کیا بڑا جنازہ حق پر ہونے کی دلیل ہے؟


علامہ خادم رضوی چند دن بخار میں مبتلا رہنے کے بعد راہیٔ ملک عدم ہوئے۔ وہ بلا شبہ پاکستان کے ایک جید عالم، بریلوی مسلک کے روح رواں، شعلہ بیان خطیب، عشق رسول صلعم کے دعویدار، تحریک ختم نبوت کے سرخیل اور عوامی سطح پر ایک مقبول و معروف شخصیت تھے۔ انہوں نے پانچ مرتبہ اسلام آباد پر چڑھائی کی، جس طرح ظہیر الدین بابر ہندوستان پر پانچویں یورش کے بعد جان سے گزر گئے، ہمارے علامہ صاحب کا آخری دھرنا بھی ان کا سفر آخرت ثابت ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اپنے شعلہ بیان اور گرم جوش خطابات میں لاکھوں دلوں کو گرمایا۔ وہ اردو، فارسی، پنجابی اور عربی زبان پر دسترس رکھتے تھے۔ خاص طور پر پنجابی زبان میں ان کی روانی اور بیان و اسلوب پر گرفت بے مثال تھی۔ مرحوم پاکستان میں ان لوگوں کے آئیڈیل اور نمائندہ تھے جن کا یہ عقیدہ تھا کہ کسی عقیدے یا نظریے کا دفاع دلائل و براہین کے بجائے زور بازو اور طلاقت زبان سے ہی ممکن ہے۔

مرحوم نے مذہب، مسلک اور عقیدۂ ختم نبوت کے نام پر ایک خاص طرح کی شدت پسندی، نفرت انگیزی، تقسیم اور انتہا پرستی کوفروغ دیا۔ وہ اپنے تئیں اس دور کے سب سے بڑے عاشق رسول صلعم تھے اور اس عشق کے اظہار کے لیے مخالفین کو سر عام طعن و تشنیع اور بے نقط سنانے پر بھی یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے عاصمہ جہانگیر کی موت پر جو زبان استعمال کی تھی اس سے کون واقف نہیں۔ ایسے ہی کلمات انہوں نے عبدالستار ایدھی کے متعلق بھی ادا کیے تھے۔

سابق چیف جسٹس اور موجودہ وزیراعظم بھی ان کی ”قادرالکلامی“ اور ”شیریں بیانی“ کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ مرحوم کا وہ بیان جو انہوں نے وفات سے کچھ روز قبل اپنے مخالف مسلک کی اذان سن کر دیا تھا، وائرل ہو گیا تھا۔ ان کا سیاسی کردار بھی اہم تھا اور 2018 کے الیکشن میں ان کی پارٹی نے لاکھوں ووٹ لے کر ملک کی پانچویں پڑی پارٹی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

ان کا جنازہ بلا شبہ پاکستان کی تاریخ کے چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا بلکہ کچھ لوگ اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ قرار دے رہے ہیں۔ ا ن کے جنازے میں لاکھوں لوگ تھے۔ ان کا جنازہ دیکھ کر ہمیں ممتاز قادری کا جنازہ یاد آ گیا۔ جرمنی میں حرمت رسول پر قربان ہونے والے عامر چیمہ کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا۔ کہتے ہیں کہ لاہور میں غازی علم الدین کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا۔ ایسے عظیم الشان جنازے ہم برصغیرپاک و ہند کے مسلمانوں کے کس ذہنی رجحان اور سماجی و معاشرتی میلان کے مظہر ہیں، اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔

خادم رضوی مرحوم کے اس عظیم الشان جنازے کے حوالے سے امام احمد بن حنبل کے قول کو دہرایا جا رہا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہمارے درمیان حق و باطل کا فیصلہ کریں گے۔ یہ بیان امام نے اس وقت مخصوص حالات و واقعات کے تناظر میں دیا تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بڑا یا چھوٹا جنازہ حق و باطل کا معیار ہر گز طے نہیں کرتا ورنہ اسلامی سال کے آخری مہینے میں مدینہ منورہ میں ایک ایسے عظیم انسان کا خون ہوا جسے نبی اکرم صلعم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں نکاح میں دی تھیں۔ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے تھے اور جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھا۔ جسے دنیا جامع القرآن، پیکر سخاوت، حافظ القرآن، ناشر قرآن، شہید قرآن، امیر الموٴمنین، خلیفۂ سوم، داماد پیغمبر، مظلوم مدینہ، مجسمۂ حیا اور ہم زلف حیدر کے القابات سے یاد کرتی ہے۔ اس پیکر عزم و شجاعت کو چالیس دن بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کیا گیا۔ ان کا جنازہ تین دن تک نہیں پڑھنے دیا گیا۔ اور جب اجازت ملی تو تین آدمیوں اور بعض روایات کے مطابق تیرہ آدمیوں کے سوا کسی کو شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ کیا حضرت عثمان (رض) حق پر نہیں تھے (نعوذ باللہ) ؟

یہی نہیں 61 ہجری 10 محرم کو نواسۂ رسول صلعم کو کربلا میں جس ظالمانہ طریقے سے شہید کیا گیا ان کا جنازہ کتنے لوگوں نے پڑھا تھا؟ فاتح سندھ محمد بن قاسم کے جنازے کے ساتھ کتنے لوگ تھے؟ مثالیں اور بھی بہت سی ہیں مگر طوالت کے ڈر سے تفصیل سے گریز کیا جا رہا ہے۔

مولانا خادم رضوی کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ ہر شخص ان کی بخشش اور درجات کی بلندی کے لیے دعا گو بھی ہے مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ بڑا جنازہ حق و باطل کا معیار طے کرنے کا واحد پیمانہ نہیں ہے۔ مرنے کے بعد ہر شخص دعائے مغفرت کا محتاج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).