جان آف آرک کون تھی؟


19 سالہ لڑکی جسے فرشتے خدا کا پیغام پہنچاتے تھے

یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو انیس سال کی عمر میں آگ میں زندہ جلادی گئی۔ آگ میں جل کر خاک ہوجانے والی اس لڑکی کو اپنے زمانے کی بہادرانسان کہاجاتا تھا۔ صدیاں ہو گئی، لیکن آج بھی فرانس کا بچہ بچہ اسے نہ صرف جانتا ہے بلکہ اسے سینٹ سمجھتا ہے۔ اس لڑکی نے پیداہونے کے کچھ سالوں بعد کہنا شروع کر دیا تھا کہ اسے کے پاس ہر روز فرشتے آتے ہیں اورخدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ فرشتے اس کے پاس آتے تھے یا نہیں لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ اپنے زمانے کی سب سے منفرد خاتون تھی۔ فرانس میں وہ لڑکی آج بھی ایک دیو ملائی کردار ہے۔ جگہ جگہ اس کے مجسمے ہیں۔ بہت سے فرانسیسی اس کی پوجا کرتے ہیں۔

جی ہاں آج کی تحریر میں ہم جان آف آرک کی کہانی سنانے جا رہے ہیں۔ جان آف آرک ایک ایسی لڑکی تھی جس نے فرانس کی حمایت میں انگریز فوجوں سے جنگ لڑی اور خوب لڑی۔ شروع میں جان آف آرک مرد کا روپ اختیار کر کے جنگوں میں کامیابیاں حاصل کرتی رہی۔ مگر آخر میں فتح حاصل کرنے کے باوجود اسے زندہ جلادیا گیا۔ بطور قیدی جان آف آرک پر مذہب سے منحرف ہونے اور مرد کا روپ اختیار کرنے کا الزام لگاکر 19 سال کی عمر میں زندہ جلا دیا گیا۔

بعد میں جان آف آرک کو کیتھولک چرچ نے اپنے زمانے کی عظیم راہبہ کا خطاب دے ڈالا۔ جدید تاریخ میں جان آف آرک کو فرانس کی محب وطن ہیروئن سمجھا جاتا ہے۔ اسے ایک آئیڈیل خاتو کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ فرانس کی تاریخ میں جون آف آرک کا نام انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس جنگجولڑکی نے پندرہویں صدی میں انگریزوں سے جنگ کے دوران ایسے کارنامے انجام دیے تھے جنہیں پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ انیس سال کی جان آف آرک نے فرانس کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرایا اور مغربی یورپ کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

جون آف آرک 6 جنوری 1412 کو فرانس کے علاقے ڈوم ریمی میں پیدا ہوئی۔ وہ ایک خوشحال خاندان کی بیٹی تھی۔ اس کے والد اپنے زمانے کے مشہور زمیندار تھے۔ فرانس کی انگلینڈ کے انگریزوں سے جنگ سو سال تک جاری رہی۔ یہ جنگ 1337 میں شروع ہوئی تھی۔ جون آف آرک نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت فرانس کے کئی علاقے انگلینڈ کے قبضے میں تھے۔ جون کے دل میں شروع سے ہی آزادی کی چنگاری سلگ رہی تھی۔ وہ ہر صورت فرانس کو انگریزوں سے نجات دلانا چاہتی تھے۔

پھر کیا ہوا کہ اسے موقع ملا۔ اس نے فرانسیسی فوج کی قیادت کی اور کئی عظیم فتوحات حاصل کیں۔ اس نے فرانس کے کئی شہروں بشمول پیرس کو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اسے خواب میں خدائی احکامات ملتے ہیں کہ اپنے وطن کو انگریزوں کے قبضے سے آزادی دلاو۔ حریت پسندی کا جذبہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ اتنی دلیر اور بہادر لڑکی تھی کہ مخالفین بھی حیران رہ جاتے تھے۔ پھر وہ ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔

جون آف آرک کی بے مثال کامیابیوں کی وجہ سے اس کے کئی حاسدین پیدا ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ حاسدین اس کے اپنے ہم وطن تھے۔ کچھ فرانسیسی سازشیوں نے ولی عہد فرانس چارلس ہفتم کو جون آف آرک کے خلاف بھڑکایا۔ حالانکہ چارلس ہفتم کے سر پر بادشاہت کا تاج سجانے میں جون آف آرک نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سازشیوں نے جون آف آرک کو انگریزوں کوبیچ دیا۔ انگریزوں نے اسے زندہ جلایا دیا اورا س کے بعد اس کی راکھ کو بھی دریا میں بہا دیا گیا۔

انگریزوں نے جلانے سے پہلے جون آف آرک کے خلاف مقدمہ چلایا تھا۔ انگریز بشپ نے ججمنٹ دی کہ جون جھوٹی ہے اور اسے خواب میں خدائی نہیں بلکہ شیطانی احکامات ملتے تھے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو نیست و نابود کر دے۔ جس بشپ نے جان آف آرک کے مقدمے کی سماعت کی وہ بھی انگریزوں کا ایجنٹ تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ کئی صدیوں کے بعد کیتھولک چرچ نے اسے معصوم اور بے گناہ قرار دے دیا۔ عیسائیوں کے ادارے Holy Sea نے بھی اسے بے گناہ قرار دے دیا۔ جون آف آرک کو اب فرانس میں ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل ہے

حیران کن بات یہ ہے کہ جون آف آرک نے کم عمری میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ فرانس میں اب جون آف آرک کو سینٹ جون آف آرک کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یعنی اسے صوفی اور بزرگ خاتون کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کے گھر کو بھی عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں اب بھی لوگوں کی کثیر تعداد جاتی ہے۔ ہالی وڈ میں ”جون آف آرک“ کے نام سے فلم بھی بنائی گئی جو کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دولت مند خاندان کی لڑکی نے تمام آسائشیں چھوڑ کر اتنا خطرناک راستہ کیوں اختیار کیا؟ وہ چاہتی تو تما م عمر عیش عشرت سے بھرپور زندگی انجوائے کر سکتی تھی۔ پھر کیوں اس نے عیش و عشرت کی بجائے تکلیف دہ راستے کا انتخاب کیا؟ تاریخ دانوں کے مطابق اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپنے وطن کو غلام نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس نے ہمیشہ آزادی کے چراغ جلائے۔ اس کے دل سے ہمیشہ یہ آواز اٹھتی تھی کہ اپنے عیش و آرام پر وطن کی آزادی قربان نہ کرو۔

اس نے ایک بار خود بھی کہا تھا کہ غلامی کا طوق پہن کر خوشحال زندگی بسر کرنا موت سے بھی بدترین زندگی ہے۔ اس لئے اس کا ضمیر اسے ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ چاہتی تو انگریزوں سے سودے بازی کر کے فرانس کو غلامی کی دلدل میں دھکیل سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آزادی اس کی شریانوں میں خون بن کر دوڑ تی تھی۔ جون آف آرک کو Folk Heroine Of France بھی کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جون آف آرک پڑھی لکھی لڑکی نہیں تھی لیکن اس نے ایسے معرکے سر انجام دیے جن کی بدولت تاریخ میں اس کا نام امر ہو گیا۔

فرانس کے لوگ ہمیشہ جون آف آرک کے ممنون رہیں گے۔ پوری انسانی تاریخ میں خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اور جس طرح قدم قدم پر ان کا استحصال کیا گیا، اس کے نتیجے میں عورتوں کے لیے زندگی کے کسی بھی شعبے میں خود کو منوانا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس دور کی عورت نے ان حدود کو توڑا تو اسے پاگل، دیوانی بھی کہا گیا اوریہ بھی کہ یہ عورت کہلائے جانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ لیکن جب کبھی تاریخ میں حالات خواتین کے حق میں نہ ہوئے تو پھر انہوں نے اپنی حدود و قیود کو توڑا اور ایک باغی بن کر باہر نکلیں۔ جان آف آرک بھی ایسی ہی ایک باہمت اور روایت شکن خاتون تھی۔ جان آف آرک نے اپنا روپ بدل کر اور خود کو مردوں کے روپ میں ڈھال کر وہ سب کام کیے جو وہ عورت کے روپ میں نہیں کر سکتی تھیں۔ جان آف آرک نے ایک ایسے نظریے پر کام کیا جس کا خواب اس نے خود دیکھا تھا۔ اسی نظریے کے نتیجے میں اس نے تاریخ کو بدل ڈالا۔

جان آف آرک نے خود کو ایک محافظ کے روپ میں ڈھال کر ایک مرد کی طرح زندگی گزاری تاکہ سو سالہ جنگ کے دوران انگلش فوج کے خلاف فرانسیسی فوج کی قیادت کرسکے۔ جان ایک شان دار لیڈر ثابت ہوئی۔ جان آف آرک ایک ایسے سازشی گروہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئی تھی جو فرانسیسی امراء کا ایک گروپ تھا۔ یہ گروہ فرانس کی بجائے انگریزوں کا اتحادی تھا۔ جان آف آرک کو اسی گروہ نے مختلف الزامات لگاکر ایک مذہبی مقدمے میں پھنسادیا۔ الزام یہ تھا کہ وہ جان بوجھ کر طویل عرصے تک مرد بنی رہی۔

1430 میں اسے مجرم قرار ے کر زندہ جلادیا گیا۔ ا۔ بعد میں جان آف آرک کو بے قصور قرار دے دیا گیا۔ اپنی موت کے بعد سے وہ فنون لطیفہ اور دیگر ثقافتی کاموں میں ایک مقبول ترین شخصیت ثابت ہوئی۔ جان آف آرک کی بہادری کو سمجھنے اور جاننے کے لئے انگریزوں اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ کے بارے میں جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ برطانیہ اور فرانس کے درمیان 1337 ء سے 1453 ء تک جاری رہنے والی جنگ کو ”سو سالہ جنگ“ کہا جاتا ہے حالانکہ یہ 116 جنگ سال جاری رہی تھی۔

جنگ کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ فرانس کے بادشاہ چارلس چہارم کا 1328 ء میں انتقال ہو گیا اور اس کی وفات کے بعد کوئی مرد وارث موجود نہیں تھا۔ اس کاکوئی بیٹا تھا نہ بھائی جو تخت سنبھال سکتا۔ اس حقیقت کے پیش نظر برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے ارادہ کیا کہ وہ فرانس کا بادشاہ بن جائے۔ ایڈورڈ سوم کا فیصلہ فرانس کے عوام کے لئے قابل قبول نہیں تھاکیونکہ وہ ایک غیرملکی بادشاہ نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف فرانس کے فلپ ششم نے کہا کہ اسے ہر صورت بادشاہ بننا چاہیے۔

جنگ کے آغاز میں فرانس زیادہ مضبوط تھا۔ آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ تھی جبکہ برطانیہ کی آبادی صرف چالیس لاکھ تھی۔ فرانس اور برطانیہ کی بادشاہتوں کے درمیان اختلافات گیارہویں صدی سے ہی شروع ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں 1066 ء میں نارمن نے برطانیہ کو فتح کر لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں برطانیہ کے تخت پر ’‘ اشرافیہ ”نے قبضہ کر لیا۔ اس اشرافیہ گروہ کی پہلے سے ہی فرانس میں زمینیں تھیں۔ اسی وجہ سے فرانس کے بادشاہ کو یہ فکر لاھق ہو گئی کہ یہ اشرافیہ کہیں فرانسیسی بادشاہت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں۔

مفادات کے اس ٹکراؤ نے فرانس اور برطانیہ کے درمیان اختلافات کو مزید ہوا دی۔ طویل مدت تک یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرتے رہے۔ کوئی نہ کوئی علاقہ ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی بنیاد بنتا رہا۔ فرانس سکاٹ لینڈ کا اتحادی تھا کیونکہ انگریز بادشاہو ں نے کچھ عرصے کے لئے سکاٹ لینڈ کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی تھی۔ 1295 ء میں فرانس اور سکاٹ لینڈ کے درمیان ایک معاہدے پردستخط ہوئے۔ سکاٹ لینڈ نے اب کبھی بھی فرانس سے جنگ نہ کرنے کا اعلان کر دیا برطانیہ کی فرانس کے تخت کے حصول کے لئے کوششیں جاری رہیں اور جنگیں ہوتی رہیں۔

فرانس کے عوام میں جون آف آرک ہی وہ بہادر لڑکی تھی جس نے انقلابی جذبہ پیدا کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سو سالہ جنگ میں فرانس کی فتح کی اصل بنیاد جون آف آرک نے رکھی۔ اس نے فرانس کے کئی مفتوحہ علاقے انگریزوں کے قبضے سے آزاد کرائے۔ 1429 ء سے 1453 ء تک کا عرصہ فرانس کے لئے بڑا شاندار رہا۔ پھر ایسا ہوا کہ جون آف آرک کو انگریزوں نے گرفتار کر کے زندہ جلا دیا لیکن آخری فتح فرانس کو ہی نصیب ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).