھنسے رہے۔ نہ کپڑے نہ سویٹرز بچے برے حالوں میں اور ہم بیٹھے ہیں کہ اوبر سروس کھلے۔ روڈز کھلیں تو گھر جائیں۔ تین دن کی ذلالت کاٹ کے گھر لوٹے۔ اسلام آباد والوں نے سترہ دن یہ ذلالت کاٹی۔ ٹی وی پہ لائیو کوریج سوشل میڈیا پہ ان کی وڈیوز دیکھ دیکھ کے جی ہولتا رہا کہ یا خدا یہ ہم کس طرف کو جا رہے ہیں۔ یہ سب بالکل ٹھیک نہیں ہو رہا۔ ریاست کہاں ہے۔ پھر پتہ چلا ریاست ہی ہزار ہزار کرائے کا دے کر گھروں کو بھیج رہی ہے۔ سوالیہ نشان پیدا ہو گیا جناب۔

میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتی۔ میں ان کے اعمال سے نفرت کرتی ہوں۔ کہیں نہ کہیں میں انہیں مارجن بھی دیتی ہوں کہ سدھر بھی سکتے ہیں۔ چند لوگ ایسے ہیں جن کی میری زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ میں ان سے نہ ملنے کا غم محسوس کرتی ہوں۔ انہی میں عبدالستار ایدھی اور عاصمہ جہانگیر بھی ہیں۔ موصوف نے جن ارشادات سے ان کو نوازا ہے۔ وہ ان کے سوگ میں ڈوبے ہمارے ساتھی بھول سکتے ہیں۔ میں نہیں بھول سکتی۔

ممتاز قادری کی پھانسی پہ میری بچی سکول میں پھنس گئی تھی۔ آٹھ بجے رات جب بچے گھروں کو لوٹے تو جان میں جان آئی تھی۔ جن لوگوں سے بچوں کی سکول بسیں بھی محفوظ نہ ہوں، عام شہری جن کا کوئی بھی سیاسی و مذہبی رجحان بھی نہ ہو، وہ گھر سے روزی کمانے نکلے اور اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے گا؟ وہ قادری جس نے سلمان تاثیر کو اس لیے مار دیا۔ کہ وہ آسیہ بی بی کے حق میں بولا۔ ہیرو سلمان تاثیر تھا۔ قادری نہیں۔ آپ قاتل کو گلوریفائی کر کے اپنے مفادات حاصل کرنے والے شخص کو کیا کہیں گے۔

یہ چلن بس ہمارے معاشرے اور وطن عزیز میں ہی بکثرت پایا جاتا ہے کہ آپ ریپسٹ ہوں، قاتل ہوں، لوگوں کی زندگیاں حرام کرنے والے ہوں۔ آپ کی موت نے آپ کو پاک صاف کر دینا ہے۔ میرے ایک عزیز کی پچھلے دنوں ڈیتھ ہوئی۔ مرحوم نے جیتے جی میری زندگی حرام کیے رکھی۔ میرا بچپن تباہ کر چھوڑا۔ ان کی موت کی خبر سن کے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ ان کے جنازے پہ بڑے تردد سے پہنچی مگر بمشکل ایک آنسو آنکھ سے ٹپکا۔ وہ صرف اس بے بسی کو محسوس کر کے جو موت نے انہیں دی۔

مجھے کوئی ایک لمحہ بھی ایسا یاد نہ آیا جن میں ان کی جانب سے کچھ اچھا ہوا ہوتا۔ اور میں اسے یاد کر کے رو لیتی۔ جو برا تھا۔ وہ مر کے بھی برا ہی رہا۔ لوگ اچھوں کو روتے ہیں۔ اچھے کی اچھائیوں کو یاد کر کے روتے ہیں۔ کیا کبھی کسی میت پہ یہ بین سنے۔ ہائے مرنے والا بڑا شرابی زانی تھا۔ ہائے اب شراب کون پیے گا۔ ہائے مرنے والے نے دس بندے قتل کیے تھے۔ اگلے قتل کون کرے گا۔ اس کی بجائے مرحوم یا مرحومہ کی صفات و اچھائیاں ہی بیان کی جاتی ہیں۔

ٹھیک ہے مرحوم اپنے خاندان کا قیمتی اثاثہ ہوں گے۔ ان کے مریدین کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ سب سوگ میں ہوں گے۔ تو جناب جو چند لوگ بے چارے اس بات پہ اطمینان میں ہیں کہ مرحوم کے پھیلائے گئے شر سے کئی لوگ محفوظ رہیں گے تو انہیں اس اطمینان کے ساتھ قبول کر لیجئیے جیسے وہ آپ کے سوگ کو قبول کر رہے ہیں۔

اب کل کو احسان اللہ احسان کی موت کی خبر سے سوشل میڈیا پہ سوگ کی فضا قائم ہو جائے۔ مجھے تو اس پہ افسوس نہ ہو گا کیونکہ کون سا ہمارے گھروں کے بچے ذبح ہوئے تھے۔ ہمیں تو بس موت کے بعد اگلوں کو مقدس دکھانا ہے۔ ہاں مگر اس کی موت پہ اگر ان بچوں کے والدین جشن منائیں گے تو اس پہ انہیں غلط مت کہئیے گا۔ ان کا حق بنتا ہے۔ میں ضرور ان والدین کے ساتھ شامل ہوں گی۔ کیونکہ ان کے بچے میرے بچوں جیسے ہی تھے۔ بچے تو سانجھے ہوتے ہیں۔

میں ہمیشہ لکھتی ہوں کہ اپنے نظریات کلیئر کریں۔ ان کو بوقت ضرورت ادھر ادھر مت کریں۔ مجھ پہ تنقید ہو رہی ہے کہ جی آپ فلاں فلاں کے مرنے پہ بھی ایسے ہی بولنا۔ تو بھئی میرا نظریہ کلیئر ہے، جس بھی انسان یا چیز سے دوسرے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے مجھے اس سے کوئی ہمدردی نہیں۔

احسان اللہ احسان کا انٹرویو سلیم صافی نے کیا۔ سلیم صافی میرے پسندیدہ ترین صحافیوں میں سے تھے۔ اس دن سے میں نے ان کا کوئی شو نہیں دیکھا۔ میں جانتی ہوں میرے اکیلی کے بائیکاٹ سے کیا فرق پڑے گا۔ مگر کم سے کم میں تو اپنے آپ میں مطمئن ہوں۔

خلیل الرحمن قمر عورت کے بارے جو کچھ فرماتے ہیں۔ میں اسے ناپسند کرتی ہو۔ میں نے ان کے ڈرامے کا بائیکاٹ کیا۔ میں نے طے کر لیا کہ اس بندے کی کوئی چیز نہیں دیکھنی۔ اب اگر میں ان میں سے کسی کو کہیں دیکھوں اور دوڑ کے جا کر اس کے ساتھ سیلفی بنا کے لگا دوں۔ تو پھر میرا نظریہ میری سوچ کہاں گئی۔ ہاں میں یہ ضرور کروں گی کہ ان کے منہ پہ جا کے یہ کہہ دوں کہ آپ نے غلط کیا۔ آپ غلط ہیں۔

عاصمہ جہانگیر کو ک۔۔۔ (گالی) اور ایدھی کو حرام کے بچے پالنے والا اور بھک منگا کہنے والے کے لیے سوگ انہی کی سوچ جیسے منا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو میرے نظریے سے شدت پسندی کی بو آ رہی ہے۔ تو میں اس پہ بھی کچھ نہیں کہوں گی مگر میری انسانیت کے ٹوکرے میں انسانوں کے لیے جگہ ہے، قاتلوں اور قتل کرنے پہ اکسانے والوں کے لیے نہیں۔ زندگی بہت چھوٹی ہے۔ معاف کرنا بہت بڑا وصف ہے۔ مجھ میں یہ وصف ہے۔ مگر مجھ میں یہ وصف نہیں کہ میں سانپ کے زہر کو زہر نہ کہوں اسے ملک شیک بنا کے پیش کروں۔ جو انسان مجھے دوسرے انسانوں کے حق میں برے لگتے ہیں، ان کے مرنے کے بعد انہیں دھو دھلا کے پیش کروں۔ میرے پاس ایسی ڈرائی کلیننگ مشین نہیں ہے۔ جن کے پاس ہے وہ شوق پورا کر رہے ہیں۔

باقی مجھے دی جانے والی گالیوں کا وقت شروع ہوتا اب سے۔ سو بسم اللہ کیجئیے۔ لیکن یاد رکھئیے کہ جانے والے کو ہسپتال اسی ”حرام“ بچے پالنے والے کی ایمبولینس لے کر گئی تھی۔ اور اگر کہیں مرنے والے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی تو اس کے لیے ایک ہی انسان کی بچی کیس لڑتی جس کا نام عاصمہ جہانگیر تھا۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے۔ اور حق مرحوم کی مغفرت کرے۔ باقی یہ پہلا موقع ہو گا کہ لبرل و مذہبی دونوں جانب سے میرے لیے گل افشانی ہو گی۔ سلامت رہئیے۔ جئیں اور جینے دیں۔

(علامہ خادم رضوی ایک متنازع شخصیت تھے، ان کے حامی بھی بہت زیادہ ہیں اور مخالف بھی۔ ادارہ ہم سب کوشش کرے گا کہ آزادی اظہار کے حق کا احترام کرتے ہوئے ان کے حامیوں اور مخالفین دونوں کے مضامین کو شائع کرے اور کسی ایسے مضمون کو نہ روکا جائے جس میں مہذب انداز میں موقف پیش کیا گیا ہو۔ فیس بک سینسر شپ پالیسیوں اور پابندیوں کی وجہ سے علامہ خادم کا نام سرخی میں دینا ممکن نہیں ہو گا۔ مدیر)۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).