ڈاکٹر صدف جعفر: امریکہ کی پہلی خاتون مسلمان میئر جو نسلی تعصب کے باوجود سرخرو ہوئیں


'مجھے اچھے سے یاد ہے کہ سکول جانے سے پہلے تک میں اپنے والدین کے ساتھ اردو ہی میں بات کرتی تھی۔ شاید اس وقت مجھے انگریزی کوئی زیادہ آتی بھی نہیں تھی۔ اس دوران میں مسجد بھی جایا کرتی تھی۔ مگر جب سکول گئی تو اس وقت انگریزی میں بات کرنا اور پھر سیکھنا شروع کردیا۔‘

یہ کہنا ہے ڈاکٹر صدف جعفر کا جنھیں امریکہ میں پہلی خاتون مسلمان میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے سنہ 2019 میں میئر کا حلف مشرقی لباس میں لیا تھا۔

ان کے مطابق ’میں امریکی لب و لہجے میں اردو بول بھی لیتی ہو، سمجھ بھی آتی ہے اور کچھ نہ کچھ لکھ بھی لیتی ہوں۔ مگر میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ کچھ مختلف ہوگیا تھا۔

’اس نے بچپن میں بولنا ہی شروع نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو انھوں نے کہا کہ بچہ دو زبانوں کی وجہ سے ’کنفیوژ‘ ہوگیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس لیے والدین نے اس کی پہلی زبان انگریزی کو رہنے دیا۔ وہ بھی اُردو سمجھ لیتا ہے ’مگر میری طرح بول نہیں سکتا۔‘

‘میرا بچپن ان بچوں سے مختلف نہیں جن کے والدین امریکہ منتقل ہو کر اسے اپنا وطن بناتے ہیں۔ پھر وہ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔‘

صدف جعفر کے والد اور والدہ دونوں دو مختلف ایئر لائنز میں ملازمت کرتے تھے۔

ڈاکٹر صدف کے آباؤ اجداد کا تعلق انڈیا کی ریاست گجرات میں واقع ضلع کچ سے ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت انھوں نے انڈیا چھوڑ کر پاکستان، ایران، امریکہ اور دیگر ممالک کا رُخ کیا۔

ان کے والد یمن کے شہر عدن اور والدہ پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے لیکن ان کی اپنی پیدائش شیکاگو میں ہوئی جہاں انھوں نے پہلے ابتدائی اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

ویسے تو ڈاکٹر صدف نے مشرق کی نئی زبانوں اور تہذیب پر ڈاکٹریٹ کیا ہے لیکن انھوں نے خارجی امور کی ڈگری میں گریجویشن کیا تھا۔ وہ پی ایچ ڈی اور 2012 میں شادی کر کے ریاست نیو جرسی کی کونسل مونٹگمری منتقل ہوگئی تھیں۔

مزید پڑھیے

امریکی انتخابات میں حصہ لینے والی انڈین اور پاکستانی خواتین

اقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفر

رفیعہ ارشد: برطانیہ میں حجاب پہننے والی پہلی جج

انھوں نے مونٹگمری ہی سے انتخابی ساست کا آغاز سال 2016 سے ڈیموکریٹ جماعت کے ساتھ کیا۔ ان کے مطابق یہ ان کے لیے بالکل بھی آسان نہیں تھا اور انھیں ہراسانی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر صدف نے بی بی سی کو اپنی کہانی سنائی ہے:

’بچپن میں مجھے کسی معاشی دقت کا سامنا تو نہیں تھا۔ مگر میں نے امریکی ہونے کے باوجود نسلی تعصب کا سامنا ضرور کیا جو تمام تارکین وطن کرتے ہیں۔۔ اس نے مجھے کبھی بھی کمزور نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مضبوط کیا۔ اپنے جیسے دیگر لوگوں کے لیے کچھ کرنے پر اُکسایا۔

زمانہ طالب علمی میں اوباما سے ملاقات

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرا زمانہ طالب علمی شاید امریکی تاریخ کا سب سے ہنگامہ خیز دور تھا۔ پہلے بُش اور پھر اوباما امریکی صدر تھے۔

’بش کے دور میں امریکہ نے عراق اور افغانستان پر حملے کیے۔ اس پالیسی کے خلاف امریکہ بھر میں طلبہ نے مظاہرے کیے تھے۔ میں بھی ان مظاہروں میں شرکت کرتی تھی۔‘

’مظاہرے کی کال پر اپنی ساتھی طالب علموں کو مظاہروں میں شرکت کے لیے اکساتی تھی۔ پلے کارڈ وغیرہ لکھتی، انتظامات کرتی تھی۔

’ان ہی مظاہروں کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ امریکہ میں خواتین، تارکین وطن، امریکی اقلیتوں اور خود امریکہ کے لیے ڈیموکریٹس کی پالیسیاں رپبلکن کے مقابلے بہت اچھی ہیں۔ جس بنا پر میں نے ڈیموکریٹ جماعت کے لیے رضا کار کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔‘

’مجھے وہ دن اب بھی اچھی طرح سے یاد ہے جب میری 16 سال کی عمر میں براک اوباما سے ملاقات کروائی گئی تھی۔ یہ میری زندگی کا بڑا خاص دن تھا۔ شیکاگو کمیونٹی ٹرسٹ کے زیر انتظام ’فیوچر لیڈر آف شیکاگو‘ کا مقابلہ رکھا گیا تھا۔

’اس پروگرام میں کوئی دو سو طلبہ نے حصہ لیا۔ میں سیمی فائنل میں پہچنے والے 60 اور پھر فائنل میں پہچنے والے چند طلبہ میں شامل تھی۔ نہ صرف اوباما سے ملاقات ہوئی بلکہ ہم طلبہ کے لیے اوباما نے ایک خصوصی تقریر بھی کی تھی۔‘

ڈیموکریٹ انتخابی مہم

ڈاکٹر صدف بتاتی ہیں کہ ’مجھے اچھے سے یاد ہے کہ ڈیموکریٹس کی جانب سے براک اوباما مساوات کی پالیسی کے تحت میدان میں اترے تھے۔ ان کی تقاریر اور نعروں میں بہت کشش تھی۔ میں نے نہ صرف ان کی پہلی بلکہ دوسری انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔

’میں ان کی مہم کے دوران گھر گھر جا کر ووٹ مانگتی تھی، پلے کارڈ، پوسٹرز تیار کرتی تھی۔ ٹیلی فون کالز اور سوشل میڈیا پر فعال کردار ادا کرتی تھی۔ ہر کانفرنس، میٹنگ میں شریک ہوتی تھی۔ مقامی سطح پر ہونے والے مباحثوں میں بھی حصہ لیتی تھی۔

’اس دور کے اندر میرا فعال کردار ڈیموکریٹس کی قیادت کی نظر میں آگیا۔ اس کا اظہار انھوں نے میرے نیو جرسی منتقل ہونے کے بعد مجھے عملی سیاست میں حصہ لینے کی دعوت دے کر کیا تھا۔‘

شیکاگو سے نیو جرسی منتقلی

وہ کہتی ہیں کہ زمانہ طالب علمی کے آغاز میں ’میری خواہش تھی کہ فارن سروس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں، فارن سروس ہی جوائن کروں۔ مگر اس دوران اندازہ ہوا کہ شاید سیاست میرے لیے ایک بہتر میدان ہے۔‘

’اس دوران میں نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ اپنے ہی ساتھی طالب علم کے ساتھ والدین کی رضامندی کے ساتھ شادی ہوئی۔ جس کے ہمراہ میں نیو جرسی منتقل ہوگئی۔ سال 2013 میں، میں نے خواتین کے لیے ڈیموکریٹس کے ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ سال 2014 میں ڈیموکریٹس نے جنوبی ایشیا کے لوگوں کے لیے انھیں ڈائریکٹر مقرر کیا تھا۔ ’اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ مقامی کمیونٹی اور لوگ مقامی حکومت میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ جس بنا پر میں نے اس میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کردی۔‘

’اس طرح میرا اپنے قصبے اور نیو جرسی میں رابطے بڑھتے چلے گئے تھے۔‘

پہلے الیکشن میں شکست اور پھر میئر منتخب

وہ بتاتی ہیں کہ ’ڈیموکریٹس کے ساتھ میں کام کررہی تھی اس کے علاوہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کرتی تھی۔ میں ایک بھرپور زندگی گزار رہی تھی۔

’سال 2016 میں جب مقامی حکومت کے انتخابات ہوئے تو رپبلکن امیدوار بلا مقابلہ جیت گیا۔ اس پر مجھے ڈیموکریٹس کی جانب سے کہا گیا کہ انتخابات میں حصہ لوں۔

’قدرے تاخیر سے میں نے انتخابی مہم شروع کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں انتخابی مہم جس طرح چلانا چاہتی تھی، وہ نہیں چلا سکی (اور) معمولی مارجن سے شکست ہوئی۔ اس شکست نے میرا حوصلہ مزید بڑھا دیا۔

’مجھے تجربہ بھی حاصل ہوگیا اور پھر جب اگلے سال دوبارہ انتخابات ہوئے تو میں نے اس میں واضح فرق سے کامیابی حاصل کی۔

’نیو جرسی میں کوئی مسجد نہیں ہے۔ میرے اندازے کے مطابق صرف پانچ فیصد مسلمان ہوں گے۔ تیس فیصد تارکین وطن اور ان کی اولادیں جبکہ 65 فیصد مقامی شہری ہیں۔ مجھے مقامی شہرویوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دیے جس بنا پر میں منتخب ہو پا رہی ہوں۔‘

میئر کا حلف اٹھاتے ہوئے اپنے خاونداور بیٹی کے ہمراہ

میئر کا حلف اٹھاتے ہوئے اپنے خاونداور بیٹی کے ہمراہ

’شروع میں انتہائی نفرت انگیز رویے کا سامنا رہا۔ کوئی مجھے کہتا کہ یہاں سے ’دفع ہوجاؤ‘، کوئی مجھے ’مار دینے کی دھمکی‘ دیتا۔ مگر میں بات کرنا، اپنی بات کو سمجھانا اور جرات سے کھڑا ہونا جانتی ہوں۔ اس وجہ سے لوگوں کی بڑی اکثریت نے میرا ساتھ دیا۔

’میں نے لوگوں سے قریبی رابطہ رکھا، ان کے مسائل حل کیے۔ جس کی بدولت سال 2019 میں مقامی حکومت کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہوئی، تو انھوں نے مجھے میئر شپ کے لیے منتخب کیا۔‘

’پہلے تو میں یہ نہیں جانتی تھی کہ میں امریکہ میں پہلی مسلمان خاتون اور جنوبی ایشیا سے نیو جرسی میں پہلی میئر ہوں۔ جب میں نے حلف اٹھایا اور پوری دنیا بالخصوص کراچی، پاکستان اور گجرات اور انڈیا سے مجھے میرے رشتہ داروں کے مبارک باد کے پیغامات موصول ہونا شروع ہوگئے۔ امریکی اور بین الاقوامی میڈیا میں خبریں نشر ہوئیں اور وہ میرے انٹرویو کرنا چاہتے تھے۔‘

’مجھے اندازہ ہوا کہ واقعی کوئی بڑا کام ہوگیا۔ جس کی مجھے بہت خوشی ہوئی۔ مگر میئر کی ذمہ داری بہت بھاری اور مشکل بھی تھی۔‘

میئر کی کرسی کانٹوں سے بھری

ڈاکٹر صدف بتاتی ہیں کہ ’میئر بننے کے بعد بھی مجھے نفرت انگیز رویے کا سامنا رہا۔ نیو جرسی میں میرے مخالفین نے مجھے مختلف قسم کے القاب دینا شروع کردیے۔ یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ یہ تو اپنے خاوند کی کٹھ پتلی ہے۔ یہ کیا ہمارے مسائل حل کرے گئی۔

’میئر بننے کے بعد ایک یونیورسٹی میں میرا آن لائن لیکچر تھا۔ جس میں سینکڑوں طالب علم موجود تھے۔ جب مجھے بلایا گیا تو کچھ لوگوں نے مجھے گالیاں دینا شروع کردیں۔

’کئی منٹ تک وہ گالیاں دیتے رہے تھے۔ مگر پھر ان کا آن لائن رابطہ منقطع کیا گیا۔ دوبارہ لیکچر شروع ہوا اور میں نے پورے اعتماد سے اپنا لیکچر دے کر طلبہ کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔

’اس لیکچرز میں سوال جواب کے سیشن کے دوران اور بعد میں کئی لوگوں نے مجھے میرے لیکچر پر نہ صرف شاباش دی بلکہ میری ہمت کو بھی سراہا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’اسی طرح میں نیو جرسی کی انتظامیہ کے ساتھ بہت قریبی رابطے میں رہتی ہوں۔۔۔ امن و امان کو بہت بہتر کردیا ہے۔ لوگوں کو بہتر خدمات مل رہی ہیں۔ ‘

’میں تین کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے ایک عظیم الشان لائبریری اور کمیونٹی سنٹر تعمیر کر رہی ہوں۔ اسے ماحول دوست طریقے سے تعمیر کیا جائے گا۔ لائبریری کے قیام سے طلبہ اور عام لوگوں کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔‘

ڈاکٹر صدف کے مطابق کووڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران ’نیو جرسی میں انفیکشن کی شرح پورے امریکہ سے کم رہی، اس کی وجہ میرے اور میرے ساتھیوں کے بروقت فیصلے تھے۔ ہم نے شعبہ طبّ کے ساتھ موثر رابطہ پیدا کر کے ان کی مشاورت سے بروقت فیصلے کیے۔

’شروع میں تو سخت فیصلوں کی وجہ سے تنقید ہوئی۔ مگر اب جب لوگوں کو محسوس ہورہا ہے کہ میرے فیصلے ان کے حق میں بہتر ثابت ہوئے تو سراہا بھی گیا۔‘

کراچی دل کے بہت قریب

ڈاکٹر صدف بتاتی ہیں کہ ’میرا اور میری بیٹی کا مستقبل امریکہ ہی میں ہے۔ امریکہ ہی میرا وطن ہے۔

’مگر کراچی میری والدہ کا شہر ہے۔ کراچی میں میری ایک خالہ اور کزن رہتے ہیں۔ گذشتہ دس سالوں سے میں اپنے والدین کے ہمراہ ہر سال کراچی کا دورہ کرتی ہوں۔

’اس دوران ہم خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ مختلف ریستورانوں میں جاتے ہیں۔ سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ میں پاکستان کی خبروں پر خصوصی نظر رکھتی ہوں۔

’پاکستان میں عورت فاونڈیشن جیسی تنظمیں خواتین کی بہتری کے لیے بہت کام کر رہی ہیں۔ عورت مارچ کی خبروں کو ہر سال مانیٹر کررہی ہوتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اگر کبھی موقع ملا تو میں پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا (اور) پورے جنوبی ایشیا اور وہاں کی خواتین کے لیے ضرور بہتری کا کوئی کام کرنا چاہوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp