عمر کی نقدی ختم ہونے کو ہے (1)


گریجویشن کے امتحان سے ایک ماہ قبل جون 1978 میں والد محترم کا ایک طویل بیماری کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ والدہ بہت پہلے ہی وفات پا چکی تھیں اس لئے میں اب گھر میں اکیلا اور تنہا رہ گیا۔ والد بزرگوار کے کفن دفن کے بعد ان کی تعزیت کے لئے آنے جانے والوں آنا جانا لگا رہا۔ ایک ماہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ ایسے حالات میں امتحان کی تیاری کیا ہونا تھی بس تھوڑی بہت جتنی ممکن تھی تیاری کی اور امتحان دے دیا۔

امتحان سے فارغ ہوا تو پھر تنہائی اور سوچ تھی کہ اب کیا بنے گا گھر میں اکیلا کیسے رہوں گا۔ گاؤں میں کچھ دن خود ہی کھانا پکانا کیا۔ پھر ایک دن وزیر آباد سے خالہ فاطمہ خالو جان کے ساتھ آ گئیں گھر کی ساری چیزیں اکٹھی کر کے سنبھالیں۔ گھر کو تالہ لگایا۔ اور زبردستی مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئیں کہ یہاں گاؤں میں اکیلے کیسے رہو گے۔ جب تک رزلٹ نہیں آتا، ہمارے ساتھ چل کر رہو، اس کے بعد دیکھیں گے۔

ان کا گاؤں وزیر آباد سے تھوڑی ہی دور دریائے چناب کے کنارے پر واقع تھا۔ میں اکثر چھٹیوں میں یہاں آتا رہتا تھا۔ خالو مکینیکل کا کام کرتے تھے۔ ایک بڑی کمپنی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر آباد میں خراد کا ایک کارخانہ لگا رکھا تھا۔ اس کارخانے میں چھوٹے موٹے مختلف نوعیت کے پرزہ جات کے علاوہ پنکھوں میں استعمال ہونے والے کے کچھ پرزے بھی بنتے تھے۔ چند دن تو میں نے گاؤں میں ایسے ہی گزارے پھر ایک دن خالہ زاد بھائی کے ساتھ کارخانے میں آ گیا۔ خود ہی دلچسپی لے کر تین چار دن میں ہی میں نے پنکھوں کے پرزہ جات بنانے سیکھ لیے اور پھر باقاعدہ کام شروع کر دیا۔

پنکھوں کے پرزہ جات بنانے کے لئے فولاد ہمیں فیکٹری والے دیتے تھے۔ کارخانے میں عموماً ہم نے پیڈسٹل فین میں استعمال ہونے والا ایک پرزہ بنانا ہوتا تھا۔ ایک پرزہ بنانے کے فیکٹری والے کارخانے کو اڑھائی روپے دیتے تھے جس میں سے ایک روپیہ خراد پر اسے بنانے والے کو ملتا تھا۔ میں اور میرا خالہ زاد بھائی مقابلے مقابلے میں ایک دن میں بیس تک پرزے بنا لیتے تھے۔ جب کہ کارخانے میں کام کرنے والے باقی لڑکے بھی تقریباً اتنے ہی بنا پاتے تھے۔

خراد مشین پر کام کرنے سے ہاتھوں کو باریک لوہے کے ٹکڑے لگنے سے بعض اوقات ہاتھ زخمی ہو جاتے تھے۔ بہت احتیاط کرنے کے باوجود ہاتھ پر چھوٹا موٹا زخم لگ ہی جاتا تھا۔ مشین پر کام کرنے سے ہاتھ کالے بھی ہو جاتے تھے۔ میں اور میرا خالہ زاد بھائی سارا دن خراد پر کام کرتے اور شام ہونے سے کچھ پہلے نہا دھو کر کپڑے بدل کر تیار ہو جاتے۔ اکثر ہم بس میں بیٹھ کر کبھی گوجرانوالہ اور کبھی گجرات جاتے۔ وہاں تکے کباب وغیرہ کھاتے اور نو سے بارہ بجے والا فلم کا شو دیکھ کر رات واپس آ کر کارخانے میں سو جاتے۔ کارخانے میں ایک کمرہ رہنے کے لئے اور چھوٹا سا کچن بنایا ہوا تھا۔

اس دوران ہم نے بہت فلمیں دیکھیں کہ یہی ان دنوں تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔ اللہ تعالی کا شکر ہے اس نے ہمیں نشے اور ایسی دوسری برائیوں سے محفوظ رکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سب سے زیادہ کردار ہمارے والدین کی تربیت کا تھا۔ جس دن فلم دیکھنے کا پروگرام نہ بنتا اس دن ہم لائبریری سے لائی ہوئی کوئی کتاب پڑھنے بیٹھ جاتے۔ لائبریری ہمارے کارخانے کے نزدیک ہی تھی۔ اس کے مالک بڑے ہی باذوق انسان تھے جنھوں نے بہت اچھی کتابوں کا ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔

ان دنوں ایک ناول کا کرایہ وہ پچاس پیسے لیتے تھے۔ میں لائبریری سے ناول لاتا اور دو دن میں پڑھ کر واپس کر آتا۔ لائبریری والے صاحب بہت حیران ہوتے کہ تم دو دن میں کیسے پورا ناول پڑھ لیتے ہو۔ اس دوران میں نے نسیم حجازی۔ بشری رحمن۔ رضیہ بٹ کے علاوہ بہت سارے دوسرے مصنفین کے ناول پڑھے۔ قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کو پڑھنے کا شوق انہی دنوں پورا ہوا۔

ایک دن شام کو خالہ زاد بھائی نے شام کو گھر جانے کا پروگرام بنا لیا۔ ہم دونوں کام والے کپڑوں میں ہی سائیکل پر گھر چلے گئے۔ رات کو تھکاوٹ کی وجہ سے انہی کپڑوں میں سو گئے۔ صبح خالہ جان نے ہمیں ناشتہ کے لئے اٹھایا۔ ہم ہاتھ منہ دھو کر انہی کپڑوں میں باورچی خانہ میں خالہ کے پاس جا کر بیٹھ گئے جہاں وہ ہمارے لئے پراٹھے بنا رہی تھیں۔ انہوں نے میرے میلے کپڑے دیکھے اور پھر جب ان کو میرے سیاہی مائل ہاتھ دکھائی دیے تو انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پیڑہ پرات میں رکھ دیا۔

خود وہ اٹھ کر میرے پاس آئیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر دیکھا جس پر دو تین چھوٹے چھوٹے زخم بھی تھے۔ یہ دیکھ کر وہ رونے لگیں۔ مجھے گلے لگا لیا اور کہتی جا رہی تھیں۔ ہائے میں آپ کا خیال نہیں رکھ سکی۔ میں اپنی مری ہوئی بہن کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ میں اس کے بیٹے کی صحیح دیکھ بھال نہ کر سکی۔ میں بھی ان کے گلے لگ کچھ ان کی وجہ سے اور کچھ والدہ کو یاد کر رونے لگا۔ پھر انہوں نے مجھے پیار کیا اور جلدی جلدی ناشتہ کروایا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے کپڑے نکال کر دیے اور کہا کہ نہا کر یہ پہن لو۔ میں نہا کر آیا تو انہوں نے میرے منع کرنے کے باوجود سرسوں کا تیل لے کر میرے دونوں ہاتھوں پر مالش کی۔ خالو جان کو پیغام بھجوا کر گاؤں بلوایا۔ ان سے کافی ناراض ہوئیں کہ مجھ سے کارخانے میں کام کیوں کروایا۔ ان سے کہا کہ پندرہ روپیہ روز مجھے خرچہ دیا کریں اور اس سے کبھی مشینوں پر کام نہیں کروانا۔

رزلٹ آنے تک میں مزید دو ماہ ان کے پاس رہا لیکن میرے بہت اصرار کے باوجود خالو نے مجھے مشینوں پر کام نہیں کرنے دیا۔ میں خود ہی کارخانے میں چھوٹے موٹے کام کر دیتا یا پھر کرسی پر بیٹھ کر سارا دن کتابیں پڑھتا رہتا۔ خالہ جان میرا بہت ہی زیادہ خیال رکھتی تھیں۔ ان کا پیار اور محبت میں آج تک نہیں بھلا سکا۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).