کیا آپ افسانے کی جوان بیٹی افسانچہ کے حسن و جمال سے مسحور ہیں؟


آج سے چند سال نہیں چند دہائیاں پیشتر میں نے خلیل جبران کا دو جملوں کا مختصر ترین افسانچہ پڑھا تھا
ایک عورت دو مردوں کے درمیان بیٹھی تھی
اس کا ایک رخسار سرخ تھا دوسرا زرد
اور آج تک اس ایک عورت اور دو مردوں کے رشتے کی نفسیات کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔

افسانچے کا یہی کمال ہے۔ وہ غزل کے دو مصرعوں کی طرح قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور اس پر انسانی زندگی اور نفسیات کے راز اجاگر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔

میری ایک افسانہ نگار سہیلی نے جب مجھ سے پوچھا کہ ایک کامیاب افسانچے کے کیا اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں تو میری رگ ظرافت پھڑکی میں نے کہا

a little bit of religion
a little bit of sex
and
a little bit of suspense
پوچھنے لگی اس بنیاد پر مختصر ترین افسانچہ کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا
There was a nun.
She got pregnant.
God knows by whom.
اور اس کے چہرے پر شریر سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

پچھلے ہفتے مجھے برلن جرمنی سے سرور غزالی صاحب کا فون آیا کہ ان کی ادبی انجمن ایک شام افسانچہ کا اہتمام کر رہی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ اس محفل میں پیش ہونے والے افسانچوں کے بارے میں میں بھی اپنی رائے دوں۔ میں نے اس دعوت کو اپنا اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کر لیا۔ چنانچہ زوم کی ایک میٹنگ میں دس افسانہ نگاروں نے اپنے افسانچے پیش کیے۔ میں نے ان افسانچوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جو اس محفل میں پیش کیے گئے تھے۔ میں نے فن افسانہ نگاری کے حوالے سے

عنوان۔ ڈائلاگ۔ الفاظ کا چناؤ۔ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں اور عصر حاضر کی آزمائشوں کے حوالے سے بھی اپنے تاثرات پیش کیے۔ میں نے ان منتظمین کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے کرونا وبا کے دنوں میں ہم سب کو مل بیٹھنے اور ایک پرمغز ادبی مکالمے کا انتظام و اہتمام کیا۔ اب میں آپ کی خدمت میں دس افسانوں میں سے تین افسانچے پیش کرتا ہوں جو میں نے اس محفل میں سنے تا کہ آپ بھی افسانے کی جوان بیٹی افسانچے کے فنی حسن و جمال کے کمال سے محظوظ و مسحور ہو سکیں۔

کرن صدیقی کا افسانچہ۔ پرستار
آپ میری پسندیدہ اسٹار ہیں میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں
بہت شکریہ

میں آپ کو بتا نہیں سکتا آپ مجھے کتنی پسند ہیں۔ آپ میری آئیڈیل ہیں۔ جب مجھے اس تقریب کا علم ہوا میں نے ہر ممکن کوشش کر کے کارڈ حاصل کیا صرف اس لیے کہ اپنی آئیڈیل عورت کو قریب سے دیکھ سکوں۔

فاریہ کا پرستار نجانے کیا کیا کہتا گیا۔ فاریہ یہ سب سن کر دھیرے دھیرے مسکراتی رہی۔
بہت شکریہ

آپ شاید یقین نہ کریں لیکن میں اپنے بیوی کو آپ کی ہر فلم ضرور دکھاتا ہوں تا کہ وہ آپ کے ہر انداز کو کاپی کرے

وہ اس تقریب میں نہیں ہیں؟
فاریہ نے سرسری سے انداز میں سوال کر لیا

اس نے تو یہاں آنے کی بہت ضد کی تھی لیکن میں نے اسے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں شریف عورتوں کا کوئی کام نہیں۔

اس شخص کے لہجے میں بے پناہ حقارت تھی اور فاریہ کو لگا جیسے کسی نے اسے سر بازار عریاں کر دیا ہو۔

صدف آصف کا افسانچہ۔ پسند ناپسند

وہ بڑی منتوں کے بعد مصروف شوہر کو کھینچ کھانچ کر شاپنگ مال تک لے آئی مگر پہنچتے ہی اس نے واپسی کا شور مچا دیا

میری میٹنگ۔ ہے۔ جلدی کرو۔ یار
کیسا لگ رہا ہے لاکٹ؟ اس نے شو کیس پر سجے سرخ مخملی باکس پر انگلی رکھی
ہاں بہت۔ اچھا ہے۔ ایسا کرو۔ جلدی سے لے لو۔ اور پلیز اب نکلو یہاں سے۔
اس نے بغیر دیکھے سر ہلایا
اچھا کون سا خریدوں ہارٹ شیپڈ یا ڈائمنڈ جیسا؟ اس نے آزمایا
اسے بیوی میں دلچسپی نہیں رہی تو پھر اس کے دل میں پلتے جذبوں کی کیا اہمیت۔ منہ بنا کر کہا۔
کیوں ٹائم ضائع کر رہی ہو۔ یار۔ تم خود ہی پسند کر لو ناں۔
ایک بار تمہیں پسند کرنے کی غلطی کر چکی ہوں۔ اب اپنی پرکھ پر اعتبار نہیں رہا مجھے
شوہر کے چہرے کی اڑتی رنگت سے جیسے من میں ٹھنڈ ہو گئی
بارہ سال سے بے اعتنائی کی آگ میں جلتے اس دل کو ایک جملے نے بجھا دیا۔

جاوید نہال حشمی کا افسانچہ۔ ناموس

نصرت کو یقین نہیں تھا کہ اس کے والد فتح علی خان ’اس کی چھوٹی بہن شبانہ کی شادی کسی دیگر برادری کے لڑکے سے‘ جسے وہ بہت چاہتی تھی ’کرانے پر اتنی جلدی راضی ہو جائیں گے۔ ممکن ہے چالیس سال پرانا حادثہ رویے میں اس تبدیلی کا سبب ہو۔ اس کی ماں نے بتایا تھا کہ اس کی پھوپھی نے چوتھی منزل کی چھت سے کود کر صرف اس لیے جان دے دی تھی کہ اس کے والد اور دادا نے برادری سے باہر ان کی پسند کے لڑکے سے شادی کرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

اس نے جب ابو کی رضامندی کی بات اپنی ماں کو بتائی تو انہیں بھی اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔

امی میں نے انہیں بہت دیر تک قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ آخر میں نے پھوپھی والے واقعے کی یاد دلائی تو ان پر گویا سکتہ سا طاری ہو گیا اور انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں حامی بھر لی۔ ایک باپ کے لیے اس کی بیٹی کی ان سے زیادہ قیمتی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔

کھا میری قسم۔ اچانک انہوں نے بات کاٹتے ہوئے نصرت کا ہاتھ اپنے سر پر رکھ کر کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا۔ کہ تو شادی کے دن تک شبانہ کو بالکل تنہا نہیں چھوڑے گی۔ اس کے ساتھ سائے کی طرح رہے گی۔ اسے چھت پر اکیلا نہیں جانے دے گی۔

ماں کے چہرے پر دہشت کے سائے لہراتے دیکھ کر نصرت پریشان ہو گئی۔ اس نے ماں کے چہرے کو اپنی ہتھیلیوں کے درمیان لیتے ہوئے کہا

امی وہ حادثہ کب کا ماضی میں دفن ہو چکا ہے۔ اسے اس بار دہرایا نہیں جائے گا کیوں کہ ابو نے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ دوسرے شبانہ نے مجھے یقین دلایا تھا کہ اگر ابو راضی نہیں بھی ہوتے تو وہ پھوپھی کی طرح خود کشی ہرگز نہیں۔

تیری پھوپھی نے خود کشی نہیں کی تھی۔
وہ پوری قوت سے چیخیں۔ پھر یوں لگا گویا ان کی قوت گویائی سلب ہو گئی ہے
نصرت پھٹی پھٹی آنکھوں سے ماں کو تکے جا رہی تھی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail