دوسری شادی کا جرم: پیر صاحب یورپ کی کچھ کرامات


اگر آپ کسی پبلک مقام پر ہوں اور کوئی صاحب کسی اور صاحب کی طرف اشارا کر کے کہہ دیں ”اس کی دو بیویاں ہیں“ تو سب اس کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے انسانوں کی مجمع میں کوئی ڈائنو سار گھس آیا ہے۔ اگر کسی محلہ یا سوسائٹی میں کوئی صاحب عقد ثانی فرما لیں تو ان کی شخصیت اور ان کی شادی کئی مہینوں افواہوں اور تبصروں کا موضوع بنی رہے گی۔

جہاں تک خواتین کے رد عمل کا تعلق ہے تو اسے سمجھنا آسان ہے کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ کم از کم اکثرخواتین اس بات کو پسند نہیں کر سکتیں کہ کوئی اور خاتون اس کے ساتھ اس کے خاوند کو شریک کرے۔ اور باپ یا بھائی اس بات کو کم از کم پسند نہیں کر سکتے کہ ان کی بیٹی یا بہن پر سوکن آئے۔ یہ جذبات تو قدرتی طور پر پیدا ہو تے ہیں۔

لیکن میں ایک اور پہلو کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دنیا کے ان تمام ممالک میں جنہیں آزاد خیال ممالک خیال کیا جاتا ہے دوسری شادی جرم ہے۔ اگر کوئی دوسری شادی کرے تو وہ جیل جائے گا۔ اور پاکستان میں بھی یہ آواز اٹھائی جاتی ہے کہ دوسری شادی پر پابندیاں لگائی جائیں یا ایسی شرائط عائد کی جائیں جس کے نتیجہ میں دوسری شادی کرنا نا ممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہو جائے۔ اور اس ضمن میں یہ دلیل بھی بار بار سنی ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ جرم ہے۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اگر انہی ممالک میں دو مرد آپس میں شادی کرنا چاہیں یا اگر دو عورتیں آپس میں شادی کرنا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ اور ان ممالک کا قانون ان کے اس حق کی حفاظت کرتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی اجازت نہیں ہو گی تو ان کی آزادی میں خلل آئے گا۔

کوئی اس پر تنقید کرے تو وہ انتہا پسند شمار ہوگا۔ اگر یہ حق تسلیم کیا جا سکتا ہے تو پھر یہ حق کیوں تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ دو خواتین اپنی مرضی سے ایک مرد کی قانونی بیویوں کی حیثیت سے زندگیاں گزاریں۔ اسے جرم کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ اس کی آزادی کیوں نہیں دی جاتی؟ یہ شرط بھی تو لگائی جا سکتی ہے کہ دوسری شادی پہلی بیوی کی رضامندی سے ہوگی۔ ورنہ وہ علیحدگی کا حق رکھے گی۔

کیا وجہ ہے کہ بیسیوں ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات کے لئے تحریکیں چلائی ہیں اور عدالتوں میں مقدمے کیے ہیں کہ ہم جنس شادیوں کی اجازت ضرور ہونی چاہیے۔ اگر کوئی دو مرد آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں یا اگر کوئی دو عورتیں آپس میں شادی کرنا چاہتی ہیں تو تم کون ہوتے ہو ان کو روکنے والے؟

لیکن کسی ملک میں یہ تحریک نہیں چلائی گئی کہ دوسری شادی کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔ اگر دو عورتیں ایک مرد کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہیں تو تم کون ہوتے واویلا کرنے والے؟ کسی چیز کو اپنے لئے پسند نہ کرنا اور چیز ہے اور اس چیز کو غیر قانونی قرار دینا بالکل مختلف بات ہے۔

اب ایک اور پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔ ویسے تو اس ضمن میں مردم شماری میں کوئی اعداد و شمار جمع نہیں کیے جاتے لیکن ایک اندازے کے مطابق جن مسلمان ممالک میں دوسری شادی کی قانونی اجازت ہے ان میں دوسری شادی کی شرح ایک سے تین فیصد کے درمیان ہے۔ اور جب معاشرے میں پچاس فیصد مرد اور پچاس فیصد عورتیں ہوں تو یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ سب مرد دو یا تین شادیاں کر لیں۔

The Polygamy Myth by S. Y. Quraishi Posted On Indian Express 6 July 2017

یورپی ممالک میں تو دوسری شادی جرم ہے۔ لیکن ہو کیا رہا ہے؟ جب یو کے کے ادارے Mirror۔ coنے جائزہ لیا کہ کتنے شادی شدہ افراد نے اپنے شریک حیات کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں تو یہ خوفناک اعداد و شمار سامنے آئے۔

فن لینڈ اور یو کے 36 فیصد۔ سپین 39 فیصد۔ بیلجیم 40 فیصد۔ اٹلی 45 فیصد۔ ناروے 41 فیصد۔ فرانس 43 فیصد۔ جرمنی 45 فیصد۔ ڈنمارک 46 فیصد۔ تھائی لینڈ 56 فیصد۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں دوسری شادی جرم ہے۔ اگر کرو گے تو جیل جاؤ گے۔ لیکن مطلب یہ ہے کہ صرف شادی کے کوئی فرائض ادا نہیں کرنے۔ نہ کوئی اخراجات کی ذمہ داری۔ نہ کوئی اور پریشانی۔ بس گھر میں بیوی یا خاوند کو چھوڑا کسی اور سے جنسی تعلقات قائم کر لئے۔ اور اسے فرینڈشپ کا نام دے دیا۔

https://www.mirror.co.uk/news/world-news/adultery-countries-most-unfaithful-5188791

اس صورت حال پر کسی تنظیم کی راتوں کی نیند حرام نہیں ہوتی۔ کوئی احتجاج نہیں ہوتا کہ دیکھو کتنا ظلم ہو گیا۔ کوئی جلوس سڑکوں پر بینر اٹھائے نظر نہیں آتے کہ عورتوں کے حقوق متاثر ہو گئے۔ لیکن جہاں دوسری شادی کا نام لیا یورپ کی بڑی بوڑھیوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ کہ توبہ توبہ کیسی باتیں کرتے ہو۔

یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جن ممالک میں دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے وہاں ”ناجائز تعدد ازدواج“ کی شرح چالیس پچاس فیصد تک پہنچ رہی ہے۔ جبکہ جن ممالک میں دوسری شادی کی اجازت ہے وہاں ایک سے تین فیصد دوسری شادی کرتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں یہ مسئلہ نہیں کہ لوگ دوسری شادیاں کر رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بغیر شادی کے جنسی تعلقات میں مبتلا ہو کر اپنے گھر برباد کر رہے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ایسے بچوں کی شرح بہت بڑھ گئی ہے جو کہ ماں باپ کی شادی کے بغیر پیدا ہو رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بعض ممالک میں ان بچوں کی شرح پچاس فیصد سے زائد ہو چکی ہے۔ اور ان میں سے بہت بڑی شرح ایسے بچوں کی ہے جن کو صرف ان کی مائیں پال رہی ہیں۔ اور ان کے باپ اکثر فرائض کی ادائیگی سے بے نیاز ہیں۔ اور اس صورت حال میں ان بچوں کی نفسیات اور بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

اب یہ دیکھتے ہیں کہ جن ممالک میں دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے وہاں کتنے فیصد بچے شادی کے تکلف کے بغیر پیدا ہو رہے ہیں۔ آئس لینڈ 67 فیصد۔ ایسٹونیہ اور سلووینیہ 58 فیصد۔ سویڈن 54 فیصد۔ فرانس 56 فیصد۔ ناروے 55 فیصد۔ بیلجیم 52 فیصد۔ یو کے 48 فیصد۔ اگر ان ممالک نے یہی چاند چڑھانے تھے تو اس سے بہتر تھا کہ دوسری شادی کی اجازت دے دیتے۔ کم از کم قانونی فرائض ادا کرنے کے تو پابند ہوتے۔

Birth rate for unmarried women declining for first time in decades BY GRETCHEN LIVINGSTON AND ANNA BROWN .Factlink. 13 August 2014.

خاکسار کو علم ہے کہ اس قسم کے موضوعات پر لکھنے پر کس قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دوسری شادی پر تنقید ہو سکتی ہے تو ہم جنس شادی پر تنقید کیوں نہیں ہو سکتی۔ مغربی ممالک میں اگر کوئی ہم جنس شادی پر تنقید کرے ایک واویلا برپا ہو جاتا ہے کہ آزادی پر حملہ ہو گیا۔ بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں اور ان کی ماؤں کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پر سڑکوں پر احتجاج کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان ممالک میں قانونی طور پر دوسری شادی جرم ہے تو بغیر شادی کے تعلقات قائم کرنا جرم کیوں نہیں؟

[ایک کالم میں الفاظ کی حدود ہوتی ہیں۔ عورت کی ایک سے زیادہ شادی کی تاریخ پر بعد میں تحریر پیش کی جائے گی۔ ]


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).