فتوے


صبح صبح جب موبائل آن کیا تو ایک مہربان اور بہی خواہ نے ایک پوسٹ شیئر کیا تھا کہ ڈالر صرف مولوی نہیں لیتے سیاست داں اور جرنیل بھی لیتے ہیں، مولویوں نے اگر کفر کے فتوے لگائے ہیں تو سیاست دانوں اور جرنیلوں نے غداری کے فتوے داغے ہیں۔

میں نے لمحہ بھر کے لئے سوچا اور پھر پوری ایک تاریخ میرے ذہن میں فٹ سے سما گئی اور ایک ایک کر کے کفر اور غداری کے فتووں کے شکار افراد اور پارٹیاں میرے سامنے ایسے آ دھمکے جیسے میں نے آرڈر پر بلایا ہو۔ لیکن یہ بات ذرہ دیر سے ہضم ہوئی کہ یہ بیچ میں ڈالر کا کیا ماجرا ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ بھی درآمدی برانڈ ہے اور ہر درآمدی برانڈ ہو نہ ہو، پکا اور ثقہ ضرور ہوتا ہے اس پر جعلسازی کا شبہ نہیں ہوتا، دیرپا قابل استعمال اور قابل اعتماد ہوتا ہے۔

خود کو تھوڑا سا جھنجھوڑنے کے بعد لمبی تاریخ کو تو پس پشت ڈالا لیکن یہ گزشتہ سات ساڑھے سات عشروں کو سامنے رکھ کر بہت کچھ ذہن کے پردے پر ایک ڈاکو مینٹری کی صورت میں چل پڑا۔ پہلے عشرے میں وہ لوگ نظر آئے جو روس اور امریکہ کے تعلقات اور خارجہ پالسی کے دوڑ میں فتووں اور غداری کی اس سیاسی چشمک میں ڈالر کی چمک کی نذر ہو گئے۔ پھر سین بدلا تو سب کچھ ہی بدلا بدلا بلکہ گدلا سا دکھائی دے رہا تھا، سب کچھ فل ڈریس اور باوردی درست تھا، س، سے سیاست م، سے ملائیت اور ج، سے آپ خود سمجھیں، سب ایک پیج پر تھے۔ گزشتہ عشرے کے پیپر ورک اور ضابطوں کو ڈسٹ بن میں ڈال کر خود ہی گزشتہ دس سالوں کی ناکامی کی انکوائری کا سراغ لگانے کے لئے اپنے ہی سراغ رساں مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کے لئے روانہ کیے جو کہ ابھی تک رواں دواں ہیں اور جو ریت انکوائری کی پڑی وہ اب تک پڑی کی پڑی رہی ہے اور سراغ رساں تعجب سے اب تک محو سراغ ہیں اور کسی بھی انکوائری کی رپورٹ پردہ نشین دوشیزہ کی طرح گھونگھٹ اٹھانے سے کتراتی ہے اور جب تک صاحبان جاہ جلال و جمال سامنے آئینہ رہے، اپنا آئینہ اور آئین دکھاتے رہے اور ڈالر کی کھنک اور چھنک ایک پیشہ ور رقاصہ کی طرح اپنے زیب پا گھنگروں کی طرح ایسے ہنر سے ہلاتی کہ جس تک کھنک، چھن چھن یا چھنک پہنچتی وہ رقص و سرود سے عالم وجد میں ایسے حلقہ بگوش ہوتے کہ پھر ان کو بیدار کرنے کے لئی بھی خاص خانساماں ہلا ہلا کر یا بہلا ہھسلا کر اصلی حالت میں لاتے۔

اسی دوران جو غداری اور کفر کے فتوے لگے اب کی بار خاتون بلکہ خاتون خاص کو بھی نہیں بخشا گیا اور وہ تابڑ توڑ فتوے اور غداری کے حملے ہوئے کہ نہ صرف ان کو دنیاوی معاملات سے بے دخل کیا بلکہ دنیا سے بھی اخروی سفر پر اس طرح روانہ کیا کہ ملت کے پاسباں کے زیارت میں ملت کی مادری سفید کفن میں آنے والے زائرین کے لئے رہتی دنیا تک دست دعا اور نظر مدعا بلند کرنے کے لئے امر اور ثمر کر دیا۔

اس کے بعد ذرہ سا ڈالر کو لگام دیا گیا پر یہ سر پٹ گھوڑا کب قابو میں آ سکتا تھا اور چشم فلک کی دیکھا دیکھی چہار سو اپنی دوڑ کے وہ سرکس نما کرتب دکھائے کہ تماشائی بھی اس کھیل کا حصہ بننے کے لئے پر تولنے اور اپنا تن من دھن جھنجھوڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار اور بیدار رہنے لگے۔ ریاست، سیاست کا میدان ڈالری سلوگن اور نعروں یعنی فتووں اور غداری کے تمغوں اور اعزازات سے ایسا گونج اٹھا کہ کان پڑی آواز بھی درست سماعتوں تک سنائی نہیں دیتا اور جو سنتا وہ بول نہیں پاتا اور جو بولتا وہ نظر نہیں آتا اور یہ ڈالری چھپن چھپائی یا آنکھ مچولی اتنی مختلف انداز اور جہات سے کھیلی گئی کہ ہر کوئی اہل نظر ہو گیا اور آج جو میں نے موبائل پر اپنے بہی خواہ کا پوسٹ دیکھا شاید وہ بھی اس کا عینی شاید ہو ورنہ اتنی دیدہ دلیری سے کون سنی سنائی بات کر سکتا ہے کہ وہ برملا کسی کو فتووں اور غداری کا ڈالری سپانسرز گردانے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).