نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں


وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا بالکل اسی طرح حالات چاہے اچھے ہوں یا برے کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ یہ وقت بڑا ظالم ہوتا ہے کسی چھوٹے بڑے ’بادشاہ‘ فقیر ’امیر‘ غریب ’عہدیدار‘ افسر ’زمیندار یا چوکیدار کسی کا بھی خیال نہیں کرتا سب کو اپنے پیروں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔ کبھی عروج سے زوال کا سفر تو کبھی زوال سے عروج کا سفر سب زندگی کا خاصا ہیں۔ یہ زندگی نہ جانے کیا کیا رنگ دکھاتی ہے کبھی بہاریں تو کبھی خزاں‘ کبھی بارش تو کبھی دھوپ ’کبھی گرمی تو کبھی سردی۔

جب حالات خراب ہوتے ہیں ’چاروں طرف اندھیرے کا بسیرا ہوتا ہے سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ رشتہ دار بھی خود کو رشتہ دار کہلوانے کے روادار نہیں ہوتے لیکن اس کے برعکس جب حالات اچھے ہوتے ہیں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے تو لوگ خوامخواہ سگے بننے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ آج کل لوگ عہدہ یا حیثیت دیکھ کر ہی بات کرتے ہیں۔

اگر شو مئی قسمت کوئی اچھا عہدہ مل جائے مراعات مل جائیں تو خود کا بھی دماغ آسمان پر پہنچ جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس عہدے کی کرامات کی وجہ سے تعلقات اور جان پہچان بنتی چلی جاتی ہے لوگ اس عہدے کی وجہ سے چاپلوسی کرتے ہیں ’نہ صرف آگے پیچھے پھرتے ہیں بلکہ ہاں میں ہاں بھی ملاتے ہیں اور تعریفوں کے پل بھی باندھ دیتے ہیں۔ ماتحتوں کی لائن لگی ہوتی ہے جو حکم بجا لانے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ایسا صرف فوج میں ہی نہیں بلکہ سویلین زندگی کے ہر شعبے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کرسی کو سلام کیا جاتا ہے۔ جس کی کرسی اس کا راج۔

جب اللہ اختیارات سے نوازتا ہے تو کچھ لوگ اس عنایت پر اللہ کے شکرگزار بندے بن جاتے ہیں جبکہ بیشتر لوگوں کی گردن میں سرئیہ آ جاتا ہے وہ خود کو زمین کا خدا سمجھنے لگتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا اور ہر عروج کو لازم زوال حاصل ہے۔

جیسے ہی ریٹایئرمنٹ ہوتی ہے زندگی یکسر بدل جاتی ہے۔ مراعات چھن جاتی ہیں اثر و رسوخ ماند پڑنے لگتے ہیں اب جو اردگرد لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہوتا تھا وہ یکسر چھٹنے لگتا ہے اب حیثیت ایک فیوذ بلب کی سی ہو جاتی ہے چاہے جتنی بھی اس نے روشنی دکھائی ہو ’چاہے جتنے بھی راستوں کو اپنی روشنی سے منور کیا ہو فیوذ ہونے کے بعد اس کی کوئی وقعت اور قدرو قیمت نہیں رہتی۔

دنیا کا دستور بھی بن چکا ہے کہ چڑھتے سورج کو تو ہر کوئی خوش آمدید کرتا ہے ’پوجتا ہے کیونکہ وہ نئے آغاز کی نوید دیتا ہے جس سے کئی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس ڈوبتا سورج خوبصورت سماں تو پیش کرتا ہے لیکن کوئی اس کو خوش آمدید نہیں کہتا بلکہ اسے یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا رات کا اندھیرا ہوتے ہی انجانے وسوسے گھیر لیتے ہیں۔ اس کی روشن مثالیں آئے دن ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں دیکھتے رہتے ہیں۔

بالکل اسی طرح ریٹایئرمینٹ کے بعد بھی ہزاروں خدشات دل میں بسیرا کر لیتے ہیں جو دل و دماغ کو جکڑ لیتے ہیں۔ تنہایاں بڑھتی جاتی ہیں جو کئی بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان کسی سے دل کی بات کرنے کو ترس جاتا ہے جو اپنے زمانے میں علم و معلومات کا خزانہ تصور کیے جاتے تھے اب انھی کو بے کار سمجھا جاتا ہے اور کوئی اپنا قیمتی وقت دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ جو اپنے دور میں سب سے قابل اور ماہر تھے ریٹایئرمنٹ کے بعد سب سے زیادہ نکمے سمجھے جاتے ہیں۔ کوئی مشورہ تک کرنا پسند نہیں کرتا۔ ان کی زندگی میں بھی ایسے ہی سکوت طاری ہو جاتا ہے جیسے سمندر میں طوفان کے گزرنے کے بعد ماتمی سماں چھا جاتا ہے۔

ایک صاحب کسی با اثر محکمے کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ ہر وقت گھر پر تعذیت کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا رہتا تھا۔ ہر شخص ذاتی طور پر ان صاحب سے گلے مل کر ان کے غم کو ہلکا کرنا چاہتا تھا عجیب سا سماں تھا چاروں طرف لوگوں کا جم غفیرتھا سوئم ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا۔

کچھ سالوں بعد وہ صاحب مقررہ عمر تک پہنچتے ہی ملازمت سے ریٹایئر ہو گئے ان کی زندگی یکسر بدل گئی اب وہی لوگ جو ان سے ملنے کے لئے گھنٹوں قطار میں بیٹھے رہتے تھے اب ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی شکل دیکھنے کو روادار نہ تھے۔ دوست احباب کا حلقہ بھی مختصر ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔ چند سالوں بعد وہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ہر شخص جو اس دنیا میں آتا ہے اس نے اپنے وقت مقرر پر جانا بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ دردناک حقیقت ہے کہ ان صاحب کا جنازہ اٹھانے کے لئے چار لوگ بھی بڑی مشکل سے اکٹھے ہوئے۔ حالانکہ ان کی طبی موت ہوئی تھی اور اس وقت کرونا وائرس کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔

یہ آج کے دور کی تلخ حقیقت ہے کہ لوگ یکسر نگاہیں بدل لیتے ہیں۔ جب انسان کارآمد ہو تو اس کے حد نظر تک لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں۔ لیکن جونہی وہ عہدہ ختم ہوتا ہے سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).