علامہ خادم کا چھوڑا ہوا ترکہ


اقبال نے دنیا کو کسی معرکۂ روح و بدن کے پیش آنے کا ذکر کیا تھا اگر وہ آج کے زمانے میں ہوتے تو نجانے ہمارے دیمک زدہ معاشرے کے بارے میں کیا لکھتے جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ غالب یاد آ گئے

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

آج ایک مرتبہ پھر ہمارے معاشرے میں تقسیم گہری ہو چلی ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج ایک دفعہ پھر وہ لائن کھنچ چکی ہے جس کے اس پار ایک جم غفیر ہے جی ہاں ویسا ہی جم غفیر جو آپ کو آج مینار پاکستان پر نظر آیا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ہم اسی مینار پاکستان کے مقام پر پاس ہوئی اس تاریخی قرارداد لاہور کا صد سالہ جشن منا رہے ہو گے جس کے نتیجے میں کہا جاتا ہے کہ مسلمانان ہند نے اپنا ایک الگ ملک حاصل کیا۔ اس قرارداد کو پیش کرنے والے بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل الحق کی روح کو مگر کوئی یہ خبر پہنچائے کہ مذہب کی بنیاد پر الگ ہونے کا مطالبہ کر کے جس کار خیر کی آپ نے داغ بیل ڈالی تھی اس کے ثمرات آج لاہور کے اقبال پارک سے ڈھاکہ کے گلی کوچوں تک بکھرے پڑے ہیں۔ انہی ثمرات کے بطن سے آج ننکانہ کے ایک ڈاکٹر کا خون برآمد ہواجس کا مسلک شاید اس کے سولہ سالہ قاتل اور اس جم غفیر سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

تقدیس مشرق کا افسانہ سنانے والے اپنے گھروں سے آج پھر نکل آئے ہیں۔ اس افسانے کا ثنا خواں طبقہ آج ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ مرنے والا عشق کے کتنے اونچے مرتبے پر فائز تھا۔ کہیں ہم پر یہ ہوشربا انکشاف کیا جا رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ انتہائی اعلیٰ روایات کا امین ہے جہاں مٹی تلے سو جانے والے کے متعلق یا اس کے کردار کے متعلق کوئی (منفی) بات نہیں کی جاتی۔ کہیں یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ جنازوں کی عزت کرنی چاہیے۔ کوئی ہمیں تعزیت کے آداب سکھا رہا ہے اور کوئی جنازے کے بڑا ہونے کو ایک دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

میرے شہر پنڈی اسلام آباد کے باسیوں کو، جو ان دھرنوں جیسی بدعت کے شدید عادی ہوتے جا رہے ہیں، چند دن پہلے پھر اس عذاب سے گزرنا پڑا۔ ایسے میں وہ لوگ جو مولانا کو ایسے نیک القابات سے نواز رہے تھے جنہیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا بھی شاید ممکن نہیں، آج وہی لوگ مولانا کو عشق کے ایسے درجے ہر فائز کیے بیٹھے ہیں جہاں اگر ہم جیسے دیکھنے کی بھی جسارت کرتے ہیں تو وہ ہماری آنکھیں نکالنے کو دوڑتے ہیں۔ آخر کب تک، خدا کے بندو، آخر کب تک ایسی منافقت سے کام چلاتے رہو گے۔

یہ یاد رکھو کہ ہر شخص اپنے چھوڑے ہوئے ترکے کی وجہ سے پہچانا جائے گا۔ خدا کے بندو یہ تو سوچو کہ مولانا کا چھوڑا ہوا ترکہ کیا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھو اور پھر یہ بتاؤ کہ جب مومنین کا ہجوم ”سر تن سے جدا“ کے نعرے لگاتا ہے تو جہاں فیض آباد کا پل کانپ جاتا ہے وہی کیا آپ کا دل نہیں کانپتا؟ کیا آپ کو ان مومنین کے نورانی چہروں سے خوف نہیں آتا؟ میرے جیسے کمزور ایمان والے نے جب پہلی دفعہ اس روح پرور نعرے لگانے والے ہجوم کو دیکھا تھا تو بدن میں ایک ایسی جھرجھری پیدا ہوئی تھی جس نے دل و دماغ کو کپکپا کر رکھ دیا تھا۔

اگر آپ کو ان نعروں سے ڈر نہیں لگتا تو یقین مانیے آپ ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔ اچھا چلیں کیا آپ کو ننکانہ کی اس بدنصیب ماں کے آنسو بھی کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتے جس کے اکیس سالہ لخت جگر کو آج چھلنی کر دیا گیا؟ اگر ابھی بھی آپ کے دل میں کسی سوچ نے انگڑائی نہیں لی تو بس جان جائیے کہ یہی مولانا کا چھوڑا ہوا ترکہ ہے۔ مولانا کے اس ترکے کو چند سطروں میں سمو دینا تو اگرچہ ممکن نہیں لیکن آپ کے کچھ کارناموں پر نظر تو ڈالی جا سکتی ہے۔

منبر پر بیٹھ کر لوگوں کے جذبات سے کھیلنا، جلاؤ، گھیراؤ، شہروں کو بند کرنا، ممتاز قادری جیسے ذہنوں کی آبیاری کرنا، ہندوؤں اور عیسائی بچیوں کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کرنا، احمدیوں پر زندگی کے دروازے تنگ کرتے چلے جانا ہی تو مولانا کا چھوڑا ہوا ترکہ ہے۔ اس قوم کی وہ بدنصیب بیٹی زینب بھلا کسے بھول سکتی ہے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ اس کے باپ کو تحقیقاتی افسر کے مسلک کی زیادہ فکر ہو چلی تھی۔ کیا آپ کو مشال خان کا بوڑھا والد بھول گیا جو آج بھی انصاف کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ الغرض مولانا کے ترکے کے مظاہر چار سو بکھرے پڑے ہیں۔

اس زوال پذیر معاشرے کو انتہا پسندیوں کی جن نئی بلندیوں اور رفعتوں سے مولانا نے ہمکنار کروایا ہے اس کا کریڈٹ مولانا کو نہ دینا بہت زیادتی ہو گی۔ یاد رکھیں تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے اس کی کاٹ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ ایک جتھا یا ہجوم کسی مؤرخ کے قلم کو موڑ نہیں سکتا۔ اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ تاریخ مولانا کے ضمن میں بھی اپنا فیصلہ خوب سنائے گی۔

شہر اقتدار اور اس کا جڑواں شہر تو ہمیشہ مولانا کی نظر عنایت کے مستحق ٹھہرے۔ ان دو بدقسمت شہروں کو مولانا نے خوب یرغمال بنایا۔ ان شہروں کے لوگوں کا جانی، مالی، جسمانی اور تعلیمی نقصانات کا ذمہ دار مولانا کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ اس لیے بھیا ہم سے تو یہ منافقت نہ ہو پائے گی۔ اس لیے ہمیں معاف رکھیو۔ اور آخر میں آئیے اپنے اداروں کے لیے دست دعا بلند کریں کہ کہی سے ان کی ہدایت کا کچھ سامان ہو اور وہ ایسے لوگوں کی سرپرستی کرنا بند کریں تاکہ یہ قوم کچھ آگے کا سفر شروع کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).