جی 20: سعودی عرب کے معاملے میں انسانی حقوق کے مسائل کو بھلایا نہیں جا سکتا


مظاہرے
سعودی عرب پر انسانی حقوق کے سلسلے میں ہمیشہ تنقید ہوتی رہی ہے
سعودی عرب رواں ہفتے کے آخر میں دنیا کی 20 سب سے بڑی معیشتوں کے گروپ جی 20 کی میزبانی کر رہا ہے، اگرچہ کورونا کے باعث یہ میزبانی ورچوئل (بذریعہ انٹرنیٹ) ہے لیکن یہ ان کے لیے بڑے قومی فخر کی بات ہے۔

جبکہ دوسری جانب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے یہ سخت عدم اطمینان کا سبب ہے۔

بائیکاٹ کی کالوں کے بعد اب جی 20 کے رہنماؤں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اس موقعے کا استعمال سعودی عرب کے حکام پر دباؤ ڈالنے کے لیے کریں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو متعدد قسم کے خدشات لاحق ہیں۔ یہاں تین اہم خدشات کو پیش کیا جا رہا ہے۔

خواتین کارکنوں کے لیے قیدو بند

لجين الهذلول خواتین کے لیے آواز بلند کرنے والے گروپ کی نمایاں شخصیت رہی ہیں جنھیں سنہ 2018 میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق انھیں گرفتار کرنے کے بعد مارا پیٹا گیا، بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور ریپ کی دھمکی دی گئی۔

31 سالہ لجین سعودی عرب میں رائج مردانہ سرپرستی کے نظام کی سرگرم مخالفت کرنے والوں میں شامل رہی ہیں اور انھوں نے خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کے حق کے لیے مہم چلائی جس کے نتیجے میں ان کی گرفتاری کے بعد سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کا حق دیا گیا۔

سعودی عرب نے ان پر تشدد کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کا جی 20 کی صدارت کرنا پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے حق میں ہے اور وہ ‘اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

انسانی حقوق کے معروف سعودی کارکن عبداللہ الحامد کی ’جیل میں موت‘

سعودی عرب: حقوق انسانی کی سات خاتون کارکنان گرفتار

لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کون ہیں؟

خیال رہے کہ ٹائم میگزن نے لجین الھذول کو عرب کی طاقتور ترین خواتین میں شمار کیا ہے لیکن وہ بھوک ہڑتال کی وجہ سے کمزور ہوچکی ہیں۔ انھوں نے گذشتہ ماہ سے بھوک ہڑتال کر رکھی ہے تاکہ باقاعدگی کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو ان سے ملنے دیا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں ان کی جانب سے ملازمت کے لیے دی جانے والی درخواست کو ان کی گرفتاری کے لیے شواہد کے طور پر استعمال کیا گيا ہے۔

انسانی حقوق کی برطانوی وکیل بیرونیس ہیلینا کینیڈی نے حال ہی میں خواتین کارکنوں کی نظربندی کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں لجین الھذول بھی شامل ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ قیدیوں کو ‘خراب حالات میں قید رکھا جاتا ہے جہاں وہ تناؤ کا شکار رہتی ہیں اور انھیں ناروا جنسی سلوک اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔’

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کو رواں ہفتے خط لکھا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں کی رہائی کے مطالبے کے لیے جی 20 کے پلیٹ فارم کا استعمال کریں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی برطانیہ کی ڈائریکٹر کیٹ ایلن کا کہنا ہے کہ ‘وزیر اعظم کو سعودیوں کے جھوٹ کو پکڑنا چاہیے کہ آپ تو کہتے ہیں کہ آپ خواتین کے حقوق کی پاسداری کے پابند ہیں تو پھر اس کا مظاہرہ کریں اور ان خواتین کو رہا کریں۔’

برطانوی حکومت کے ترجمان نے جواب دیا کہ ‘ہم سعودی حکام کے ساتھ انسانی حقوق کے کارکنانکی نظربندی پر مسلسل اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں اور جی 20 میں یہ معاملات بھی شامل ہیں۔

لجین الھذول

لجین الھذول انسانی حقوق کی کارکن ہیں اور سعودی عرب میں حراست میں ہیں

ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ’اپنے شراکت داروں کے ساتھ ملک کر ہم نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سیاسی طور پر نظربند تمام قیدیوں کو رہا کرے۔‘

لیکن سعودیوں کا کہنا ہے کہ وہ بیرونی دنیا کو اپنی عدالتوں کے متعلق فیصلے صادر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے بی بی سی کو بتایا: ’ہماری عدلیہ آزاد ہے۔‘

’ہم نہیں چاہتے کہ لوگ ہمیں لیکچر دیں یا ہمیں حکم دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہم برطانیہ یا امریکہ میں یا کسی دوسری جگہ کے لوگوں کو یہ نہیں کہتے کہ انھیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔‘

ایک بہیمانہ قتل

استنبول میں سنہ 2018 میں سعودی قونصل خانے میں ایک صحافی کے قتل نے پوری دنیا میں صدمے کی لہر پیدا کر دی تھی۔ وہ ایک مختصر دورانیہ کا سفارتی بحران تھا۔

صحافی جمال خاشقجی کو سعودی سکواڈ نے گلا دبا کر مار ڈالا پھر ان کے جسم کے ٹکڑے کر ڈالے۔ اس قتل پر چلنے والے مقدمے کے بعد آٹھ افراد کو سزا سنائی گئی لیکن اس کے ماسٹر مائنڈ کو ذمہ دار نہ ٹھہرائے جانے پر دنیا بھر میں سعودی عرب کی مذمت ہوئی۔ بہرحال سعودی عرب کے حقیقی رہنما محمد بن سلمان کے قریبی مشیر سعود القحطانی کو چھوڑ دیا گیا۔

اہل خانہ کے مطابق لجین الھذول کو ٹارچر کیے جانے کے وقت وہی مشیر وہاں موجود تھا۔ لحین الھذول نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ مسٹر القحطانی نے انھیں ریپ اور جان سے مار کر ان کی لاش کو نالے میں بہا دینے کی دھمکی دی تھی۔

ہیومن رائٹس واچ نے سعودی حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی زیادتیوں پر ‘پردے’ ڈال رہی ہے۔

اس گروپ کا کہنا ہے کہ ‘اکتوبر سنہ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کے سعودی ایجنٹوں کے ہاتھوں وحشیانہ قتل کے دو سال بعد، اس قتل میں ملوث اعلی سطحی عہدیداروں پر کوئی جوابدہی عائد نہیں کی گئی۔

’اس کے بعد سے سعودی عرب نے تفریحی، ثقافتی اور کھیلوں کے بڑے پروگراموں کی میزبانی میں اربوں ڈالر خرچ کر کے اپنی انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے ملک کی شبیہہ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی دانستہ حکمت عملی کو اپنایا ہوا ہے۔‘

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیزی

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیزی

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ اور خاشقجی قتل کی تحقیقات کرنے والے ایگنس کالامارڈ نے جی 20 ممالک سے اخلاقی موقف اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

’کسی بھی ملک کو احتساب سے بچنے کا راستہ خریدنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔‘

مسٹر خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے بی بی سی کو بتایا کہ جی 20 ممالک جس طرح سعودی عرب کے ساتھ معمول کے مطابق کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ان کے لیے ناقابل قبول ہے۔

انھوں نے کہا: ‘انھیں کچھ کرنا چاہیے۔ مجھے انصاف چاہیے۔ اور صرف میرے لیے نہیں۔ میں ان خواتین کے لیے بھی انصاف چاہتی ہوں جو جیل میں ہیں، اور میں چاہتی ہوں کہ انھیں رہا کیا جائے۔’

برطانیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے ‘سنگین جرائم’ کے متعلق انصاف کا بار بار مطالبہ کیا ہے۔ اور سعود القحطانی ان 20 سعودیوں میں سے ایک ہیں جنھیں برطانیہ کی جانب سے پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

سعود القحطانی پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک سینیئر عہدیدار کی حیثیت سے 15 رکنی ٹیم کے ذریعے قتل کی منصوبہ بندی کی اور اس حوالے سے ہدایات دیں، لہذا اس الزام میں حکومتِ برطانیہ نے ان پر سفری پابندی کے علاوہ ان کے اثاثے بھی منجمد کر رکھے ہیں۔

نہ ختم ہونے والی جنگ

یمن میں سعودی عرب اور حوثی باغیوں کے درمیان جاری پانچ سالہ طویل جنگ کو اقوام متحدہ نے دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔ اور دونوں فریقوں پر ممکنہ جنگی جرائم کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

یمن کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کی حمایت میں سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد کے فضائی حملوں میں، شہریوں کی ہلاکت کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

ستمبر میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے بازاروں اور کھیتوں پر فضائی حملوں کے نتیجے میں ‘مستقل طور پر شہری ہلاکتوں میں اضافے’ کی اطلاع دی۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتا۔

ہیومن رائٹس واچ کی خواہش ہے کہ جی 20 ممالک سعودی عرب پر زور دیں کہ وہ اقوام متحدہ کی ٹیم کو یمن تک رسائی کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کے ریاض میں مرکزی دفتر جانے کی اجازت دے۔

اور بہت سے دوسرے امدادی اداروں اور انسانی حقوق کے گروپس نے جی 20 کے میزبان سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یمن میں ‘سیو دی چلڈرن’ تنظیم کے ڈائریکٹر زیویر جوربرٹ نے کہا: ‘جس وقت سعودی عرب کی سربراہی میں جی 20 سربراہی اجلاس میں عالمی رہنما مل رہے ہیں، اس وقت یمنی بچے گھروں میں خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ یمن میں جاری جنگ ان کے شہروں میں ہلاکتوں کا سبب ہے۔۔ ان کے بھائی بہن اور پیارے مسلسل مر رہے ہیں۔’

انھوں نے جی 20 ممالک سے اپیل کی کہ وہ اب سعودی عرب کو اسلحہ فروخت نہ کریں اور معاہدوں کو منسوخ کر دیں۔

آکسفم کے مطابق جب سے سعودی عرب جنگ میں شامل ہوا ہے جی 20 ممالک نے سعودیوں کو اجتماعی طور جتنا اسلحہ فروخت کیا ہے، وہ اس رقم سے تین گنا زیادہ ہے جو انھوں نے امداد میں دی ہے۔

جوبرٹ کہتے ہیں: ‘اسلحے کی فروخت اس تباہ کن جنگ کو بڑھا رہی ہے جو یمن میں بچوں کو مارنے اور معذور کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ گذشتہ سہ ماہی کے مقابلہ میں جون کے بعد سے ہوائی حملوں کے نتیجے میں بچوں کی ہلاکتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔’

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے رواں ہفتے جرمنی کی جانب سے اپنے ملک کو اسلحہ کی برآمدگی پر پابندی عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں جاری جنگ ‘جائز’ ہے۔

انھوں نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا: ’ہم متعدد ممالک سے اسلحہ خرید سکتے ہیں اور ہم ایسا کریں گے۔‘

’یہ کہنا کہ ہم سعودی عرب کو اسلحہ نہیں بیچیں گے اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp