علامہ خادم کی وفات اور احمدی ڈاکٹر کا قتل: قومی سانحہ اور انسانی المیہ میں فرق


تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی 54 سال کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔ کسی بھی شخص کی موت انسانی المیہ ہے۔ نہ اس پر شادیانے بجائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی سکھ کا سانس لیا جا سکتا۔ ہر شخص اپنی صوابدید اور ضرورت کے مطابق زندگی میں کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خادم رضوی نے بھی یہی کیا۔ گزشتہ تین برس کے دوران اپنی تقریروں او ر دھرنوں کے ذریعے انہوں نے اپنی پہچان بنائی۔ اب وہ اپنے رب کے حضور پیش ہیں۔ اپنے قول و فعل کے لئے خود ہی جوابدہ ہوں گے۔

پاکستان میں محبت و نفرت کے حوالے سے چونکہ ایک خاص مزاج بنایا جا چکا ہے، اس لئے ہر سانحہ یا وقوعہ پر شدید جذبات اور انتہائی رائے کا اظہار معمول بن چکا ہے۔ خادم رضوی کی وفات پر بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس دوران آج ننکانہ کے ایک گاؤں میں ایک نوعمر لڑکے نے پستول سے مسلح ہو کر ایک احمدی خاندان کے گھر پر دستک دی۔ جواں سال ڈاکٹر نے دروازہ کھولا تو لڑکے نے کوئی بات کیے بغیر فائر کھول دیا۔ گولی کی آواز سن کر ڈاکٹر کے والد اور چچا باہر آئے تو حملہ آور نے انہیں بھی نشانے پر لے لیا۔ اہل محلہ نے لڑکے پر قابو پایا اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر خود زخموں سے جاں بر نہ ہوسکا۔ اس کے والد اور چچا زیر علاج ہیں۔ کوئی خبر نہیں کہ ان میں سے کس کی زندگی باقی ہے اور کس کا آخری وقت آنے کو ہے۔ پولیس نے البتہ تحقیقات شروع کردی ہیں۔

علامہ خادم رضوی کی رحلت کے ساتھ اس قتل کا ذکر دو حوالے سے ضروری ہے۔ ایک یہ خادم حسین نے جس مزاج کی آبیاری کرتے ہوئے شہرت حاصل کی، ننکانہ میں ہونے والا قتل اسی مزاج کا شاخسانہ ہے۔ اگرچہ ملک میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ خادم حسین کی موت قومی سانحہ ہے یا نہیں لیکن ایک احمدی ڈاکٹر کا قتل ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ قومی سانحہ کو ماپنے کا پیمانہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ملک کا ایک نوجوان جب کسی دشمنی یا قضیہ کے بغیر محض عقیدہ کی وجہ سے مسلح ہو کر کسی دوسرے عقیدہ سے تعلق رکھنے والے خاندان کے گھر دستک دیتا ہے اور کسی سوال جواب کے بغیر فائر کھول کر ایک شخص کو ہلاک اور دو کو شدید زخمی کرتا ہے تو اس واقعہ کو ہر باشعور قومی سانحہ قرار دے گا۔

شعور ہمیں سوال کرنے اور دلیل دینے کا سبق دیتا ہے۔ اسی شعور کی بنیاد پر کوئی بھی قوم عقیدے کے نام پر ہونے والے قتل کو مسترد کرے گی اور اگر اس کے شہری ایسے کسی واقعہ میں ملوث ہوں تو اسے جرم اور سانحہ قرار دیا جائے گا۔ پاکستان میں اس روایت کو ترک کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ کہنے کا حوصلہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان سے شعور و آگہی کو سمیٹا جا رہا ہے اور کسی کو احساس زیاں بھی نہیں ہے۔ کسی احمدی کا قتل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نہ ہی عقیدہ و مسلک کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ لیکن ایسا ہر واقعہ اس یقین کو پختہ کرتا ہے کہ پاکستان میں دین کے نام پر جہالت اور شدت پسندی کو فروغ دینے کا کام زور شور سے ہو رہا ہے۔ ان حالات کو بلاشبہ قومی سانحہ کہا جاسکتا ہے۔ ایسے واقعات کی شدت اور تسلسل زوال کا ایسا المناک سفر ہے جس پر گامزن ہونے والی کسی قوم نے فلاح اور زیست کا راستہ نہیں پایا۔ تباہی کے اس سفر سے بچنے کی کوئی صدا سننے میں نہیں آتی۔ لیکن علامہ خادم رضوی کے مداح ان کی رحلت کو قومی سانحہ سمجھنے پر اصرار کرتے رہیں گے۔ فیصلہ تاریخ کو کرنا ہے۔ تاریخ کے فیصلے تقریروں، نعروں اور ڈنڈوں کے زور پر نہیں ہوتے۔

ایک احمدی ڈاکٹر کے قتل کا ذکر علامہ خادم رضوی کی رحلت کے ساتھ کرنے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ خادم رضوی نے 2016 میں اسی مذہبی شدت پسندی کا علم بلند کر کے قومی سیاست اور مباحث میں اپنی آمد کا اعلان کیا تھا جس کی آبیاری کی وجہ سے آج پاکستان میں ایک اقلیتی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ایک انسان کا ناحق خون بہایا گیا ہے۔ فروری 2016 میں سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی سے پہلے خادم رضوی محکمہ اوقاف کے ملازم کی حیثیت سے لاہور کی ایک مسجد میں خطیب تھے۔ اس وقت تک نہ کوئی انہیں قومی سطح کا مقرر مانتا تھا اور نہ ہی اہم دینی عالم قرار دیا جاتا تھا۔ خادم رضوی نے ممتاز قادری کی پھانسی پر سپریم کورٹ کے ججوں کو للکارنے اور اس فیصلہ کے خلاف احتجاج منظم کرنے سے شہرت پائی۔ اس کے بعد انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے اقرار نامہ کی زبان کو عذر بنا کر نومبر 2017 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف فیض آباد راولپنڈی میں تین ہفتے تک دھرنا سے مقبولیت کی نئی منازل تک رسائی حاصل کی۔

سلمان تاثیر کو ان کے سرکاری گارڈ ممتاز قادری نے جنوری 2011 میں قتل کیا تھا۔ وہ بھی ایک شدت پسند مولوی کی تقریر سن کر سلمان تاثیر کو توہین رسالت کا مرتکب سمجھنے لگا تھا۔ سلمان تاثیر کا واحد قصور یہ تھا کہ انہوں نے عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو انصاف دلوانے کی بات کی تھی اور یہ سوال اٹھایا تھا کہ توہین مذہب کے ایسے قوانین کو کیوں تبدیل نہیں کیا جا سکتا جنہیں بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سلمان تاثیر توہین مذہب کے پاکستانی قوانین پر مکالمہ تو شروع نہیں کروا سکے لیکن خود ہی ایک ایسے شخص کی گولیوں کا نشانہ بن گئے جنہیں سرکار نے ان کی حفاظت پر مامور کیا تھا۔

طویل انتظار اور قانونی مباحث کے بعد اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تحریک لبیک نے خادم رضوی کی قیادت میں اس فیصلہ کے خلاف بھی احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک ملک کے سیاسی حالات تبدیل ہوچکے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس کے انجام تک پہنچایا جا چکا تھا اور ’ایک پیج‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے عمران خان وزیر اعظم بن چکے تھے۔ خادم رضوی یہ اندازہ کرنے میں ناکام رہے کہ سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونے سے اب ان کے ناجائز نعروں کی حوصلہ افزائی کا موسم نہیں تھا۔ آسیہ بی بی کیس میں احتجاج کرنے کی کوشش پر خادم رضوی سمیت تحریک لبیک کے درجنوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور طویل المدت سزائیں بھی دی گئیں۔ مرحوم خادم رضوی اور تحریک لبیک کے دیگر لیڈروں نے معافی نامے لکھ کر جان بخشی کروائی۔

علامہ خادم رضوی کے انتقال پر انہیں حرمت رسولﷺ کا چوکیدار قرار دیتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے اور ان کے حامی سوشل میڈیا کے ذریعے اسے پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کا ناقابل تلافی نقصان قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں ہے لیکن آزادی مذہب و رائے کا پرچار کرنے والے بیشتر لوگوں نے خادم رضوی کے انتقال پر افسوس کا اظہار ضرور کیا ہے کہ کسی بھی انسان کی موت المیہ ہوتا ہے لیکن ان کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہ ایک جائز اور مناسب طرز عمل ہے۔

کسی شخص کے ساتھ اختلاف اس کی زندگی میں ہی کیا جاسکتا ہے۔ کسی کے انتقال کے بعد اسے برا بھلا کہنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا ۔ حالانکہ علامہ خادم رضوی نے عبدالستار ایدھی اور انسانی حقوق کی نامور علمبردار عاصمہ جہانگیر کے مرنے پر جن خیالات کا اظہار کیا، وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ وہ جس سوچ کی نمائندگی کرتے تھے، اس کے مطابق نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر کسی کو مرنے کے بعد بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ خادم رضوی کی رحلت پر اگر کچھ عناصر سوشل میڈیا پر ان کے خیالات کی وجہ سے منفی تبصرے سامنے لا رہے ہیں تو اس کی دلیل خود مرحوم کے قول و فعل میں تلاش کی جا سکتی ہے۔

علامہ خادم رضوی کے دینی علم اور تحقیقی کام کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔ انہوں نے اپنے جاں نثاروں کے لئے تقریروں کی صورت میں ورثہ چھوڑا ہے۔ ان میں وہ محتاط روی کی تمام حدود پھلانگتے ہیں اور دشنام طرازی کو تکیہ کلام بنانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کے طرز تکلم ہی کی وجہ سے انہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی اور یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تحریک لبیک میں اب کوئی دوسرا لیڈر ان کی جگہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ تقریروں اور مذہبی سیاست کے نام پر دیے گئے دھرنوں کی بنیاد پر کسی مذہبی یا سیاسی لیڈر کے علمی مقام کا تعین ممکن نہیں۔ ان کا آخری دھرنا گزشتہ اتوار اور سوموار کو گستاخانہ خاکوں کے تنازعہ پر فرانس کے سفیر کو پاکستان سے نکالنے کے سوال پر دیا گیا تھا۔ تاہم چند گھنٹے تک وفاقی وزیر مذہبی امور اور وزیر داخلہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ دھرنا ایک ایسے ’معاہدے‘ کی بنیاد پر اختتام پذیر ہوا تھا جس کی قانونی حیثیت کو پیر نور الحق قادری بھی مسترد کر چکے ہیں۔

کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اس کے خیالات پر تو بات کی جا سکتی ہے لیکن اس کی نیت پر رائے دینا مناسب نہیں ہوتا۔ البتہ یہ معاملات ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ خادم رضوی کی قیادت میں کب اور کیوں دھرنے دیے گئے اور کس طرح ان کا خاتمہ ہوا۔ ماضی قریب کی اس تاریخ کا مطالعہ کر کے ہر شخص اپنی رائے قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ علامہ خادم رضوی کے انتقال کے اگلے ہی روز ایک احمدی خاندان پر جان لیوا حملہ البتہ یہ واضح کرتا ہے کہ تحریک لبیک اور اس کے داعی جس مذہبی انتہاپسندی کو ملک میں مروج کرنے کے درپے ہیں، وہ امن و فلاح کا راستہ نہیں ہے۔ یہ طرز عمل پاکستان کو دنیا میں بھی تنہا کرے گا اور قومی سطح پر انتشار، تشدد اور تصادم کا سبب بھی بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali