بچوں کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں تقریب کی روداد اور مطالبات


پاکستان کو بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کا حصہ بنے تیس برس ہو چکے ہیں۔ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر لاہور میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں 300 کے قریب بچوں نے شرکت کی۔ اس تقریب میں بچوں نے پاکستان میں بچوں کے حقوق کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے انسانی حقوق اور اقلیتی امور کے صوبائی وزیر اعجاز عالم آگسٹن کے سامنے اپنے مطالبات پیش کئے۔ صوبائی وزیر نے ان مطالبات پر مثبت ردعمل دیتے ہوئے حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی کہ ان حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس تقریب کا اہتمام ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ اور پاکستان گرل گائیڈ ایسوسی ایشن نے سیو دی چلڈرن کے تعاون سے کیا تھا۔

تقریب سے پاکستان گرل گائیڈ ایسوسی ایشن کی مرکزی صدر مسز پروین سرور، رکن پنجاب اسمبلی محترمہ سعدیہ سہیل، سی ای او شیخوپورہ منظور ملک، ڈیموکریٹک کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تنویر جہاں اور گرل گائیڈ ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو ارکان مسز ندیمہ ظفر اور مسز ثروت حامد نے خطاب کیا۔ سیو دی چلڈرن کے عہدیدار عدیل احمد سمیت سول سوسائٹی لاہور کے کارکنوں نے تقریب میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج فیروز والا کی بچیوں نے  پاکستان میں بچوں کے حقوق کی صورت حال پر ایک تمثیل پیش کی۔  اس موقع پر بچوں نے اپنے مطالبات پر مبنی ذیل کی عرضداشت پیش کی:

پاکستان نے 12 نومبر 1990 ءکو اس معاہدے پر دستخط کئے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو اس معاہدے کا حصہ بنے 30 سال ہو گئے ہیں۔ پاکستان پہلا مسلم ملک تھا جو اس معاہدے کا حصہ بنا۔ آج کا دن ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں بسنے والے بچوں کی صورت حال کا جائزہ لیں کہ ہم اس معاہدے کا حصہ بننے کے تیس سال بعد کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے ملک کی 48 فیصد آبادی اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ یہ تازہ اعداد و شمار ہمیں نئی مردم شماری کے نتیجے میں پتہ چلے ہیں۔ کسی ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کی اصل تعداد کا پتہ پیدائش کے وقت اندراج سے ہوتا ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں صرف 42 فیصد بچے پیدائش کے بعد رجسٹر ہوتے ہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا پیدائش کے فوری بعد اندراج کیا جائے۔ پیدائش کے اندراج کے طریقہ کار کو سادہ بنایا جائے اور اس پر تمام اخراجات ختم کئے جائیں۔

ہمارے ملک میں ابھی تک یہ ہی طے نہیں ہے کہ کس عمر کے فرد کو بچہ تصور کیا جائے گا۔ مختلف قوانین میں بچے کی عمر کی حد مختلف مقرر کی گئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت بچے کی تعریف کے حوالے سے قانون سازی میں مکمل ہم آہنگی کو یقینی بنائے تاکہ 18 سال سے کم عمر کے ہر فرد کو بچہ تسلیم کیا جائے۔

پاکستان نے گزشتہ برسوں میں بچوں کی شرح اموات پر کافی حد تک قابو پانے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی بھی ہر سال ایک ہزار میں سے 59 بچے اپنی پیدائش کے وقت ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ چار فیصد بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں منا پاتے۔ 35 فیصد بچے پیدائش کے وقت ہی غذائی قلت کا شکار ہوتے ہیں اور کم وزن پیدا ہوتے ہیں۔ 38 فیصد بچے Stunted Growth کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ غذائی قلت اور کم نشوونما کا شکار بچوں کے لیے مناسب خوراک کی فراہمی اور طبی مراکز میں غذائی پیکیج کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سکول جانے والی عمر کے دو کروڑ 28 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ یوں پاکستان سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یعنی ہم اس مد میں صرف نائیجیریا سے پیچھے ہیں۔ جو بچے سکول جاتے بھی ہیں وہ دس سالہ سکول کی تعلیم میں صرف پرائمری کے معیار تک سیکھ پاتے ہیں۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق 5 سے 16 سال تک کے تمام بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔

پاکستان نے 2021-2020ء کے بجٹ میں 2.9 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ ساﺅتھ ایشیا ریجن کی اوسط 3.8 فیصد اور اسی انکم گروپ کے دیگر ممالک کی اوسط 4.5 فیصد سے کم ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھائے اور تمام بچوں کے لیے تعلیم کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

یونیسیف نے پاکستان سے 2017 ءاور 2018 ءمیں کئے گئے لیبرفورس سروے کی مدد سے جو تجزیہ کیا اس کے مطابق 5 سے 17 سال کی عمر کے 12.8 فیصد بچے مشقت کرتے ہیں۔ ان میں 12.9 فیصد بچیاں اور 12.7 فیصد بچے شامل ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو ملازمین کی حیثیت سے کام کرتی ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر بدسلوکی اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ کئی واقعات میں اتنا تشدد کیا گیا کہ بچوں کی موت بھی واقع ہوئی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے مربوط پروگرام تشکیل دے۔

بچہ مزدوری کی جگہوں کی مسلسل نگرانی کا نظام وضع کرے تاکہ انہیں کسی بھی قسم کی بدسلوکی سے بچایا جا سکے۔

جبری مشقت کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جائے اور ذمہ داران کو سزائیں دی جائیں۔

حکومت تمام ہاﺅسنگ سوسائٹیز کو پابند کرے کہ ان کی حدود میں بچے گھریلو ملازمت نہ کریں۔

پاکستان کم عمری کی شادی کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ ہمارے یہاں ہر سو میں سے چوبیس شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں انجام پاتی ہیں۔ کم عمری کی شادی سے لڑکیوں کی صحت خراب ہوتی ہے۔ زچگی کے دوران اموات میں اضافہ ہوتا، لڑکیوں پر تشدد کا امکان بڑھ جاتا ہے اور زیادہ بچوں کی پیدائش کے ساتھ خاندان کے وسائل پر دباﺅ بڑھتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں لڑکیوں کی شادی کی عمر سولہ سال کی بجائے اٹھارہ سال کی جائے۔

کم عمری کی شادی کے نقصان دہ اثرات اور کم عمری کی شادی کی ممانعت کے قانون سے متعلق ریڈیو، ٹی وی کے ذریعے سے آگاہی مہم شروع کی جائے۔

بچوں کے جنسی استحصال اور بدسلوکی میں گزشتہ برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ سینیٹ کی بچوں کے تحفظ کی کمیٹی کو 2019 ءمیں بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی 4000 شکایات موصول ہوئیں۔ ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اصل تعداد رپورٹ کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ سال 2019ء میں بچوں سے بدسلوکی کے واقعات میں 159 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ باقی علاقوں کی صورت حال کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہم نے بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی سے نمٹنے کے لیے اسی سال زینب الرٹ بل پیش کیا ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے بچوں کے خلاف تمام اقسام کے تشدد پر قابو پانے کے لیے قومی اور صوبائی سطح کی جامع پالیسی مرتب کی جائے۔

بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے ایک مربوط فریم ورک تیار کیا جائے۔

بچوں کے خلاف جنسی تشدد اور بدسلوکی کی لازمی رپورٹنگ کے لیے ایک موثر، Child Friendly قابل رسائی اور فوری طور پر رسپانس دینے والا نظام متعارف کروایا جائے۔

گو پنجاب میں سکولوں میں ’مار نہیں پیار‘ کا نعرہ بہت مقبول ہوا ہے لیکن ابھی بھی سکولوں میں جسمانی سزا کا چلن ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جسمانی سزا کی تمام اقسام پر پابندی لگائی جائے اور اسے مکمل طور پر ختم کیا جائے۔

ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق کو ایک خواب کی بجائے حقیقت کا روپ دینے کے لیے وسائل کا بھرپور استعمال کرے۔

پسماندہ طبقوں اور غربت کا شکار بچوں میں کم خوراکی کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے۔

نوعمر غیر مسلم بچیوں کے اغوا اور جبری تبدیلی مذہب اور شادی کی روک تھام کے لیے موثر قانون سازی اور اقدامات کئے جائیں۔

بچوں کے لیے متبادل دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے واضح قوانین، معیاری خدمات کی فراہمی، متواتر نگرانی اور بچوں کی شمولیت جیسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

معذوری کا شکار بچوں کے خاندانوں کو مدد اور رہنمائی فراہم کی جائے۔ معذور بچوں کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں تبدیلی کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔

معذور بچوں کی جامع تعلیم تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔

ملک بھر میں معذور بچوں کی سکولز، صحت اور عوامی عمارتوں تک بلارکاوٹ رسائی یقینی بنانے کے لیے عمارتوں کے ڈیزائن میں موزوں تبدیلیاں کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).