پاکستان پر یو اے ای کی ویزہ پابندی، فیصلہ انتظامی ہے یا سیاسی؟


متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان سمیت کئی ممالک کے شہریوں پر سیاحتی ویزہ اور ورک پرمٹ کے اجرا پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اسلام آباد میں یو اے ای کے سفارت خانے کے مطابق یہ پابندی غیر معینہ مدت کے لیے ہے. جو کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے پیش نظر لگائی گئی ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی پاکستان سمیت 12 ممالک کے لیے نئے وزٹ ویزوں کے اجرا کی عارضی طور پر معطلی کے بارے میں علم ہوا ہے۔

ان کے بقول اس معطلی کا اطلاق پہلے سے جاری شدہ ویزوں پر عائد نہیں ہو گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ اقدام کرونا کی دوسری لہر سے متعلق ہو سکتا ہے۔ وہ اس بارے میں اماراتی حکام سے تصدیق کر رہے ہیں۔

ویزہ پالیسی میں تبدیلیوں کی وجہ اگرچہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے پیش نظر بتائی جا رہی ہیں۔ تاہم سفارتی و سیاسی مبصرین اسے عمل کو اسلام آباد اور یو اے ای کے درمیان تعلقات میں سرد مہری سے تعبیر کر رہے ہیں۔

اگر پابندی کی فہرست والے ایک درجن ممالک کو دیکھا جائے تو ان میں بعض چھوٹے ممالک کے ساتھ وہ مسلم ممالک بھی شامل ہیں جو کہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے حوالے سے سعودی عرب اور امارات کے کردار کے ناقد رہے ہیں۔

اخبارات میں شائع فہرست کے مطابق جن ممالک پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں افغانستان، عراق، شام، لبنان، لیبیا، کینیا، ایران، ترکی، یمن، تنزانیہ، صومالیہ اور پاکستان شامل ہیں۔

جن ممالک پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان کی فہرست میں بھارت شامل نہیں ہے۔ جو کہ 90 لاکھ مریضوں کے ساتھ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ مغربی ممالک کی آن ارائیول (موقع پر ویزہ) اجرا کی سہولت بھی برقرار ہے۔

ابراہم اکارڈز: نئے دور کا آغاز یا بدلتے زمینی حقائق؟

‘یو اے ای عالمی سیاست میں پاکستان کی مکمل حمایت چاہتا ہے’

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کی خلیجی ریاستوں سے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں ہے ۔ جو کہ 2018 میں وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے قیام کے وقت دیکھنے میں آئی تھی۔

دو طرفہ تعلقات میں تناؤ اس وقت پیدا ہوا جب وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ سال ملائیشیا میں ہونے والی ‘کوالالمپور اسلامک سمٹ’ میں شرکت کی حامی بھری۔ تاہم سعودی عرب کے براہِ راست تحفظات کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے تھے۔

وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے کردار پر تحفظات کا اظہار کیا تو پہلے سے سرد مہری کے شکار تعلقات میں مزید تناؤ دکھائی دینے لگا۔

خیال رہے کہ یو اے ای کو سعودی عرب کے اہم اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور امارات کے کسی سفارتی اقدام کو ریاض کی ناراضگی یا حمایت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں سست روی آئی ہے اور اس کے باعث اگر پاکستانی ورکرز کو خلیجی ممالک میں کچھ مشکلات درپیش آتی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ باہمی تعلقات میں تناؤ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جلیل عباس کا کہنا تھا کہ یو اے ای کی ویزہ پابندیوں کا اخبارات کی حد تک علم ہے تاہم دونوں ممالک کے تعلقات بہت گہری نوعیت کے ہیں۔

جلیل عباس جیلانی کہتے ہیں کہ پاکستان کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اہم ہے جو کہ سیاسی و دفاعی معاہدوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر مشترکہ سفارت کاری کی حد تک ہیں۔

تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب کی طرح عالمی سیاست یا خلیج میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان چوں کہ ان کی پالیسیوں میں مکمل طور پر ساتھ نہیں چل رہا اس وجہ سے تنبیہ کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر پابندیوں کے ممالک کی فہرست کو دیکھا جائے تو زیادہ تر وہ ممالک شامل ہیں جو امارات کے خلیج میں سیاسی کردار میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہیں یا اس کی پالیسی کے حامی نہیں ہیں۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب اور امارات کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام آباد نے قطر سے اپنے تعلقات کو بہتر کیا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے امور پر وزیرِ اعظم پاکستان کے معاون خصوصی علامہ طاہر محمود اشرفی کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث ویزہ پابندی کو یو اے ای کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کے طور پر پیش کرنا بھارتی بیانیہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں پر ویزہ پابندی امارات کا سیاسی فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسائل کرونا وائرس کے باعث پیدا ہوئے ہیں جنہیں وزارت خارجہ کی سطح پر بات چیت سے حل کیا جارہا ہے۔

'پاکستان کے بھی اسرائیل سے بالواسطہ تعلقات رہے ہیں'

وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات حالیہ برسوں میں سب سے بہترین ہیں جس کی مثال یو اے ای کے ولی عہد محمد بن زید کا گزشتہ سال دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کرنا ہے۔

‘عرب اتحادیوں کی ناراضگی مالی مشکلات میں اضافہ کا سبب’

واضح رہے کہ سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو 6 ارب 20 کروڑ ڈالرز کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں 3 ارب ڈالرز کی نقد امداد اور 3 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی مؤخر ادائیگیاں شامل تھیں۔

یہ معاہدہ تین سال تک قابلِ توسیع تھا۔ تاہم اگست میں سعودی عرب نے فراہم کردہ تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کی واپسی کا تقاضہ کیا تھا جو کہ پاکستان نے چین سے حاصل کر کے ادا کیے تھے۔

سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدہ بھی معطل ہے اور گزشتہ مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی۔

ستمبر میں وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی عرب سے ادھار پر تیل حاصل کرنے کے معاہدے کی بحالی پر بات چیت جاری ہے۔ حکومت پرامید ہے کہ نظرِ ثانی شدہ معاہدے کے ساتھ برادرِ اسلامی ملک سے تیل کی دوبارہ ترسیل کا جلد آغاز ہو جائے گا۔

معاشی مشکلات کے شکار پاکستان کو آئندہ ماہ تک سعودی عرب کو بقیہ دو ارب ڈالرز کی قرض ادائیگی کرنا ہے۔ جب کہ آئندہ سال کے آغاز پر متحدہ عرب امارات کو بھی دو ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے مشرق وسطیٰ طاہر محمود اشرفی کہتے ہیں کہ پاکستان کو سعودی عرب کو دسمبر میں دو ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنی ہے جس پر دوست ملک کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa