آپ کی نیک نیتی اور ہمارے جنازے


سلمان تاثیر صاحب کے قتل کے بعد ممتاز قادری کے بارے میں تین قسم کے رویے سامنے آئے۔ ایک وہ تھے جن کی آواز خادم رضوی صاحب تھے، ان کا کہنا تھا کہ قتل کرنا بالکل جائز بلکہ احسن اقدام تھا اور قاتل کو کسی بھی قسم کی کوئی قانونی سزا نہیں دینی چاہیے۔ دوسرے وہ لوگ تھے جن کے نزدیک گستاخی بھی ہوئی تھی اورقاتل کا جذبہ بھی نیک تھا مگر ملکی قانون کے تحت گستاخی کی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جن کے نزدیک سلمان تاثیر گستاخ نہیں تھے اور ممتاز قادری بغیر کسی اگر مگر کے ایک قاتل تھا۔

ان میں سے جو دوسرا گروہ تھا اس کی تصدیق مفتی تقی عثمانی صاحب کی ممتاز قادری پر ایک ویڈیو سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ ممتاز قادری کے جذبے کو نیک قرار دیتے ہیں اور صاف صاف کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی رحمت سے ماجور ہی ہو گا۔ خادم رضوی صاحب کی وفات کے بعد ایسی ایک اکثریت تھی جس کا ردعمل یہی تھا۔ ان سب کا کم و بیش کہنا یہی تھا کہ خادم رضوی صاحب سے مذہبی اور سیاسی اختلاف ضرور تھا مگر وہ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لئے باہر نکلے تھے اور وہ ایک عاشق رسول ﷺ تھے۔

ہماری قوم کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے جرم، ظلم، زیادتی اور فساد کو ناموس رسالت سے جوڑ کر، اسے نیک نیتی کا جامہ پہنا کر، نہ صرف یہ کہ عام معافی کا اعلان کر دیتی ہے بلکہ اس کے مرتکب لوگوں کو ہیرو کا درجہ دے کر سر پر بٹھا لیتی ہے۔ اب بظاہر تو اس میں کوئی بری بات نہیں لگتی، کہ جمہور کا فیصلہ ہے جو مرضی کرتی پھرے مگر ہوتا یہ ہے کہ لوگوں کی یہ نفرتوں پر نیک نیتیں ڈھونڈنے کا مشغلہ اقلیتوں کو جنازوں کی صورت بھگتنا پڑتا ہے۔

جب آپ ہر وقت مسلمان کافر جنتی دوزخی مرتد زندیق گستاخ شاتم بدعتی وغیرہ سے لیس نفرت اور تشدد کا بیوپار کھولی رکھتے ہیں تو لاکھوں کے ہجوم میں کوئی ایک سر پھرا جو شاید (یا بلکہ یقیناً ہی) پانچ وقت کی فرض نماز نہ پڑھتا ہو وہ بھی جنت کے حصول کی آسانی کے لئے شارٹ کٹ کا راستہ اپنا لیتا ہے۔ شامت اعمال کسی بے گناہ گستاخی کے جھوٹے الزام والے کی یا کسی مذہبی اقلیت کے کسی فرد کی آتی ہے اور وہ کہیں کسی سڑک کنارے خون میں لت پت آپ کی نیک نیتی اور نیک جذبے کا خمیازہ بھگت رہا ہوتا ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ کا قطعاً بھی یہ تقاضا نہیں کہ آپ ہزاروں ڈنڈا برداروں کو لا کر سڑکیں بند کر دیں، مسافروں، طالب علموں، مریضوں اور جنازوں اور براتوں کو خصوصاً اور باقی عوام الناس کو عموماً گھروں میں قید کر کے رکھ دیں، اپنے مخالفوں کو گندی اور لچر گالیاں دیں، گستاخی کے جھوٹے الزام سے متہم بے گناہ اور معصوم شخص کو نہ صرف یہ کہ گالیاں دیں بلکہ اسے قتل کرنے کے لئے لوگوں کو اکسائیں، حکمرانوں کے خلاف قتل کے فتوے صادر کریں اور اس سب فساد فی الارض کے بعد ہمیں کہا جائے کہ یہ سب آپ آنحضرت ﷺ کے عشق میں کر رہے ہیں اور یہ کہ طریقہ کار غلط ہے مگر باتیں صحیح ہیں اور یہ کہ اس سب بدتمیزی اور نفرت اور پرتشدد مظاہروں میں نیت اور جذبہ نیک تھا۔

معلوم بھی ہے کہ ان سب کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ جو آئے دن کوئی اٹھتا ہے اور دوسرے پر گستاخی کا الزام لگا کر مار دیتا ہے، یہ جو عیسائی، ہندو، شیعہ، ہزارہ یا احمدی قتل ہو جاتا ہے اور چپ کر کے اپنے پیارے کے لاشے کو دفنا کر چپ چاپ کہیں بھیڑ میں اپنے آپ کو گم کر لیتا ہے تاکہ اپنی جان بچا سکے اور اپنا کندھا کسی اور بے گناہ کے جنازے کو دے سکے، یہ سب نتیجہ ہے آپ کے ان ظالموں کی نیت اور جذبے کو نیک قرار دینے کا۔

پاکستان میں اقلیتوں کی عموماً اور کچھ خاص اقلیتوں کی خصوصاً زندہ اور امن سے رہنے کی سوچ ہی ان کی زندگی کی پوری کائنات ہے۔ وہ بیچارے اپنے بچوں کے روشن مستقبل سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اگلے سال اگر زندہ بچ گئے تو وہ ہی بہت کافی ہے، ان کو گھر کرائے پر نہیں ملتے، ان کو سودا سلف دکاندار نہیں دیتے، ان کی عورتوں پر آوازے کسے جاتے ہیں، ان کے مردوں کو شودر سمجھا جاتا ہے، ان کی ترقیاں روک لی جاتی ہیں، ان کے ساتھ مل کر کھانا نہیں کھایا جاتا، ان کو قتل کر دیا جاتا ہے اور جو بچ جاتے ہیں انہیں مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ وہاں سے نقل مکانی کر جائیں، اور یہ سب ان نفرتوں کا نتیجہ ہے جس کی نیت اور جذبہ آپ کے نزدیک نیک ہے، مگر کیا آپ اس درد اور دکھ کا اندازہ بھی کر سکتے ہیں جو ان نفرتوں کے ماحول میں اچھوت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟

بس ایک درخواست ہے، کہ اگر اگلی دفعہ کسی نفرت کے بیوپاری کو نیک نیتی کا سرٹیفیکیٹ دیں تو ہم پر انا للہ بھی ساتھ ہی پڑھ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).