نیروبی کی بلیک مارکیٹ میں بچوں کی فروخت کا گھناؤنا کاروبار


Rebecca
ایک رات ربیکا کا بچہ چوری کر لیا گیا تھا جو انھیں آج تک نہیں ملا
کینیا کی ایک بلیک مارکیٹ کا کاروبار جاری رکھنے کے لیے بچے اغوا کیے جا رہے ہیں۔ افریقہ آئی نے بچوں کی سمگلنگ کرنے والے ایسے گروہوں کا پردہ فاش کیا ہے جو بچے اغوا کر کے کم سے کم 300 پاؤنڈ میں فروخت کر دیتے ہیں۔

ربیکا کا بیٹا اس وقت 10 سال کا ہو گا۔ وہ نیروبی میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں ربیکا رہتی ہیں یا وہ کہیں اور بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ ہی نہ ہو۔ آخری بار جب انھوں نے اپنے پہلے بیٹے لارنس جوشیہ کو دیکھا، اس کی عمر ایک سال تھی۔ وہ خود اس وقت 16 برس کی تھیں۔

یہ مارچ 2011 کی ایک رات تقریباً 2 بجے کا وقت تھا جب ربیکا جیٹ ایندھن میں ڈوبے رومال کو سونگھنے کے بعد غنودگی کی حالت میں شہر کی ایک سڑک پر بھیک مانگ رہیں تھیں۔

جیٹ ایندھن کو سونگھنے کے بعد ربیکا کی اجنبیوں کے پاس جانے اور بھیک مانگنے کی جھجک ختم ہو جاتی تھی۔

ربیکا 15 برس کی تھیں جب ان کی والدہ نے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کی سکول کی فیس نہ ہی ان کا خرچ اٹھا سکتی ہیں۔ ربیکا گھر سے چلی گئیں اور سڑک پر ہی زندگی گزارنے لگیں۔

ان کی ایک بڑی عمر کے آدمی سے ملاقات ہوئی جس نے ان سے شادی کا چھوٹا وعدہ کیا اور انھیں حاملہ کر کے چلا گیا۔ اگلے ہی سال لارنس جوشیہ پیدا ہوا اور ربیکا نے اسے ایک سال اور کچھ مہینوں تک پالا پھر وہ رات آئی جب ربیکا نے سونے کے لیے آنکھیں بند کیں اور اس کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔

وہ روتے ہوئے بتاتی ہیں ’اگرچہ میرے دوسرے بچے بھی ہیں لیکن وہ میرا پہلا بچہ تھا، اس نے مجھے ماں بنایا تھا۔ میں نے کیوبو میں، کیول میں، بچوں کے ہر مرکز میں اسے تلاش کیا مگر وہ کہیں نہیں ملا۔‘

ربیکا اب بھی نیروبی میں انہی سڑکوں پر رہتی ہیں۔ وہ چھوٹے قد کی خاتون ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے بال کئی چوٹیوں میں بندھے ہیں۔ ان کے اب تین بیٹیاں ہیں جن کی عمریں آٹھ، چھ اور چار سال ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ سب سے چھوٹی بچی کو ایک بار علاقے میں گھومنے والے ایک شخص نے پکڑ لیا تھا۔ اس شخص نے دعویٰ کیا کہ بچی نے، جو بمشکل ایک سال کی تھی، اسے مشروب خریدنے کو کہا تھا۔ اس کے بعد ربیکا نے ایک کار تک اس کا پیچھا کیا جہاں ایک عورت اس شخص کی منتظر تھی۔ دوسرے دن وہ شخص پھر واپس آیا۔

ربیکا

ربیکا اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کے ساتھ

جس جگہ ربیکا رہتی ہیں وہاں سڑکوں پر ایسی کہانیاں تلاش کرنے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ اگست 2018 میں ایسٹر کا تین سالہ بیٹا لاپتہ ہوگیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’جب سے میں نے اپنا بچہ کھویا ہے، مجھے کبھی سکون نہیں ملا۔ میں نے ممباسا تک اسے تلاش کیا۔‘

پانچ سال پہلے آدھی رات کے وقت کیرول کے دو سالہ بیٹے کو بھی چوری کر لیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے اس سے بہت پیار تھا۔ اگر وہ مجھے صرف میرے بچے کو واپس کردیں تو میں انھیں معاف کردوں گی۔‘

نیروبی کی بلیک مارکیٹ میں بچوں کی فروخت کے کاروبار کے لیے، غریب اور کمزور عورتیں آسان شکار ہیں۔ ایک سال تک چلنے والی طویل تحقیقات کے دوران، افریقہ آئی کو بے گھر ماؤں سے بچوں کو چھیننے اور بڑے منافع پر فروخت کیے جانے کے ثبوت ملے ہیں۔

ہم نے سڑکوں پر قائم کلینکس میں بچوں کی غیر قانونی سمگلنگ اور حکومت کے زیرانتظام چلائے جانے والے ایک بڑے ہسپتال سے چوری کیے جانے والے بچوں کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔

سرکاری عہدوں پر اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کے دوران، ہم نے ہسپتال کے ایک عہدیدار سے ایک لاوارث بچے کی خریداری کا بندوبست کیا، جس نے دو ہفتوں کے ایک بچے کو براہ راست ہمیں بیچنے سے پہلے اسے باقاعدہ قانونی تحویل میں لیا۔

بچے چوری کرنے والوں کا تعلق کمزور موقع پرستوں سے لے کر منظم مجرموں تک ہے۔ اکثر یہ دونوں گروپ مل کر کام کرتے ہیں۔ موقع پرستوں میں انیتا جیسی خواتین بھی شامل ہیں، جو شراب نوشی اور منشیات کی عادی ہیں، وہ اکثر سڑک پر رہتی ہیں اور ربیکا جیسی خواتین سے بچے چوری کر کے پیسہ کماتی ہیں۔ زیادہ تر وہ مائیں ان کا شکار بنتی ہیں جن کے بچوں کی عمر تین سال سے کم ہو۔

افریقہ آئی کی اس رپورٹ کے منظرِعام پر آنے کے بعد کینیا میں پولیس چیف ہلیری متیامبائی نے دارالحکومت کے ہسپتالوں کے علاوہ بچوں کے کئیر ہومز میں تحقیقات کا حکم دیا ہے اور پولیس نے مبینہ طور پر بچوں کی چوری اور فروخت کا ریکٹ چلانے کے الزام میں چار افراد کو گرفتار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بسکٹ کے ڈبوں میں ’نوزائیدہ بچے‘

سمگل ہونے والی خاتون خود انسانی سمگلر کیسے بنیں؟

چین: والدین کو 32 برس قبل اغوا ہونے والا بیٹا دوبارہ مل گیا

افریقہ آئی کو انیتا کے بارے میں ان کی ایک دوست کے ذریعے پتہ چلا، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ انیتا کی دوست ایما (فرضی نام) نے بتایا کہ انیتا کے پاس بچوں کو چھیننے کے مختلف طریقے ہیں۔

ایما نے بتایا ’بعض اوقات وہ یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا ماں جانتی ہے کہ وہ یعنی انیتا کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، پہلے ماں سے بات کرنے کی کوشش کرے گی اور کبھی کبھی وہ ماں کو نشہ آور چیز دے دیتی ہے۔ کبھی اسے نیند کی گولیاں یا نشہ آور گوند دے دے گی۔ بعض اوقات وہ بچے کے ساتھ کھیلے گی۔

’انیتا کے پاس بچے چوری کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔‘

Emma

افریقہ آئی کو انیتا کے بارے میں ان کی ایک دوست کے ذریعے پتہ چلا، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ انیتا کی دوست ایما (فرضی نام) نے بتایا کہ انیتا کے پاس بچوں کو چھیننے کے مختلف طریقے ہیں

ممکنہ خریداروں کے بھیس میں، افریقہ آئی نے نیروبی کے ایک شراب خانے میں انیتا کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ ایک حالیہ اغوا کے متعلق بتاتے ہوئے، انیتا نے ہمیں بتایا کہ ان پر باس کا دباؤ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے چوری کریں۔

ان کا کہنا تھا ’میں سڑکوں پر نئی نئی تھی، وہ الجھتی ہوئی دکھائی دیتی تھی، اسے معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس نے مجھ پر اعتماد کیا۔ اب وہ بچہ میرے پاس ہے۔‘

انیتا نے بتایا کہ اس کی باس ایک مقامی کاروباری خاتون ہیں جنھوں نے چھوٹے جرائم میں ملوث مجرموں سے چوری شدہ بچے خریدے اور انھیں منافع پر بیچا۔ انھوں نے بتایا کہ خریداروں میں سے کچھ ’ایسی خواتین تھیں جن کی اولاد نہیں ہو سکتی۔ لہذا ان کے لیے یہ ایک طرح سے گود لینے جیسا ہے لیکن ’بعض افراد ان بچوں کو قربانی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

’ہاں، انھیں قربانیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بچے سڑکوں سے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر کبھی ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔‘

اس سے قبل ایما نے بھی ہمیں بتایا تھا کہ انیتا کے مطابق، کچھ خریدار ’بچوں کو مختلف رسموں کے لیے لے جاتے ہیں۔‘

ایک بار جب انیتا نے ایک بچہ بیچ دیا تو آگے اس کے ساتھ کیا ہوگا، اس بارے میں انیتا کے پاس بہت کم معلومات ہیں۔ وہ کہتی ہیں 350 پاؤنڈ یا 550 پاؤنڈ، یعنی کہ وہ 50،000 شیلنگ میں لڑکی اور 80،000 شیلنگ میں لڑکا، کاروباری خاتون کو فروخت کرتی ہیں۔ نیروبی میں سڑک پر موجود کسی عورت سے چوری کیے گئے بچے کی تقریباً یہی قیمت ہے۔

ایما کہتی ہیں ’کاروباری خاتون کبھی تسلیم نہیں کرتی کہ وہ بچوں کا کاروبار کرتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں ’میں نے انیتا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ وہ عورت ان بچوں کے ساتھ کیا کرتی ہے، اور اس نے مجھے بتایا کہ جب تک اس کے پاس پیسہ آ رہا ہے اسے پروا نہیں پھر چاہے وہ انھیں جادو کرنے والوں کے پاس لے جائے۔‘

پہلی ملاقات کے فوراً بعد، انیتا نے ایک اور ملاقات کرنے کے لیے بلایا۔ جب ہم پہنچے تو وہ ایک بچی کے ساتھ بیٹھی تھی جس کے بارے میں انیتا نے بتایا کہ وہ پانچ ماہ کی ہے اور اس نے ماں کا اعتماد جیتنے کے بعد چند لمحے پہلے ہی اسے چوری کیا ہے۔

’اس کی ماں نے مجھے ایک سیکنڈ کے لیے بچی پکڑائی اور میں اسے لے کر بھاگ کھڑی ہوئی۔‘

انیتا نے بتایا کہ اس نے ایک خریدار کو 50،000 شلنگ میں اس لڑکی کو خریدنے کے لیے راضی کیا تھا۔ لیکن ہمارے ذریعے ایما نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وہ انیتا کو ایک ایسے خریدار سے ملوائے گی جو 80،000 ادا کرسکتے ہیں۔

انیتا نے کہا ’یہ بہترین ہے، کل ہی ڈیل فائنل کرتے ہیں۔‘

Five month old baby girl apparently stolen in Nairobi

ماریانا کہتی ہیں کہ ’عموماً رپورٹ نہ کرنے کی وجہ، متاثرین کا غریب طبقے سے تعلق ہوتا ہے۔ ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے، معلومات نہیں ہوتیں، نیٹ ورک نہیں ہوتے کہ وہ کہیں جا سکیں اور کہہ سکیں کہ کوئی میرے بچے کو ڈھونڈے‘

شام 5 بجے کے لیے ایک میٹنگ طے کی گئی تھی۔ چونکہ ایک بچے کی جان کو خطرہ تھا، افریقہ آئی نے پولیس کو اطلاع دی، جس نے انیتا کو گرفتار کرنے اور بچے کو بچانے کے لیے اس وقت ایک سٹنگ آپریشن کا بندوبست کیا۔ طے ہوا کہ ہمارے خریدار کی انیتا سے ملاقات کے بعد پولیس اسے پکڑ لے گی۔ شاید یہ اس بچی کے لاپتہ ہونے سے پہلے اسے محفوظ کرنے کا آخری موقع تھا۔

لیکن انیتا اس روز وہاں پہنچی ہی نہیں۔ کئی دن کوشش کرنے کے باوجود ہم اسے ڈھونڈ نہیں سکے۔ کئی ہفتوں کے بعد ایما آخر کار اس سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ایما نے ہمیں بتایا کہ انیتا کے مطابق اس نے بچوں کی زیادہ قیمت دینے والے ایک نئے گاہک کو تلاش کر لیا اور اس رقم سے شہر کی ایک کچی آبادی میں دو کمروں اور ٹن شیٹ والا مکان بنایا ہے۔ بچی لاپتہ ہو چکی تھی۔ پولیس کے پاس انیتا کی فائل اب بھی کھلی ہے۔

’چلیے سودا کرتے ہیں‘

کینیا میں اس حوالے سے کوئی بھی مصدقہ اعداد و شمار نہیں ہیں کہ ملک میں بچوں کی سمگلنگ کتنے بڑِ پیمانے پر ہو رہی ہے۔ نہ کوئی حکومتی رپورٹ ہے نہ ہی قومی سطح پر کوئی سروے کیا گیا ہے۔ جو ایجنسیاں لاپتہ بچوں کا پتہ لگانے کی ذمہ دار ہیں ان کے پاس وسائل اور عملے کی کمی ہے۔ ماریانا مونینڈو نے ایک غیر سرکاری تنظیم بنائی ہے جو کہ ان ماؤں کے لیے شاید آخری دفاع ہے۔ مسنگ چائلڈ کینیا نامی اس تنظیم نے چار برسوں میں تقریباً 600 کیسز پر کام کیا ہے۔

ماریانا مونینڈو کہتی ہیں کہ یہ کینیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جسے رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ ‘مسنگ چائلڈ کینیا میں ہم نے صرف ابھی ظاہری سطح کو کریدا ہے۔‘ اس معاملے کو ‘سماجی فلاح کے پروگراموں میں ترجیح نہیں دی جا رہی۔‘

اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ عموماً اس جرم کا نشانہ وہ لوگ بنتے ہیں جو ربیکا کی طرح اثر و رسوخ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے پاس ایسے وسائل ہوتے ہیں کہ وہ معاشرے یا میڈیا کی وہ توجہ حاصل کر سکیں جس سے حکام ایکشن لینے پر مجبور ہو جائیں۔

ماریانا کہتی ہیں کہ ’عموماً رپورٹ نہ کرنے کی وجہ، متاثرین کا غریب طبقے سے تعلق ہوتا ہے۔ ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے، معلومات نہیں ہوتیں، نیٹ ورک نہیں ہوتے کہ وہ کہیں جا سکیں اور کہہ سکیں کہ کوئی میرے بچے کو ڈھونڈے۔‘

اور اس بلیک مارکیٹ کو چلانے میں ایک عنصر معاشرتی طور پر بانجھ پن کو برا سمجھا جانا ہے۔ ماریانا کہتی ہیں کہ ‘افریقی شادیوں میں عورت کے لیے بانجھ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آپ کی اولاد ہونی چاہیے اور وہ اولاد لڑکا ہونا چاہیے۔ نہیں تو آپ کو گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔ تو ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے آپ بچہ چوری کریں گے۔‘

اس صورتحال میں ایک عورت غالباً انیتا کی باس جیسی کسی سمگلر سے رابطہ کرے گی، جو سڑکوں سے بچوں کو چھیننے کے لیے انیتا جیسے کمزور لوگوں کا استعمال کرتی ہے۔ یا وہ کسی ایسے شخص سے رابطے میں ہوسکتے ہیں جسے کسی ہسپتال تک رسائی حاصل ہے۔

افریقہ آئی کی تحقیق کے مطابق، نیروبی کے سرکاری سطح پر چلنے والے سب سے بڑے ہسپتالوں میں بچوں کی سمگلنگ کے گروہ کام کر رہے ہیں۔ اپنے ذرائع سے ہم نے ماما لوسی کباکی ہسپتال میں کلینیکل سماجی کارکن فریڈ لیپران سے رابطہ کیا۔ ماما لوسی ہسپتال میں پیدا ہونے والے کمزور بچوں کی فلاح و بہبود کی حفاظت کرنا لیپران کا کام ہے۔

لیکن ہمارے ذرائع نے بتایا کہ لیپران براہ راست سمگلنگ میں ملوث تھے۔ ذرائع نے یہ کہہ کر لیپران سے ملنے کا اہتمام کیا کہ ایک خاتون جو حاملہ نہیں ہو سکتیں، بچہ خریدنے کے لیے بے تاب ہیں۔

لیپران نے جواب دیا ’میرے پاس ہسپتال میں ایک بچہ ہے جسے دو ہفتے قبل کوئی ماں چھوڑ گئی تھی اور اسے لینے کبھی واپس نہیں آئی۔‘

ہمارے ذرائع کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں تھا جب لیپران نے کسی بچے کو بیچنے کا انتظام کیا تھا۔

لیپران نے میٹنگ میں بتایا ’آخری مرتبہ میں خوفزدہ ہو گیا تھا، اس لیے اب میں ایسا منصوبہ چاہتا ہوں جس کے بعد ہمارے لیے کوئی پریشانی نہ بنے۔‘

Fred

افریقہ آئی کی تحقیق کے مطابق، نیروبی کے سرکاری سطح پر چلنے والے سب سے بڑے ہسپتالوں میں بچوں کی سمگلنگ کے گروہ چل رہے ہیں۔ ماما لوسی میں پیدا ہونے والے کمزور بچوں کی فلاح و بہبود کی حفاظت کرنا لپران کا کام ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع نے بتایا کہ لیپران براہ راست سمگلنگ میں ملوث تھے

لیپران جس بچے کو بیچنا چاہتے تھے ایسے بچوں کو سرکاری نگہداشت والے گھروں میں لے جانا چاہیے جہاں انھیں ایسے رضاعی والدین کے ساتھ رکھا جائے جن کے پسِ منظر سے متعلق جانچ پڑتال کی جا چکی ہو۔ لیکن جب ایسے بچے فریڈ لیپران جیسے لوگوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر فروخت ہوتے ہیں تو کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں پہنچیں گے۔

افریقہ آئی کے لیے کام کرنے والی ایک خفیہ رپورٹر روز نے ہسپتال کے قریب واقع ایک دفتر میں لیپران سے ملاقات کی۔ لیپران نے روز کے بارے میں کچھ سرسری سوالات پوچھے۔ روز نے کہا کہ وہ شادی شدہ ہیں لیکن حاملہ نہیں ہوسکتیں اور ان پر بچے پیدا کرنے کے لیے شوہر کے اہل خانہ کا کافی دباؤ ہے۔

لیپران نے پوچھا ’کیا آپ نے بچہ گود لینے کی کوشش کی؟‘

روز نے جواب دیا ’ہم نے اس کے بارے میں سوچا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ قدرے پیچیدہ عمل ہے۔‘

اور اس کے ساتھ ہی لیپران راضی ہوگئے۔ قیمت تین لاکھ شیلنگ طے پائی۔۔ یعنی دو ہزار پاؤنڈ۔

انھوں نے روز اور ہمارے ذرائع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’اگر ہم اس سودے کو آگے بڑھاتے ہیں تو یہ بات صرف ہم تینوں کے بیچ رہنی چاہیے۔۔۔ میں، آپ اور وہ۔ میں کسی اور پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ یہ بہت خطرے والی بات ہے۔ اس سے مجھے بہت پریشانی ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ بچے کی فروخت کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کریں گے۔

’بچوں کی تجارت عروج پر ہے‘

انیتا جیسی سڑکوں سے بچے چھیننے والی عورتوں اور لیپران جیسے کرپٹ عہدیداروں کے علاوہ، نیروبی میں بچوں کی سمگلنگ کے کاروبار کا ایک اور ذریعہ بھی ہے۔ شہر کی کچھ کچی آبادیوں کے اردگرد آپ کو ایسے غیر قانونی کلینک دکھائی دیتے ہیں جہاں متوقع ماؤں کے لیے بچہ پیدا کرنے والے کمرے بنے ہیں۔ یہ عارضی کلینک بلیک مارکیٹ میں بچوں کی تجارت کے لیے ایک مشہور مقام ہیں۔

افریقہ آئی نے ایک مقامی ریڈیو سٹیشن ’گھیٹو ریڈیو‘ کے ساتھ کام کرنے والی مقامی صحافی جُوڈتھ کنیتھا کے ذریعے نیروبی کے کیول محلے میں ایک کلینک سے رابطہ کیا، جہاں شہر کے ہزاروں غریب مقیم ہیں۔ کنیتھا کے مطابق، کیول میں بچوں کی تجارت عروج پر ہے۔

ہم جس کلینک تک پہنچے وہ میری آوما نامی ایک خاتون چلاتی ہیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ نیروبی کے بعض بڑے ہسپتالوں میں نرس کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ کنیتھا نے خود کو ایک خریدار کے طور پر ظاہر کیا۔ کلینک کے اندر، دو خواتین پہلے ہی لیبر میں تھیں۔

آوما نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’یہ ساڑھے آٹھ ماہ کی حاملہ ہے، بچہ پیدا کرنے کے لیے تقریباً تیار ہے۔‘ آوما نے کنیتھا کو وہ بچہ جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ،45 ہزار شیلنگ یعنی 315 ڈالر میں فروخت کرنے کی پیشکش کی۔

آوما پیدائش کے بعد ماں کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مند نہیں تھیں۔ انھوں نے کہا ’جیسے ہی انھیں اپنا پیسہ مل جائے گا، وہ چلی جائے گی۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ کبھی واپس نہیں آتیں۔‘

Mary Auma negotiates a sale at her street clinic

ہم جس کلینک تک پہنچے وہ میری آوما کے نام سے جانے والی ایک خاتون چلاتی ہیں، جن کا کہنا تھا کہ انھوں نے نیروبی کے کچھ بڑے ہسپتالوں میں نرس کی حیثیت سے کام کیا تھا

اس دن کلینک میں آٹھ ماہ کی وہ حاملہ عورت آدامہ تھیں۔

ربیکا کی طرح آدامہ بھی سخت غربت کی زندگی گزار رہی تھیں۔ انھیں بھی ایک شخص حاملہ کر کے چھوڑ گیا تھا۔ اور حمل کی وجہ جس زیرِ تعمیر عمارت میں مزدوری کر رہی تھیں، انھیں وہاں سے نکال دیا گیا کیونکہ وہ سیمنٹ کی بھاری بوری نہیں اٹھا پا رہی تھیں۔ تین ماہ تک ان کے مالک مکان نے ان پر ترس کھایا اور پھر اس نے انھیں نکال باہر کیا اور وہ جگہ کسی اور کو کراِے پر دے دی۔

لہذا آدامہ نے اپنے بچے کو بیچنے کا فیصلہ کیا۔ میری آوما انھیں پورے 45 ہزار شیلنگ نہیں دے رہی تھیں۔ انھوں نے آدامہ کو بتایا کہ بچے کی قیمت 10 ہزار شیلنگ یعنی صرف اور صرف 70 پاؤنڈ طے ہوئی ہے۔

بعد میں آدامہ نے اپنے گاؤں میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا ’وہ ایک انتہائی گندی جگہ پر کلینک چلا رہی تھیں، وہ خون کے لیے ایک چھوٹا کنٹینر استعمال کرتی تھیں، ان کے پاس بیسن تک نہیں تھا اور بستر بھی گندا تھا لیکن میں مجبور تھی اور میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

آدامہ نے بتایا کہ جس دن ہم کلینک میں داخل ہوئے تھے، میری آوما نے بغیر کسی انتباہ کے انھیں وہ گولیاں کھلا دیں جن سے بچہ جلدی پیدا ہوتا ہے۔ آوما کے پاس ایک خریدار تھا اور وہ ہر حال میں بچہ فروخت کرنا چاہتی تھیں۔

لیکن پیدائش آسان نہیں تھی۔ بچے کے سینے میں تکلیف تھی اور آوما نے آدامہ سے کہا کہ وہ اسے علاج کے لیے ماما لوسی ہسپتال لے جائے۔ دو ہفتوں کے بعد آدامہ کو بچے کے ساتھ ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ آدامہ نے آوما کو ٹیکسٹ کیا اور اوما نے ہمیں ٹیکسٹ کیا۔

انھوں نے لکھا ’نیا پیکج (یعنی بچہ) جنم لے چکا ہے۔۔ قیمت ہے 45 ہزار۔‘

کلینک میں، آدامہ کو آوما اور ان کے معاون ملے۔ انھوں نے کہا کہ ’بچہ ٹھیک لگ رہا ہے اور اگر کلائنٹ کی خواہش ہوئی تو اسے فوراً ہی لے جایا جائے گا۔‘

آدامہ نے اپنے بچے کو بیچنے کا تکلیف دہ فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اب وہ کشمکش میں تھیں۔

انھوں نے بعد میں بتایا کہ ’میں اپنے بچے کو کسی ایسی عورت کو فروخت نہیں کرنا چاہتی تھی جو اس کی دیکھ بھال نہ کر سکے، یا کوئی ایسا شخص جو بچے خرید کر اسے دوسرے کاموں کے لیے استعمال کرے۔‘

چنانچہ اس دن اپنے بچے کو لے کر آدامہ کلینک سے نکل گئیں۔ انھوں نے اسے حکومت کے زیر انتظام چلڈرن ہسپتال میں چھوڑ دیا جہاں وہ بچہ رضاعی والدین اور ایک اچھے مستقبل کا انتظار کرے گا۔ آدامہ کو کبھی وہ پیسے نہیں مل سکے جن کی انھیں ضرورت تھی۔

وہ اب نیروبی سے دور، اکیلی رہتی ہیں اور کبھی کبھی وہ اپنے بیٹے کو خواب میں دیکھتی ہیں اور اس کے بارے میں سوچتی ہیں۔ اگر کبھی انھیں نیند نہ آئے تو وہ اندھیرے میں سڑک پر چلتی رہتی ہیں۔۔۔ انھیں اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔

انھوں نے کہا ’مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اپنے بچے کو حکومت کے حوالے کر دیا ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ وہ محفوظ ہے۔‘

ہسپتالوں میں ہونے والی خرید و فروخت

سرکاری ہسپتال کے کلینیکل سماجی کارکن فریڈ لیپران نے ہمیں یہ کہتے ہوئے فون کیا کہ انھوں نے ایک ایسے لڑکے کی نشاندہی کی ہے جس کی والدہ اسے چھوڑ گئی ہیں اور وہ ہمارے لیے اس بچے کو چوری کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکا ہسپتال میں ان تین بچوں میں سے ایک تھا جسے قریبی چلڈرن ہوم منتقل کیا جانا تھا۔ لیپران کا کام تھا کہ وہ یقینی بنائیں کہ وہ وہاں محفوظ طریقے سے پہنچ گئے ہیں۔

لیکن لیپران جانتے تھے کہ ایک بار جب بچے ماما لوسی ہسپتال سے چلے گئے تو اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ کوئی چلڈرن ہوم جا کر چیک کرے کہ وہ پہنچے ہیں یا نہیں۔

ہسپتال میں، لیپران نے ضروری کاغذی کارروائی مکمل کی اور عملے کو باتوں میں لگائے رکھا جنھیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کے زیرِ نگرانی کسی بچے کی چوری ہو رہی ہے۔ خفیہ رپورٹر روز باہر کار میں انتظار کر رہی تھیں۔

لیپران نے ہسپتال کی نرسوں کو بتایا کہ روز چلڈرن ہوم میں کام کرتی ہیں اور ان سے کہا کہ وہ بچوں کو اپنے پاس لے جائیں۔ وہ بہت بے چین نظر آ رہے تھے لیکن انھوں نے ہمارے ذرائع کو یقین دلایا کہ نرسیں ان کے پیچھے نہیں آئیں گی۔

انھوں نے کہا ’نہیں، وہ پیچھے نہیں آئیں گے، انھیں کام کرنا ہے۔‘ پھر انھوں نے ٹیم کو جلدی جلدی روانہ ہونے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا ’اگر ہم اس طرح باتیں کرتے رہیں گے تو کسی کو شک ہوسکتا ہے۔‘

کچھ ہی لمحوں بعد ہماری ٹیم کار میں سوار تین نوزائیدہ بچوں کے ساتھ ماما لوسی ہسپتال سے نکل پڑی۔ انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ ان میں سے صرف دو بچوں کو چلڈرن ہوم چھوڑنا ہے۔ تیسرا بچہ کہیں بھی کسی کے پاس بھی جاسکتا تھا۔

خفیہ ٹیم نے تینوں بچوں کو بحفاظت چلڈرن ہوم پہنچایا، جہاں ان کی تب تک دیکھ بھال کی جائے گی جب تک کہ انھیں قانونی طور پر گود لینے کا بندوبست نہ کیا جاتا۔

اسی دن سہ پہر کے وقت لیپران نے روز کو ایک میٹنگ میں بلایا اور انھوں نے ہدایت کی کہ وہ تین لاکھ شیلنگ کی رقم میز پر رکھیں۔ انھوں نے روز کو غذا کے ماہر سے ملنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے کہا ’صرف اس بات کا خیال رکھنا کہ لڑکے کے جسم پر ویکسین لگائے جانے کا نشان ہے۔‘

’اور بہت بہت محتاط رہنا۔‘

بی بی سی نے فریڈ لیپران سے اس لین دین کے بارے میں پوچھا لیکن انھوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ہسپتال نے بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور ایسا لگتا ہے کہ لیپران اپنی ملازمت پر برقرار ہیں۔

ہم نے کیول میں میری آوما کے غیر قانونی سٹریٹ کلینک کے بارے میں بچوں کے حقوق کی ایک این جی او کو بھی آگاہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس کو آگاہ کیا گیا۔ لیکن آوما ابھی بھی کاروبار کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ انھوں نے ہمارے الزامات کا جواب نہیں دیا۔

اور ہم نے انیتا کے سامنے بھی الزامات رکھنے کی کوشش کی لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر غائب ہوگئی ہے۔

Rebecca

ربیکا کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے ’کچھ بھی‘ کرنے کو تیار ہیں۔۔ ’اگر وہ مر بھی چکا ہے تو تب بھی میں یہ جاننا چاہتی ہوں‘

وہ مائیں جن کے بچے چوری کر لیے گئے، شاید وہ انھیں کبھی واپس نہیں مل پائیں گے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ شاید اپنے بچے سے دوبارہ کبھی نہیں مل سکیں گی پھر بھی زیادہ تر ماؤں کی زندگی اپنے بچوں کو دیکھنے کی امید پر رک سی گئی ہے۔

ربیکا کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے ’کچھ بھی‘ کرنے کو تیار ہیں۔۔۔ ’اگر وہ مر چکا ہے تو میں یہ بھی جاننا چاہتی ہوں۔‘

پچھلے سال انھوں نے سنا تھا کہ نیروبی کے ایک دور دراز محلے میں کسی نے ایک لڑکا دیکھا ہے جو ان کی بڑی بیٹی لارنس جوشیہ کی بہن کی طرح لگتا ہے۔ ربیکا جانتی تھیں کہ شاید یہ سچ نہ ہو اور ان کے پاس وہاں تک جانے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا۔۔۔ نہ انھیں پتہ تھا کہ اسے کس پتے پر تلاش کرنا ہے۔

تاہم وہ مقامی پولیس سٹیشن تک گئیں لیکن انھیں کوئی مدد نہیں مل سکی، اور بالآخر ربیکا نے ہار مان لی۔

مِسنگ چائلڈ کینیا سے منسلک ماریانا مونینڈو کہتی ہیں ’یہ مائیں پھر سے اپنے بچھڑے بچوں سے مل پائیں گی، اس بات کا امکان دس لاکھ میں سے صرف ایک ہے۔ ان میں سے بہت سی مائیں خود نوعمر ہیں اور ان کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔‘

مونینڈو کا کہنا ہے کہ ربیکا جیسی ماؤں سے ہمدردی بھی نہیں روا رکھی جاتی۔ وہ کہتی ہیں ’اگر کوئی سڑک پر رہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جذبات یا احساسات سے خالی ہے یا وہ انصاف کے مستحق نہیں۔ سڑک پر رہنے والے لوگ بھی احساسات رکھتے ہیں۔ ان کے بھی جذبات ہیں۔ اگر آپ مہنگے علاقے میں رہتے ہیں تو جس طرح آپ اپنے بچے کو یاد کرتے ہیں اسی طرح سڑک پر رہنے والی ماں بھی اپنے بچے کے لیے تڑپتی ہے۔‘

سڑک سے چوری شدہ بعض بچے ان مہنگے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ربیکا ان دولت مند خواتین کے بارے میں سوچتی ہیں جنھوں نے پیسے دے کر بچے خریدے ہیں، وہ سوچتی ہیں کہ ایک ایسا بچہ جسے اس کی حقیقی ماں سے چرایا گیا ہو، اس کی پرورش کیسے کی جاتی ہو گی؟

وہ پوچھتی ہیں ’بڑے گھروں میں رہنے والی مائیں ان چوری شدہ بچوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ ان کے بارے میں کیا محسوس کرتی ہیں؟‘

اس رپورٹ کی تیاری میں کسیم محمد اور ایلیاہ کانی کی مدد شامل ہے۔

تمام تصاویر برائن اننگاگا نے کھینچی ہیں جن کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp