انقلاب اسلامی کے متعلق مارون زونس کا نظریہ


علم سیاست کے اندر ایک دلچسپ موضوع حکمرانوں کی نفسیاتی شخصیت کا علمی بنیادوں پر تجزیہ و تحلیل کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ان موضوعات کو زیربحث لائے لیکن کسی بھی ملک کے حالات کا گہرا تعلق اس ملک پر حکومت کرنے والے فرد کی نفسیاتی شخصیت سے ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر کی جانے والی قانون سازی، فیصلہ سازی، یا دیگر اقدامات پر بھی حکمران کی نفسیاتی شخصیت کا اثرہوتا ہے۔ مضبوط شخصیت کا مالک انسان خود اعتماد ہوتا ہے لہذا یہ خود اعتمادی اس کے فیصلوں اور اقدامات میں نظر آتی ہے جبکہ کمزور شخصیت کا مالک انسان ہمیشہ سہارے ڈھونڈتا ہے اور کبھی بھی اپنے ارادے اور خود اعتمادی کی مددسے فیصلے نہیں کرتا۔

ہم اپنے آس پاس کے ماحول میں ایسے کئی افراد دیکھتے ہیں جو کسی بھی طرح ایک مرکزی عہدے تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن نفسیاتی طور پر ان کی شخصیت اتنی پختہ نہیں ہوتی کے اس اہم عہدے کی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں، نتیجتاً اس گھرانے، ادارے، حتی مملکت (جس سطح تک بھی ایسا انسان جا پہنچے ) کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ انسان کی نفسیاتی شخصیت کے اندر موجود خوبیوں یا خامیوں کا تعلق چند اہم عناصر سے ہوتا ہے، مثلاً وہ ماحول جس میں انسان بچپن گزارتا ہے، والدین کے آپس کے رویے اور بچے کے ساتھ رویے وغیرہ، وہ تعلیمی ماحول جہاں انسان تعلیم حاصل کرتا ہے، وہ صحبت اور دوستیاں جو بچپن سے لے کر آخر عمر تک اس کو میسر آتی رہی ہیں۔

کمزور شخصیت کا مالک انسان تمام مراحل طے کرتا ہوا تعلیمی ڈگری تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اسی شکست خوردہ شخصیت کے ساتھ جب کسی ادارے کا سربراہ بنتا ہے تو اس کا نظام درہم برہم کر دیتا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کے ہمار ے گھریلو یا تعلیمی نظام کے اندریہ رجحان بھی نہیں پایا جاتا کہ بچوں کی نفسیاتی شخصیت کا جائزہ لیا جائے اور ایک متوازن اور پختہ شخصیت بنا کر معاشرے کے حوالے کی جائے البتہ سمجھدار انسان جب شعور کی عمر کو پہنچتا ہے تووہ خوداپنا جائزہ لیتا ہے اور اپنے اندر موجود نفسیاتی کمزوریوں کو برطرف کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن عموماً ایسے افراد بہت ہی قلیل تعداد میں نظر آتے ہیں۔

ایسا ہی ایک نفسیاتی جائزہ معروف امریکی ماہر علم سیاسیات مارون زونس (Marvin Zonis) نے شاہ ایران کی شخصیت کا بھی کتابی شکل میں پیش کیا جس کا نام میجسٹک فیلیر، دی فال آف شاہ (Majestic failure : the fall of the Shah) رکھا۔ مارون زونس کے مطابق شاہ ایران کی شخصیت کی کمزوری کی پہلی وجہ وہ شاہانہ ماحول تھا جس میں اس نے پرورش پائی، نعمتوں اور آسائشوں سے بھرپور زندگی جہاں دکھ تکلیف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس ماحول نے شاہ کی شخصیت کے اندر ضعف کو جنم دیا۔ دوسری وجہ حد سے زیادہ لاڈلا پن تھا، وارث تخت ہونے کی وجہ سے اس کی ناز برداری کی جاتی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے اندر خود اعتمادی، خود ارادی، ہمت و حوصلہ اور مہم جوئی جیسی صفات پیدا نہیں ہو سکیں۔

تیسری وجہ شاہ کی زنانہ ماحول میں پرورش پانا تھی۔ ہمیشہ زنانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس کے اندر خوف اورحساسیت جیسی شخصیتی کمزوریاں پیدا ہوتی رہیں۔ بہادری اور بے باکی اس کی شخصیت کا حصہ نہ بن سکی۔

جیسا کہ ہم اپنے ہاں بھی دیکھتے ہیں کہ بڑے لوگوں کے بچے نہایت محدود ماحول میں پروان چڑھتے ہیں، ان کی دوستیاں اختیاری نہیں ہوتیں، ان کے سکول بھی ایسے ہوتے ہیں جہاں ان کو اپنے جیسے ہی دوست ملتے ہیں اور والدین بھی صرف انہی بچوں کے ساتھ میل جول رکھنے کو کہتے ہیں۔ یہ ٹھونسی ہوئی دوستیاں ان کی شخصیت کے اندر کمزوریوں کو جنم دیتی ہیں۔ شاہ ایران نے ابتدائی تعلیم سوئٹزرلینڈ سے حاصل کی، بے جا ناز و نعم اور سیکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر اس کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔

اس کی دوستی مالی کے بیٹے سے ہو گئی اور یہ دوستی اتنی پختہ ہو گئی کہ شاہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسے اپنے ساتھ ایران لے آیا۔ کیونکہ شروع سے اسی کے ساتھ رہا تھا اور اس پر بہت اعتماد کرتا تھا اس لیے جب تخت حکومت سنبھالا تو اسی مالی کے بیٹے کو اپنا مشاور بھی بنا لیا، اہم ترین کام س کے ذمہ سونپ دیتا۔ شاہ کے اس دوست کے ساتھ غیر اخلاقی تعلقات بھی منظر عام پر آئے اور اس دوست کو ایران چھوڑ کر واپس جانا پڑا جس کی وجہ سے شاہ کی کمزور شخصیت کو پہلا دھچکا لگا۔

اسی طرح چند اور ملکی اور غیر ملکی دوست جو شاہ کے قابل اعتماد بھی تھے، میں سے ایک اسداللہ علم تھا۔ اسداللہ نہاہت بے رحم شخصیت کا مالک تھا اور بے رحمانہ کاموں میں شاہ کی بہت حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا، اسد اللہ علم انقلاب سے دو ماہ پہلے سرطان کے باعث انتقال کر گیا اور شاہ سخت سیاسی مشکلات کے موقع پر اپنے نہایت قابل بھروسا دوست سے محروم ہو گیا۔ ایک اور شخصیت جس کا بہت گہرا اثر شاہ پر موجود رہا و ہ اس کی اپنی بہن اشرف پہلوی تھی۔

اس عورت نے ملکی و غیر ملکی سطح پر جرائم پیشہ افراد کے گروہ بنائے ہوئے تھے جو ہر ناجائز کام کرنے کے لیے تیار رہتے تھے شاید یہی وجہ تھی کہ امریکی حکام بھی اس عورت سے خوف کھاتے تھے۔ اشرف پہلوی نے حکومت کے اندر ہی اپنی ایک حکومت بنائی ہوئی تھی جس کی مالی حیثیت مملکت ایران کے برابر تھی۔ وہ تمام افراد جن پر شاہ بہت زیاہ بھروسا کرتا تھا، سب کے سب انقلاب آنے سے پہلے ہی یا تو مر چکے تھے یاشاہ کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔

شاہ ایران کے آس پاس چاپلوس افراد جمع رہتے تھے جو کبھی اس کو خدا کی طرف سے غیبی حمایت اور تائید کی یقین دہانی کرواتے اور کبھی اس کو زمین پر سایہ خدا بنا کر پیش کرتے۔ انقلاب سے پانچ سال قبل فرانسیسی ڈاکٹروں نے شاہ کو بتایا کہ وہ خون کے سرطان کی مرض میں مبتلا ہے، اس مہلک بیماری کی خبر نے اس کے اندر سے رہی سہی ہمت بھی ختم کر دی اور وہ نفسیاتی طور پر باور کر چکا تھا کہ خدا کی تائید اس کو حاصل نہیں ہے۔

شاہ ایران کی ناکامی ایک اہم ترین وجہ امریکہ پر اندھا اعتماد تھا، جس نے اس کو غلط فیصلے کرنے کا حوصلہ دیا۔ انقلاب کی کامیابی سے دس روز پہلے جمی کارٹر نے تہران آ کر شاہ کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس مملکت نے بھی امریکہ پر بھروسا کیا اور اسے اپنا یار و مددگار سمجھا اس نے کبھی بھی خوشحالی کا دن نہیں دیکھا۔ شاہ ایران چونکہ خود اعتمادی کی صلاحیت سے محروم تھا ا س لیے ہمیشہ سہارے ڈھونڈتا رہتا تھا اور اس کی حماقت کا اس بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ اس نے امریکہ کو اپنا ہمدرد سمجھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).