ایک دن شور سے ہٹ کر میں نے اپنے اندر کی آوازوں پر کان دھرا



ایک دن شور سے ہٹ کر میں نے اپنے اندر کی آوازوں پرجب کان دھرا
میں شکست خوردہ محسوس کرتی ہوں۔
مجھے یوں لگتا ہے جیسے میر ا کسی بھی شے پر کنٹرول نہیں۔
میں وہ نہیں ہوں جو میں پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔
مجھے یوں لگتا ہے جیسے میری طاقت مجھ سے چھین لی گئی ہو۔
میرے اندر کی روشنی بھجنے لگی ہے۔
یہ سب میری نئی زندگی کاحصہ بن چکا ہے۔

سچ بتاؤں مجھے لگتا ہے میں تھوڑا تھوڑا کر کے اس طاقت کو کھو چکی ہوں، مجھے نہیں لگتا کہ میرے اندر اس روشنی کو واپس لانے کی قوت اب موجود ہے۔

اندر کی آواز۔ تم ہی تو اسے کھونے پر راضی ہو گئی تھیں! مجھے تم سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی۔
میں نے کہا:۔ مجھے نہیں پتہ! کچھ میں نے اسے کھو دیا، کچھ وہ مجھ سے چھین لی گئی۔ مجھے کچھ نہیں پتہ!
اندر سے آواز آئی:۔ کیا تمہیں نہیں پتہ؟
میں جھنجھلا گئی اور کہا:مجھے نہیں پتہ میں کیا کروں؟ مجھے مدد چاہیے!

مجھے اندر سے سرگوشی سنائی دی:۔ تمہاری طاقت تمہارا انتظا ر کر رہی ہے، اس پر توجہ دو۔ ہر اس شے پر توجہ دو جس سے تمہیں توانائی ملتی ہے، خوشی ملتی ہے۔ جس شے سے تم میں پیا ر کا احساس جا گتا ہے، جس سے تمہیں روشنی ملتی ہے۔ تمہیں یہ بات معلوم ہے کہ جس طرف توجہ جاتی ہے، اسی طرف توانائی کا بہاؤ ہو جا تا ہے، ہاں میں جانتی ہوں، تمہیں یہ پتہ ہے۔ چلو کسی ایک کام سے آغاز کرتے ہیں۔ اپنی آنکھیں بند کرو، اور اس بات پر غور کروکہ تم کیا چاہتی ہو؟ اور پھر جو بات ذہن میں سب سے پہلے آئے وہ مجھے بتاؤ

میں نے سوچتے ہوئے کہا:خوف اور کمی کا احساس۔ پتہ نہیں کیوں!
جواب آیا :اپنے جسم میں تمہیں کہاں یہ خوف اور کمی کا احساس محسوس ہو رہا ہے؟
میں نے کہا:میرے سینے پر۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ایک بوجھ ہے جس کے تلے میری چھاتی دبی ہوئی ہے۔

اندر سے آواز آئی:تم نے کبھی سوچا کہ یہ بوجھ تمہیں کیا بتانے کی کو شش کر رہا ہے؟ اس کے بعد ایک لمحے کے لئے میرے اندر چپ چھا گئی۔ ۔ طویل چپ۔ عجیب سا توقف تھا! پھر جواب آیا، کہ میں نہ ڈروں۔

میں نے کہا: کس سے نہ ڈروں؟
آواز آئی : ناکامی سے۔ اور یہ بھی سوچو کہ اس وقت تمہارے لئے سب سے بڑی ناکامی کیا ہے؟
پھر آواز آنا بند ہو گئی۔ میرے اندر خاموشی چھا گئی۔ طویل خاموشی۔

میرے خیال میں۔ مجھے نہیں پتہ! شاید یہ کچھ ہٹ کر کرنے کا خوف ہے۔ کسی نامعلوم شے کا انجانا سا خوف ہے۔ مجھے لگتا ہے میں اس سے پریشان ہو جاتی ہوں، چونکہ میں اندر سے بدل چکی ہوں، اس لئے یہ تبدیلی میرے اندر ہیجان مچائے رکھتی ہے۔ جبکہ تم کہتی ہو کہ وہی کچھ کرو ں جو میں کرنا چاہتی تھی۔

میرے اندر سے آواز آئی کہ یوں لگتا ہے کہ تمہاری روح میں ابھی کوئی رمق باقی ہے لیکن تمہارا دماغ منطق کے ذریعے تمہیں روکنے کی کوشش کر رہا ہے، یا سوال اٹھانے سے روک رہا ہے۔

میں نے جواب دیا:۔ ہاں میں جانتی ہوں کہ مجھے ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن جب کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی نوبت آتی ہے تو میں خود کو ساکت محسوس کر تی ہوں۔ مجھے یوں لگنے لگتا ہے جیسے میرے اندر بالکل بھی طاقت نہیں بچی۔

آوازآئی۔ یعنی فیصلہ لیتے ہوئے تم ساکت ہوجاتی ہواور تمہیں لگنے لگتا ہے کہ تمہاری توانائی ختم ہو چکی ہے۔ تو کیا ان لمحات میں تم نے جاننے کی کوشش کی کہ تمہیں کس طر ح کی مدد درکارہے؟

میں نے کہا:، ہاں، ایک واضح نقطہ نظر۔ مجھے کیسے پتہ چلے کہ میں جو فیصلہ لے رہی ہوں وہ درست ہے۔
تو تم نے کبھی اپنی روح یا چھٹی حس کو سننے کی کوشش کی؟
اوہو۔ اگر میں اپنی روح کی سننے لگی تو پھر بے چین ہو جاؤں گی۔ زندگی کا ڈھب بدل جائے گا۔
اچھا یہ تو بتاؤ تمہاری چھٹی حس کیا کہتی ہے؟

میری چھٹی حس یہی کہتی ہے کہ خود پر اعتماد رکھو، سب ٹھیک ہو جائے گا، بس اپنے دل کی سنو اور جیسے تمہیں جینا ہے ویسے جی لو۔ باقی سب کی فکر چھوڑو۔ میں نے جواب دیا۔

اچھا تو پھر تم کیا کرتی ہو؟
ہاں اگر میں واقعی ایسا کرنے کے بارے میں سوچوں تو ڈر جاتی ہوں۔
اچھا تو ایسے کرو، اس ڈر سے نکلنے کے لئے ان سوالوں پر غور کرو۔
1) اگر تم آج اپنی چھٹی حس کی، اپنے دل کی نہیں سنوگی تواگلے پانچ سال بعد کیسا محسوس کروگی؟

2) اگر یہ فیصلہ تم کر لو، جس سے تم ڈر رہی ہو توحد سے زیادہ برا کیا ہو سکتا ہے؟ (اس کا جواب لکھ لو، اور پھر سوچو کہ جن بدترین حالات کا تم سوچ رہی ہوکیا حقیقت میں ویسا ہو سکتا ہے؟ )

3) اب یہ بھی لکھوکہ اگر تم فیصلہ نہیں کرتی اور اپنی اسی حالت کو قبول کر لیتی ہو، تو اس سے تمہیں کیا نقصان ہو گا؟

یہ باتیں سن کر میں ہنسنے لگی اور کہا، ہاں ہاں۔
میرے اندر سے آواز آئی :۔ کیا ہوا کیوں پاگلوں کی طرح ہنس رہی ہو؟
میں نے کہا میں جان گئی ہوں کہ میں کیا کررہی ہوں اور مجھے کیا کرنا ہے۔

میرے اندر سے آواز آئی۔ دیکھا میں نہیں کہتی تھی کہ تمہاری توانائی وہیں موجود ہے۔ اور جو بدترین حالات تم نے سوچ رکھے تھے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ تم نے فضول باتیں سوچ کر خو د کو اذیت میں ڈال رکھا تھا۔ لیکن یا د رکھو اگر حالات کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے تو حقیقی چین کبھی نہیں ملتا۔ اور یقین کرو، اگر حالات بدلنے کی کوشش کی جائے تب بھی بے چینی آن گھیرتی ہے تو یوں سمجھو یہ بے چینی کا احساس ایک کیفیت ہے، جو تا حیات ہمارے ساتھ رہتی ہے تو کیوں نہ وہ سب کر کے بے چین ہوا جائے جسے کرنے کی دل میں خواہش ہے۔

اور اب میری قارئین سے گزارش ہے کہ ہم بھی ایسے ہی کبھی زندگی میں جو چل رہا ہوتا ہے اسے قبول کر کے جینے لگتے ہیں، حالات بدلنے کے بارے سوچتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کر تے نہیں ہیں، اپنے دل کی نہیں سنتے، بس شب و روز گزرتے ہی چلے جاتے ہیں لیکن دل اور روح پر بوجھ بڑھتا جا تا ہے۔ ٹھیک ہے اپنی ذمہ داریاں، رشتے، نبھائیے لیکن جب روح کی تکلیف بڑھنے لگے، اسے کوئی تبدیلی چاہیے ہو تو اس کی بھی سننے کی کوشش کیجئے۔ ایک ہی تو زندگی ہے اسے بھی گھٹ گھٹ کر گزارنے کا فائدہ؟ اپہلے پہلے مشکل لگتا ہے لیکن جب سوچ لیا جائے کچھ کرنا ہے تو راستے خودبخود کھلنے لگتے ہیں۔ تو بس زندگی میں چانس لیں۔ ہمت کریں۔ اگر پچاس سال کی یادداشتوں میں اپنے ساتھ، یا اپنے مطابق بتایا ہوا ایک لمحہ بھی پاس نہیں تو اب ہی کچھ کر لیجیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).