شیوسینا کی جانب سے ممبئی میں موجود ’کراچی‘ بیکری کا نام تبدیل کرنے کے مطالبے پر سوشل میڈیا پر بحث


’اگر پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بمبئی بیکری ہو سکتی ہے تو انڈیا کے شہر ممبئی میں کراچی نام کی بیکری کیوں نہیں چل سکتی؟ یہ کیسا انصاف ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری تو بمبئی بیکری کے کیک سے لطف اندوز ہوتے رہیں لیکن سیکولر انڈیا میں کراچی نام کی بیکری کے کیک اور مٹھائی نہیں چل سکتے؟‘

تقسیم ہنِد کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں کئی سڑکوں، عمارات اور اہم مقامات کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ لیکن بات اب کھانے پینے کی جگہوں کے ناموں تک آ پہنچی ہے۔

دراصل ہوا کچھ یوں کہ گذشتہ ہفتے انڈیا میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں شیو سینا کے رہنما نتن نند گاؤنکر کو بمبئی میں واقع کراچی بیکری کے مالک سے بیکری کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے سنا جا سکتا ہے۔

ناندگاؤںکر کو بیکری کے مالک سے یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے ’آپ کے آباؤ اجداد کا تعلق پاکستان سے ہے جنھوں نے تقسیم کے دوران وہاں سے ہجرت کی۔ ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں لیکن مجھے کراچی نام سے نفرت ہے۔ پاکستان کا یہ شہر دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’جہاں سب کچھ چھوڑ آئے تھے، کاروبار اسی نام پر کیا‘

اُس ’پاکستان‘ کی کہانی جو ہندوستان میں بستا ہے

‘پاکستان کا مطلب کیا، ہندو سکھ مسیحی جا’

’گاؤں کے نام کی وجہ سے لوگ یہاں شادی نہیں کرتے‘

https://twitter.com/ANI/status/1329295064284110848

انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق ’ناندگاؤںکر نے بیکری کے مالک سے کہا کہ آپ کو یہ کرنا پڑے گا، ہم آپ کو وقت دے رہے ہیں۔ ’کراچی‘ کو مراٹھی میں کسی نام سے تبدیل کر دیں۔‘

انڈین میڈیا کے مطابق شیو شینا رہنما کے مطالبے کے بعد دکاندار نے بیکری کے نام کو اخبار کے ساتھ ڈھانپ دیا ہے۔ مالک نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا ’میں کوئی پریشانی نہیں چاہتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے وکلا سے مشورہ کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں، میں سائن بورڈز سے ’کراچی‘ کا نام تبدیل کر لوں یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہی نام رہے۔‘

تاہم ٹوئٹر پر شیو سینا کے رہنما سنجے راوت کے مطابق کراچی بیکری کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ، ان کی پارٹی کا موقف نہیں ہے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا ’کراچی بیکری اور کراچی مٹھائیاں پچھلے 60 برسوں سے ممبئی میں ہیں۔ ان کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اب ان کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘

https://twitter.com/thebeamerguy/status/1329403945366777858

یوں تو پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا صارفین کے درمیان کرکٹ سے لے کر کشمیر تک بحث کے لیے کئی موضوعات ہیں اور ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے صارفین بحث میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اس مرتبہ بظاہر زیادہ تر انڈین صارفین ردِعمل میں پاکستان کے شہر حیدرآباد میں موجود بمبئی بیکری کی تصاویر پوسٹ کرتے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ’اگر پاکستان کے شہر حیدر آباد میں بمبئی بیکری ہو سکتی ہے تو انڈیا کے شہر ممبئی میں کراچی نام کی بیکری کیوں نہیں چل سکتی؟‘

https://twitter.com/rubenmasc/status/1329361249084321792

کئی انڈین صارفین اس اقدام پر سخت برہم ہیں۔ کراچی بیکری کی تاریخ بتاتے ہوئے سپنا بھونانی لکھتی ہیں کہ ’کراچی بیکری کی بنیاد خانچند رامنانی، ایک سندھی نے رکھی تھی، جنھیں تقسیم ہند کے دوران پاکستان چھوڑنا پڑا تھا۔ اور اس دکان پر حملہ ایک شرمناک اقدام ہے۔ سپنا کا ماننا ہے کہ ’سندھیوں کے کھوئے ہوئے گھر کی یاد دلانے کے لیے اس بیکری کا نام ‘کراچی’ ہی رہنا چاہیے۔‘

بمبئی میں رہنے والے روبن ماسکرینہاس نے بھی اسے شیو سینا کی ’شرمناک دادا گیری‘ کہا۔ روبن لکھتے ہیں کہ ’تقسیم کے دوران سندھیوں نے ممبئی میں پناہ لی اور ‘کراچی’ کا نام انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔‘ انھوں نے شیوسینا رہنما سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے بمبئی پولیس کو ایکشن لینے کا بھی کہا۔

https://twitter.com/thebeamerguy/status/1329403945366777858

اندرا کے رہائشی میتھیو اینتھونی کا کہنا ہے کہ کسی لفظ کے لیے کسی ایک انسان کی پسند ناپسند قانون اور امن کی صورتحال کا فیصلہ یا تعین نہیں کرسکتی ہے۔

تاجدیپ سردسائی کے مطابق یہ افسوسناک ہے کہ آج کے انڈیا میں ممبئی اور کراچی کے مابین قریبی تعلقات دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ دونوں شہروں کے مابین 1965 تک دو سٹیمر، سبرمتی اور سرسوتی نام کی ریل سروس چل رہی تھیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزوں ہر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ایک میٹھائی کی دکان کے نام میں کیا رکھا ہے۔‘

https://twitter.com/sardesairajdeep/status/1329368875436290049

کچھ ایسے ہی خیالات پاکستان میں رہنے والے ڈاکٹر عمیر سید کے بھی ہیں، وہ پوچھتے ہیں ’پاکستان میں بمبئی اور انڈیا میں کراچی۔۔ نام میں کیا رکھا ہے؟‘

انڈیا کے ڈاکٹر ابھیشیک پاراسر لکھتے ہیں ’نام بدلنے سے ملک عظیم نہیں بن جائے گا۔ اپنی ذہنیت تبدیل کریں۔‘

فیضی نامی ایک انڈین صارف نے ایک پاکستانی صارف صدف حیات کو ٹیگ کر کے پوچھا کہ ’تم لوگ بھی ایسے نام تبدیل کرتے ہو یا یہ بس ہمارے ملک کا ٹائم پاس ہے؟‘

https://twitter.com/Sydusm/status/1329441968930377728

اس کے جواب میں صدف نے انھیں پاکستان میں موجود بمبئی بریانی سے لے کر دہلی نہاری کراچی، امبالا مٹھائیاں، بمبئی چوپٹی ریستوران، جالندھر بیکرز پشاور، شملہ بیکرز راولپنڈی، امرتسر ہریسہ اور میرٹھ کباب گھر تک ناجانے کتنے نام گنوا دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp