خادم رضوی کی وفات کے بعد تحریک لبیک کا مستبقل کیا ہوگا؟


خادم رضوی
تحریک لبیک پاکستان کے حال ہی میں وفات پا جانے والے رہنما علامہ خادم حسین رضوی کی کم و بیش چار سالہ سیاسی زندگی نے ریاست پاکستان پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں کہ اب ان کی وفات کے بعد یہ سوال فطری طور پر جنم لے رہا ہے کہ ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہوگا؟

کیا یہ جماعت ایسے ہی پاکستان بھر میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص شدت پسندانہ رجحان والے مذہبی نظریات کو فروغ دے کر ملکی معاشرت و سیاست پر اثرانداز ہوگی یا پھر ماضی کی ان مذہبی سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہو گی جو اپنے قائدین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد ماضی کا قصہ بن کر رہ گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی وفات پا گئے

تحریک لبیک پاکستان کے بانی خادم حسین رضوی کون تھے؟

’یہ فلم ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں، آگے بھی دیکھتے رہیں گے‘

تحریک لبیک سے معاہدہ: کسی غیر ملکی سفیر کو کن وجوہات پر بے دخل کیا جا سکتا ہے؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ علامہ خادم رضوی نے ملک کے اکثریتی سنی العقیدے بریلوی مکتبہ فکر کی سیاسی بیداری، سٹریٹ پاور اور ووٹ بینک کو نئی طاقت اور سمت دی۔ یہ بات بھی اب واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ دنیا میں مسلح تحریکوں کے خلاف حالیہ چند سالوں میں پیدا ہونے والے واضح اور ایک حد تک اجتماعی مؤقف کے بعد ریاست پاکستان اور اس کے خفیہ ادارے شدت پسند دیوبندی عقیدے کی حامل جہادی یا دہشتگرد تنظیموں سے قدرے پرے نظر آرہے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے اس خلا کو، بعض مبصرین کے ماطابق سنی بریلوی عقیدے کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے بہت تیزی سے پر کیا تھا۔

شدت پسندی کے بارے میں مختلف کتابوں کے مصنف اور پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا کا کہنا ہےکہ ’سنی العقیدہ بریلوی جماعتوں کا فروغ پانا کوئی انہونی نہیں تھی بلکہ مختلف عوامل اس کا پتہ دے رہے تھے۔ سنی العقیدہ جماعتوں بالخصوص تحریک لبیک پاکستان نے اس خلا کو پر کیا ہے جو ریاست نے دوسری تنظیموں سے دوری اختیار کرکے پیدا کیا تھا۔‘ عامر رانا کے خیال میں قیادت میں تبدیلی کے باوجود تحریک لبیک اور اس جیسی جماعتیں مستقبل میں بھی پھلتی پھّولتی رہیں گی۔

تحریک لبیک پاکستان کا سیاسی سفر کم و بیش چار سال پر محیط ہے۔ اس دوران یہ جماعت عملی طور پر پاکستان کی اکثر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کی طرح اپنے سربراہ یعنی علامہ خادم رضوی کے گرد ہی گھومتی رہی۔

خادم رضوی

خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی پارٹی کا مستقبل ان کی پارٹی قیادت کی جانشینی کے سوال سے جڑا ہوا ہے۔ تحریک لبیک کے بعض حلقوں میں یہ توقع کی جارہی ہے کہ اس جماعت کی سربراہی علامہ خادم رضوی کے بیٹے حافظ سعد رضوی کے سپرد کردی جائے گی کیونکہ خادم رضوی اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کررہے تھے۔ سعد رضوی کو پارٹی کا نیا سربراہ بنانے کے لیے دی جانے والی دلیل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تحریک کو علامہ خادم رضوی کی اچانک وفات کے بعد پیدا ہونے والے قیادت کے بحران سے بچانے کے لیے کارکنوں کے اندر بیٹے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

خادم رضوی کا فیض آباد میں نومبر 2020 کے وسط میں آخری دھرنا اس اعتبار سے بھی اہم تھا کہ اس دھرنے سے قبل نکالی گئی ریلی کی عملی قیادت رضوی نے اپنے بیٹے سعد رضوی سے ہی کروائی تھی۔

دوسری طرف اس جماعت کے بانیوں میں شامل پیر افضل قادری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گو کہ وہ اس جماعت کاحصہ نہیں اورعلامہ خادم رضوی کی وفات پر رنجیدہ بھی ہیں۔ تاہم ان کے مطابق خادم رضوی یہ کہتے رہے تھے کہ وہ تحریک کو کبھی موروثی جماعت نہیں بنائیں گے جماعت کے سربراہ کا تعین میرٹ پرہی ہوگا۔

ایسا نہیں ہے کہ تحریک لبیک میں شامل دیگر افراد اس کی قیادت کے لیے خواہشمند نہیں یا ان کا نام قیادت کے لیے نہیں لیا جارہا ہے۔ بعض رہنماوں کا خیال ہے کہ جماعت کی مرکزی شوری میں موجود تحریک کے وسطی پنجاب کے امیر فاروق الحسن خادم رضوی کے جانشین بننے کے اہل ہیں کیونکہ وہ خادم رضوی کی طرح بلا کے مقرر اور دیگر انتظامی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔

اسی طرح بعض عہدیداروں کا خیال ہے کہ تحریک لبیک جنوبی پنجاب کے امیر عنایت الحق شاہ بھی اس عہدے کے لیے موزوں ہیں کیونکہ ان کے ملکی اسٹیبلشمنٹ سے قریبی مراسم بتائے جاتے ہیں۔ جماعت کی سربراہی کے لیے خیبر پختونخواہ سے اسی جماعت کے رہنما شفیق امینی کا نام بھی لیا جارہا ہے تاہم ان کی سربراہی کا امکان اس لیے بھی کم ہے کہ اس جماعت کا مرکز پنجاب ہے عام خیال یہی ہے کہ پنجاب سے ہی امیر منتخب کیا جائے گا۔

خادم رضوی

ایک پہلو ملک میں سنی العقیدہ سیاسی جماعتوں کے دوبارہ قومی منظر نامے پر رونما ہونا بھی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان تحفظ ناموس کے نام پر سیاست تو کررہی تھی اور سندھ اسمبلی میں اس کے دو براہ راست طور پر منتخب اور ایک مخصوص نشست پر اراکین صوبائی اسمبلی بھی موجود تھے جو نہ تو حکومت کا حصہ تھے اور نہ اپوزیشن کے کسی اتحاد کا حصہ۔

اس وقت دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شاہ اویس نورانی کی سربراہی میں سنی العقیدہ بریلوی مسلک کی جمعیت العلمائے پاکستان اپنے مکتب کی نمائندگی کررہی ہے۔ اگر تحریک لبیک پاکستان علامہ خادم رضوی کی وفات کے بعد کوئی متحرک متبادل قیادت نہ دے پائی تو بعض سیاسی مبصرین کے مطابق قومی سیاسی منظر نامے پر جمعیت العلمائے پاکستان کے ان کی جگہ لینے کا بھی قوی امکان ہے۔

عملی طور پر علامہ خادم رضوی کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو اس نازک وقت میں صرف بڑی سیاسی جماعت جمعیت العلمائے پاکستان سے ہی نہیں بلکہ سنی العقیدہ دیگر جماعتوں سے بھی خطرہ ہے۔ جن میں سب سے اہم ڈاکٹر آصف جلالی کی جماعت تحریک لبیک ہے جسکا مرکز بھی لاہور اور گرد ونواح کے علاقے ہیں۔ یہ ڈاکٹر آصف جلالی وہی ہیں جو کسی زمانے میں علامہ خادم رضوی کے ہمراہ تحریک لبیک پاکستان کے قائدین میں شامل تھے۔ مگر بعض تنظیمی امور پر اختلافات کے باعث دونوں کی راہیں جدا ہو گئیں۔

علامہ خادم رضوی کی جماعت کے پیروکارخطاب کے دوران مرحوم کی سخت اور بعض اوقات قابل اعتراض زبان کے بھی دلدادہ تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے پیروکاروں میں معاشرے کے متوسط طبقات اس جماعت کی طرف راغب ہوئے۔

علامہ خادم رضوی کی وفات کے بعد اب نظریں ان کی جماعت کے نئے قائد پر مرکوز ہوں گی۔ اگرجماعت کی نئی قیادت کا فیصلہ میرٹ پر نہ ہوا بلکہ جماعت قیادت کے مسئلے پر اندرونی اختلافات کا شکار ہوئی تو بعض سیاسی مبصرین کے مطابق اس جماعت کے لیے اپنے سابق رہنما خادم رضوی کی طرح اپنے حامیوں کو ایک پلیٹ پر جمع اور متحرک کرنا ممکن نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp