ایک عام لڑکی کی ڈائری ( 2 )


مورخہ اتوار بائیس نومبر انیس سو بانوے

آج ڈائری لکھتے لکھتے ہفتہ ہو گیا پورا۔ مجھے اب واقعی لگنے لگا ہے کہ کم از کم کوئی ایک ہے جو مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ جو میرے منہ سے نکلے ہر لفظ پہ ٹوکتا نہیں۔ میرا دل چاہتا ہے اپنی عمر کی لڑکیوں جیسی بے فکری دکھانے کے لیے۔ مگر ہر ہر بات پہ امی کی نظر ہوتی ہے۔ انہیں لگتا ہے میں سست اور لاپروا ہوں۔ انہیں کیسے بتاؤں کہ آج کل نیند بڑی مشکل سے آتی ہے اور صبح صبح راحیل ٹی وی کھول کے بیٹھ جاتا ہے۔ پندرہ منٹ کے کارٹون ہوتے ہیں اور ان کے لیے ایسے بے چین ہوتا ہے جیسے اسی کا ٹیسٹ ہوگا کلاس میں۔

ویسے تو کارٹون بہانہ ہے وہ صبح کی پوری نشریات ہی آنکھیں پھاڑ کے دیکھتا ہے۔ جب تک اسکول کا وقت نہ ہو جائے۔ آج بھی ٹھیک سات بجے فل آواز میں جھر جھر چل رہی تھی۔ نیند کا ستیاناس ہو گیا۔ سات پانچ پہ پی ٹی وی کی ٹنگ ٹرنگ ٹنگ ٹنگ شروع ہوئی۔ جب پتا ہے کہ چاچا جی کا پروگرام سات دس پہ شروع ہوتا ہے تو یہ روز سات بجے ٹی وی کھول کے کیوں بیٹھ جاتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتا۔

اتنی مشکلوں سے آنکھیں کھلیں جیسے کسی نے گوند ڈال دیا ہو۔ ٹی وی کی آواز دماغ میں دھماکے کر رہی تھی۔ ناشتہ پکا کے یونیفارم بدلنے گئی تو شکن زدہ کپڑے غسل خانے میں واشنگ مشین پہ پڑے میرا منہ چڑا رہے تھے۔ اتنا شدید غصہ آیا میں نے واقعی کپڑوں کو ہاتھ کھول کھول کے لعنت دی۔ مطلب حد ہے اتنی شدید بے جان بھی نہیں ہونا چاہیے کسی چیز کو کہ ہم استری نہ کریں تو ڈھیر کی صورت پڑے رہیں۔ تم میری بے زاری کی حد سمجھ ہی گئی ہوں گی۔

کپڑے بدل کے گیلے ہاتھ جلدی جلدی فراک پہ پھیرے مگر پتا نہیں کہاں سے سب سے ڈھیٹ کپڑا یونیفارم کے لیے بنا کے بھیجتے ہیں۔ ایک دفعہ اور لعنت دی قسم سے اتنا سکون ملا کیا بتاؤں۔

کچھ کلاس فیلوز کو بھی کبھی کبھی ایسے ہی لعنت دینے کا دل چاہتا ہے۔ نورین اور جمیلہ خود مجال ہے جو کاپی کمپلیٹ کر لیں۔ پیپرز میں بھی میری نقل کر کے پاس ہوتی ہیں اور آج مجھے کہہ رہی ہیں اللہ فرخندہ تم کبھی کاپی کمپلیٹ نہیں کرتیں۔ دل چاہا انہیں بھی بڑا والا بجا دوں کہ اسی کے نیچے دب کے مرجائیں۔ ہر روز میری کاپیاں لے کر جاتی ہیں کمپلیٹ کرنے۔ اور مجھے ہی طعنہ مار رہی ہیں۔ اتنا تو مجھے بھی پتا ہے کہ میں ذرا توجہ دوں تو فرسٹ بھی آ سکتی ہوں مگر اس سال میتھ بڑی مشکل ہے۔

گھر پہ ایک تو ٹائم نہیں ملتا اور اسکول میں سمجھ نہیں آتا۔ زلیخا بڑی اتراتی پھرتی ہے فرسٹ آ کر مگر مجھے پتا ہے وہ میتھ والی مس زینت سے ٹیوشن پڑھ رہی ہے اسی لیے آج والے ٹیسٹ میں بھی فل نمبر آئے تھے اس کے۔ مجھے یاد ہے یہ والے سوال مس نے کلاس میں کروائے ہی نہیں تھے۔ یار تم بتاؤ یہ کوئی برابر کا مقابلہ ہوا۔ لوگ کہیں گے کہ میں زلیخا سے حسد کرتی ہوں مگر مجھے صرف اس بات کا غصہ ہے کہ مقابلہ ہو تو برابر کا ہو ناں۔ کلاس میں صرف چار لڑکیاں ٹیوشن پہ جاتی ہیں انہی میں سے دو فرسٹ اور سیکنڈ آجاتی ہیں۔

امی کو آکے بتایا تو مجھے ہی ڈانٹ پڑی کہ میں اپنی کند ذہنی چھپانے کے لیے بہانے بنا رہی ہوں۔ ورنہ وہ اور ابو بھی ہمیشہ بغیر ٹیوشن پڑھے ہیں۔ ایسے میں جو غصہ اور بے بسی محسوس ہوتی ہے وہ شاید وہ لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ میں اگر کبھی ٹیچر بنی تو ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو پاس ہی نہیں کروں گی۔ پڑے رہیں ایک ہی کلاس میں۔ بچارے خود محنت کرنے والے بچوں کو بھی تو ان کی محنت کا پھل ملنا چاہیے۔ اگلا سال تو اور مشکل ہے۔ ہر مس آ کر بورڈ کے امتحان سے ڈراتی ہیں۔ اللہ خیر کرے بس۔

چلو بس اب مجھے نیند آ رہی ہے۔ امید کرتی ہوں کل کچھ اچھا ہو لکھنے کے لیے تاکہ جب بہت بہت بہت سال بعد کبھی یہ ڈائری پڑھوں تو کوئی ایک دن تو پڑھ کے اچھا لگے۔

شب بخیر پیاری ڈائری

مورخہ بائیس نومبر دو ہزار بیس بروز اتوار
22/11/2020

پورے ہفتے بعد آج جاکر دوبارہ ڈائری دیکھنے کا موقع ملا۔ لگاتار دو ہفتے بغیر چھٹی کام کرنے کے بعد آج چھٹی کا دن ملا تھا۔ کرونا کے باوجود اسکول والوں نے جان نہیں چھوڑی تھی۔ میاں صاحب الگ مصروف ہیں ان کی تو آج بھی چھٹی نہیں تھی۔ مجھے آج خیال آیا اور اتنا عجیب لگا کہ اسکول میں، میں اتوار والے دن بھی اسکول جاتی تھی۔ پچھلی اتوار احساس ہی نہیں ہوا خود بھی بلا وجہ کی ایکسٹرا کلاس لے کر آئی تھی تو ایسا لگا سب پہلے جیسا ہے۔

مگر سب پہلے جیسا نہیں ہے۔ بانوے کی بات تو بہت دور کی ہے اب تو سب پچھلے سال جیسا بھی نہیں ہے۔ فیس بک لگاؤ تو روز ہی کسی نہ کسی مشہور یا جان پہچان والے کی موت کی خبر مل جاتی ہے۔ اس سال پہلی بار میرے فیس بک پروفائل میں سے ایک صاحب کا انتقال ہوا اور ان کا پروفائل ان کی فیملی نے چند دن بعد آرکائیو کر دیا۔ بہت عجیب سا احساس ہوا۔ پہلے جو لوگ چلے جاتے تھے بس فوراً چلے جاتے تھے۔ اب پتا نہیں کتنے ایسے پروفائل زندوں کے درمیان موجود ہیں جن کو استعمال کرنے والے اب دنیا میں نہیں۔ ان پروفائلز کو کسی نے آرکائیو بھی نہیں کیا ہوگا۔

یہ احساس اتنا انوکھا ہے مجھے لگ رہا ہے میں تمہیں بھی نہیں بتا پارہی کہ کیسا احساس ہے۔

کتنی عجیب بات ہے آج ہی میرے پاس زلیخا کی فرینڈ ریکوئسٹ آئی۔ میں بہت دیر تک پہچان ہی نہیں پائی کہ یہ زلیخا فیروزالدین ہے اب اس کا نام زلیخا سلیم ہو گیا ہے۔ تصویر نہ میری لگی ہے پروفائل پہ نہ اس کی۔ اس کے انباکس میسج سے پتا چلا کہ اس نے مجھے شہربانو کے پروفائل سے پہچانا۔ کتنی عجیب بات ہے میری ڈائری میں ابھی تک شہربانو کا تذکرہ ہی نہیں آیا تھا۔ میری بیسٹ فرینڈ نائنتھ سے لے کر اب تک ہماری دوستی اتنی پکی ہے کہ لوگ مثالیں دیتے ہیں۔ اسی لیے تو نہیں ہے تذکرہ۔ ڈائری کے حساب سے اس سے میری ملاقات میں ابھی چھ مہینے رہتے تھے۔ وہ نویں میں ہمارے اسکول آئی تھی۔

آج ایک ہفتے کی ڈائری پڑھ کر احساس ہوا کہ اسکول کا نظام اب تک کچھ زیادہ نہیں بدلا۔ میں زلیخا سے ناراض تھی جب کہ اب خود ٹیچر بن کے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ٹیوشن پڑھنے والے بچے ٹیوشن نہ پڑھنے والے بچوں سے زیادہ تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں۔ مگر اب میری کلاس کی صرف چار بچیاں نہیں بلکہ سب بچے بچیاں ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ ہاں جاتے ہیں آتے نہیں ہیں۔ آج ادراک ہوا کہ شاید یہی بچپن کا غصہ تھا یا شعور جس نے مجھے ہمیشہ ٹیوشن پڑھانے سے باز رکھا۔

کچھ گھر کی ذمہ داریاں اور کچھ اس بات کا احساس کہ میں اسکول میں وہ کچھ کیوں نہ پڑھاؤں جو ٹیوشن میں پڑھاؤں گی۔ ان بچوں کا کیا ہوگا جو مجھ سے نہیں پڑھ پائیں گے۔ مجھے ان معصوم چہروں پہ واضح تھکن نظر آتی ہے جو صبح شاید چھ بجے کے اٹھے ہوتے ہیں۔ پہلے اسکول، پھر ٹیوشن، پھر سپارہ پھر والدین دوبارہ اسکول کے کام میں لگا دیتے ہیں اور یہ بچے تفریح کیے بغیر ہی بستروں پہ گر کے سوجاتے ہیں۔ فارغ وقت ملتا بھی ہے تو باہر جاکر تفریح کرنے کی ہمتیں ہی کہاں بچتی ہیں۔ کرونا نے تو رہی سہی گنجائش بھی ختم کردی اب وہ ہوتے ہیں اور موبائل اسکرین ہوتی ہے۔

میں نے اسی لیے ریاض سے اس حوالے سے ڈسکس کر لیا تھا۔ میری ساس شکر ہے اس معاملے میں کچھ نہیں کہتیں مگر امی نے بہت اعتراض کیا تھا کہ بچوں کو ٹیوشن نہیں پڑھواؤ گی تو پیچھے رہ جائیں گے۔ پاسنگ مارکس لے کر تمہاری طرح اسکول کی نوکری میں خوار ہوں گے۔ انہیں کیا پتا کہ مجھے پڑھانا پسند ہے۔ ہاں انتظامیہ سے بہت سی باتوں پہ اختلاف ہو جاتا ہے لیکن بچوں کے اردگرد رہنا ان کو سکھانا مجھے بہت لطف دیتا ہے۔ خیر بچوں کو ٹیوشن نہ پڑھوانے کا فیصلہ اتنا مشکل نہیں تھا۔

ان کو جب مشکل ہوتی ہے میں یا ریاض ان کی مدد کر دیتے ہیں اصل مشکل فیصلہ تو اسکرین ٹائم کی پابندی کروانا تھا۔ اس کے لیے مجھے اور ریاض کو بہت سوچ سمجھ کے ساتوں دن کا ٹائم ٹیبل سیٹ کرنا پڑا تھا۔ جو ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ بدلنا بھی پڑتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ موبائل نہ دلوانا مسئلے کا حل نہیں۔ اور صرف زبردستی روکنا بھی ممکن نہیں جب تک ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور مزید دلچسپ مشغلہ نہ ہو۔ اور والدین سے باتیں کرنا دن بھر کی روداد اور اپنے احساسات شیئر کرنے سے دلچسپ شاید ہی کچھ ہو۔ اس کی کمی مجھے ہمیشہ محسوس ہوتی تھی یہ کمی میں اپنے بچوں کو نہیں ہونے دوں گی۔

لو بھلا بتاؤ اپنی روٹین لکھنے کی بجائے فلسفہ بگھارنے بیٹھ گئی۔ کہاں کی بات کہاں چلی گئی۔ چھوڑو اگلی اتوار دیکھیں گے۔ اب صبح کے لیے کپڑے استری کروں۔ اب سوچ رہی ہوں سوئیٹر نکال ہی لوں۔ کل اسکول میں کافی ٹھنڈ لگ رہی تھی۔ شال سے گزارا نہیں ہو رہا تھا۔

چلو اب باقی آئندہ کسی دن۔ شب بخیر ڈائری

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےایک عام لڑکی کی ڈائری ( 1 )رشتوں میں دیواریں اینٹ پتھر کی، یا اصولوں کی ایک عام لڑکی کی ڈائری ( 3 )

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima