بلوچستان: ضلع کیچ کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کا برطرفی کے خلاف کوئٹہ میں احتجاج کامیاب


ثمینہ
ثمینہ
’ہمیں ایسا مجبور کیا گیا کہ احتجاج کے لیے سینکڑوں میل دور کوئٹہ آنا پڑا۔‘ یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع کیچ کی ثمینہ بلوچ کا جو ان خواتین اور مرد اساتذہ کے ساتھ تقریباً 800 کلومیٹر کا سفر طے کر کے کوئٹہ آئی تھیں جنھیں اگست 2019 میں ملازمتوں سے برطرف کیا گیا تھا۔

کوئٹہ پہنچنے پر پہلے تو انھوں نے 23 روز تک علامتی بھوک ہڑتال کی لیکن جب بات نہیں بنی تو تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی گئی۔

یوں تو کوئٹہ کا پریس کلب عام طور پر ایسے ہی مجبور افراد کے احتجاج کا مرکز بنا رہتا ہے لیکن یہاں دور افتادہ علاقے سے آئے ان اساتذہ کو آخر کار کامیابی اس وقت ملی جب تین روز بعد تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے والوں کی حالت تشویشناک ہوئی تو محکمہ تعلیم کو اس حکم نامے کو واپس لینا پڑا جس کے تحت ان کو برطرف کیا گیا تھا۔

جس کے بعد کوئٹہ کی شدید سردی میں قائم اساتذہ کے احتجاجی کیمپ کو ختم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

بلوچستان کی باہمت خاتون نے 350 کلومیٹر پیدل مارچ کیوں کیا؟

بلوچستان کے طلبہ پنجاب کی سڑکوں پر پیدل مارچ کیوں کر رہے ہیں؟

’بھائی لاپتہ ہوا تو نقاب اتارا اور احتجاج شروع کر دیا‘

ڈاکٹر، میڈیکل کے طلبا کوئٹہ میں تادم مرگ بھوک ہڑتال پر کیوں

مظاہرین

ان اساتذہ کو برطرف کیوںکیا گیا تھا؟

گذشتہ برس 20 اگست کو محکمہ سیکینڈری ایجوکیشن نے بلوچستان کے ضلع کیچ سے مجموعی طور پر سرکاری سکولوں کے 114 اساتذہ کو برطرف کیا تھا جن میں 79 خواتین اساتذہ بھی شامل تھیں۔

محکمہ تعلیم کے مطابق یہ تمام اساتذہ اپنی جائے تعیناتی پر طویل عرصے سے غیر حاضر پائے گئے جس کے باعث ان کو ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔

تاہم ان اساتذہ اور سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی سب سے بڑی تنظیم گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اس الزام کو مسترد کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ انھیں بے بنیاد الزام کے تحت برطرف کیا گیا اور برطرفی سے پہلے ان کو سنا بھی نہیں گیا۔

ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ سے تعلق رکھنے والی ٹیچر ثمینہ کا کہنا ہے کہ ’میں سکول میں ڈیوٹی پر موجود تھی کہ مجھے وہاں فون آیا کہ آپ کو نوکری سے برطرف کیا گیا ہے۔ میں 23 سال سے ملازمت کر رہی تھی لیکن مجھے کوئی اظہارِ وجوہ کا نوٹس دیے بغیر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک قبائلی معاشرہ ہے جہاں خواتین کسی وجہ کے بغیر گھروں سے نہیں نکلتی ہیں لیکن آج ہمیں اس قدر مجبور کیا گیا کہ ہم سینکڑوں میل دور کوئٹہ احتجاج کرنے کے لیے آئی ہیں۔‘

اس احتجاج کے دوران بعض خواتین کے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ تھے جو کوئٹہ کی شدید سردی میں بیمار پڑ گئے۔ کیمپ میں موجود ایک برطرف ٹیچر مسعود احمد نے بتایا کہ برطرف کیے جانے والے اساتذہ کی فہرست میں تین چار ایسے اساتذہ کے نام بھی شامل تھے جو ریٹائرڈ یا فوت ہو چکے تھے۔

کیمپ میں موجود گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری اطلاعات صدیق اللہ مشوانی نے بتایا کہ ان تمام اساتذہ کو ایک غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ پر ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں جو قانونی تقاضے تھے ان کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔

مظاہرین

تاہم ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کیچ عبد الغفور دشتی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان اساتذہ کی برطرفی ان کی تعیناتی سے پہلے ہوئی تھی تاہم ان کو غیر حاضری کی بنیاد پر برطرف کیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بعض اساتذہ کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور ان میں ایک ایسا ٹیچر بھی تھا جن کو صرف ایک دن کی غیر حاضری پر ملازمت سے برطرف کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اساتذہ کی برطرفی کے بعد اس حوالے سے دو مرتبہ محکمہ تحقیقات بھی ہوئی۔

انھوں نے بتایا کہ ان انکوائریوں کے بعد یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ ان اساتذہ کو معمولی سزا دی جائے اور ان کو ایک موقع دے کر بحال کیا جائے۔

ضلع کیچ میں بڑی تعداد میں سکولوں کی بندش

صدیق اللہ مشوانی نے بتایا کہ برطرف کیے جانے والے اساتذہ کی بڑی تعداد ایسی ہے جو کہ اپنے علاقوں کے سکولوں میں واحد ٹیچر تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان 114 اساتذہ کی برطرفی کی وجہ سے ضلع کیچ میں کثیر تعداد میں سکول بند ہوئے کیونکہ تاحال ان سکولوں میں متبادل کے طور پر اساتذہ کی تعیناتی نہیں ہوئی۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر عبد الغفور دشتی نے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان اساتذہ کی برطرفی سے سکولوں کی بندش کی تصدیق کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی تعداد 30 سے 35 لگ بھگ ہے۔

صدیق اللہ مشوانی نے بتایا کہ ان سکولوں کی بندش سے ان میں پڑھنے والے بچے کئی ماہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔

اپنی برطرفی کے خلاف ان اساتذہ نے ایک سال سے زائد کے عرصے تک کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت میں احتجاج کیا لیکن مطالبہ تسلیم نہ ہونے اور میڈیا میں احتجاج کو خاطر خواہ کوریج نہ ملنے پر وہ کوئٹہ پہنچ گئے۔

خیال رہے کہ کیچ کا شمار بلوچستان کے گرم علاقوں میں ہوتا ہے۔

مظاہرین

تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کے دوران اساتذہ کی حالت غیر

ضلع کیچ سے آئے اساتذہ میں سے 11 ٹیچرز جن میں پانچ خواتین بھی شامل تھیں کی تادم مرگ بھوک ہڑتال کے باعث حالت غیر ہو گئی جس کے باعث نہ صرف ان کو کیمپ کے اندر ڈرپ لگتی رہیں بلکہ ان کو متعدد بار طبی امداد کے لیے ہسپتال بھی منتقل کیا جاتا رہا۔

جہاں یہ خواتین تادم مرگ بھوک ہڑتال کی وجہ سے ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار رہیں وہاں ان کو ایک اور مشکل کوئٹہ کی شدید سردی کی وجہ سے پیش آئی۔

واضح رہے کہ یہ دوسرا موقع تھا کہ خواتین تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوں، اس سے قبل حقوق انسانی کی معروف کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp