کیوں اور کیسے؟ کرونا، ہک واری فیر


وقت بدلا، حالات بدلے اور شاید زمانے کے انداز بھی بدلے۔

دنیا کو اس بار ایک نئے قسم کے چیلنج کا سامنا تھا اور یہ چیلنج کرونا وائرس کا تھا جس سے اب تک لاکھوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، کئی لوگ ہسپتالوں میں یا گھروں میں زیر علاج ہیں جبکہ کئی لوگ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہوئے ہیں اور مزید یہ کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کی وجہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ اگرچہ دنیا اس سے قبل سیلاب، زلزلے، قحط سالی اور جنگوں کا سامنا کر چکی تھی۔ ایسے حالات میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے اور دیگر کئی ایک لوگوں کی زندگیاں بھی متاثر ہوئیں۔

خیر یہ چیلنج اتنا نیا بھی نہ تھا کہ دنیا اس سے نبردآزما نہ ہو سکتی کیونکہ اسی طرح کا ایک انفلوئنزا نامی ایک وائرس بھی سامنے آئے تھا جس کے متاثرین کی تعداد بھی لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں بتائی جاتی ہے جبکہ اس وائرس کی نیچر اس کرونا سے مختلف تھی اگر چہ علامات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ کرونا کو اس لیے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو تیزی سے منتقل ہوتا ہے اور یہ کہ کسی بھی شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کون اس سے متاثر ہے اور کون اس سے متاثر نہیں ہے۔

سال 2019 کے آخر میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آنے والا یہ وائرس جس نے تیزی سے دنیا کے ماسوائے چند ایک ممالک کے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا اب تک نہ صرف لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ کرونا کی اس نیچر کی وجہ سے کہ یہ تیزی سے ایک شخص سے دوسرے شخص کو تیزی سے منتقل ہوتا ہے کئی ممالک نے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کیے۔ لاک ڈاؤن کیا، تعلیمی ادارے بند کیے، کاروبار و دیگر سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ان سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ کچھ ایس او پیز بھی جاری کیے گئے جن میں ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانا، ماسک کا استعمال کو نہایت ضروری قرار دیا گیا۔ ان ایس او پیز کا مقصد بھی کرونا کا پھیلاؤ روکنا تھا۔ ان اقدامات کی بدولت کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ضرور ملی لیکن چونکہ نظام زندگی کو چلانا بھی بے حد ضروری تھا اس لیے آہستہ آہستہ یہ تمام پابندیاں ہٹائی جانے لگیں تاہم ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت ضرور کی گئیں۔

اب جب تمام ممالک نے اپنے ہاں لگائی جانے والی پابندیاں بٹائیں تو کرونا نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے اور پاکستان سمیت دنیا کے کچھ ممالک میں ایک بار پھر، روزانہ کی بنیاد پر کرونا کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق کرونا اب پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کی شدت بھی اب پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو جب حکومت نے یہاں پابندیاں ہٹانا شروع کیں تو لوگوں نے بڑی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس او پیز کو نظر انداز کیا۔

لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد معمول کے مطابق میل جول کرتی نظر آتی ہے جبکہ ماسک کا استعمال میں شاید زیادہ ضروری نہیں سمجھا جا رہا ہے۔ لوگوں کی کثیر تعداد تعداد کرونا کے اب کی بار اس پھیلاؤ کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہی جس کی وجہ سے ایک بار پھر روز بروز کرونا متاثرین کی تعداد اور اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اسی وجہ سے تعلیمی اداروں، شادی ہال اور دیگر ایسی جگہیں جہاں غیر معمولی رش ہوتا ہے ان کی بندش اور کرونا سے متاثرہ علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے تاکہ کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

ایسے میں حکومتی جماعت نے کسی بھی قسم کی سیاسی و مذہبی اجتماع پر بھی پابندی عائد کی ہے حالانکہ اس سے پہلے کرونا کے دنوں میں ہی حکومتی جماعت کے لوگوں نے جلسے جلوس کر کے اپنے مخالفین و دیگر لوگوں کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس بنیاد پر کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر حکومتی جماعت جلسے کر رہی ہے اور کرونا نہیں پھیل رہا تو اپوزیشن کی جماعتوں کے جلسوں یا ان کی سیاسی سرگرمیاں سے بھلا کیونکر کرونا پھیلے گا؟ اپوزیشن یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ حکومت کرونا کی آڑ میں اپوزیشن کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکومت نے اپنے جلسے منسوخ کیے ہیں اور دیگر جماعتوں سے یہ کہا جا رہا ہے تو وہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے اپنی ایسی سیاسی سرگرمیاں جن کی وجہ سے کرونا کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو، ان کو تھوڑی دیر کے لئے منسوخ کر دیں کیونکہ اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے۔ اگر خدانخواستہ حکومت یا اپوزیشن، کسی بھی ایک کی بد احتیاطی سے کرونا پھیلتا ہے تو اس میں نقصان تو سب کا ہی ہو گا اس لیے حکومت و اپوزیشن اپنی اپنی سیاست کو ایک طرف رکھ کر وہ فیصلے کریں جو ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں اور عوام سے میری گزارش ہے کہ وہ اس کرونا وبا کو غیر سنجیدہ نہ بلکہ حکومتی ہدایات پر عمل کر کے اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).