شیریں مزاری اور پاکستان کے احمدی



ایک 82 سالہ سیدھے سادے بزرگ بس اسٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کر رہے ہیں اسی اثنا میں ان کو باقاعدہ نشانہ بنا کر گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

جمعے کی عبادت کر کے واپس آنے والے باپ اور اس کے 31 سالہ ڈاکٹر بیٹے کو بھی فائرنگ کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بیٹا باپ کی آنکھوں کے سامنے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ ان دونوں واقعات میں مرنے والوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ احمدی برادری میں پیدا ہوئے تھے اور وطن عزیز میں کوئی شہری آئین کہ کسی دوسری شق کی پابندی کرتا ہو یا نہیں کرتا ہو اس شق کی ضرور پاسدادی کرتا ہے کہ قادیانی مسلمان نہیں، نہ صرف اتنا بلکہ تمام قادیانیوں کو قتل کرنا بھی اپنا قومی اور مذہبی فریضہ سمجھتا ہے جس کی نہ ہی آئین میں کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی مذہب میں۔ مگر کیا کریں کہ حب الوطنوں کا آئین اسی ایک شق سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوجاتا ہے۔

احمدی برادری پر ظلم کے اور قتل کے صرف یہی چند واقعات نہیں بلکہ ایسے بیسیوں واقعات مملکت خداداد کے ہر شہر میں روزانہ کے حساب سے پیش آتے ہیں۔ مجھے 28 مئی، 2010 کا لاہور کا وہ بھیانک واقعہ نہیں بھولتا جب جمعے کی نماز کے وقت احمدیہ برادری کی دو مساجد میں بیک وقت حملے کر کے معصوم شہریوں کا قتل عام کیا گیا جس میں تقریباً 94 افراد ہلاک اور 120 زخمی ہوئے۔ اب تو ایک نفرت اور جنون کی فضا ہے جو کسی طرح ختم یا کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

کبھی مرحوم نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر پر ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے کالک ملنے کا شرمناک واقعہ دیکھنے میں آتا ہے تو کبھی دنیا کے 25 بہترین ماہر معاشیات کی فہرست میں شامل ہونے والے پاکستانی عاطف میاں کو حکومت کی جانب سے ملنے والے عہدے سے صرف اپنے مسلک کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔

اور اب بڑھتے ہوئے خونریزی کے واقعات دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ ہم جیسے انسان بننے سے تو بہت بہتر تھا کہ ہماری جگہ کوئی خونخوار جانور ہی پیدا ہوجاتا کیونکہ وہ جانور یقیناً ہم سے کم ہی جنونی ہوگا اور صرف بھوک لگنے پر دوسرے جانوروں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے نہ کہ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر لوگوں کو نوچتا پھرتا ہے۔ ذرا سوچیے ایک ہنستا مسکراتا جواں سال لڑکا جس کے آگے ایک روشن مستقبل تھا، جو ہماری طرح ہی دوستوں میں ہنستا بولتا تھا، جسے اپنے بوڑھے باپ کا سہارا بننا تھا اور جس کے باپ نے اپنے بیٹے کے لئے کیا کیا نہ خواب دیکھ رکھے ہوں گے اسے صرف اس لیے مار دیا گیا کہ وہ کسی احمدی کے گھر پیدا ہو گیا تھا؟

ایک بزرگ جو اپنے پوتے پوتی، نواسے نواسیوں کے پیارے دادا یا نانا ہوں گے، ٹھیک ویسے ہی جیسے آپ کے اور ہمارے باپ دادا ہمیں پیارے ہوتے ہیں، جن کا سرے سے کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں، جو اپنوں کے درمیان پیار محبت سے اپنے آخری دن کاٹ رہے ہیں ایسے بزرگوں پر گولیاں برساتے قاتلوں کا ہاتھ نہیں کانپتا؟ بوڑھی سفید داڑھی دیکھ کر اپنا باپ یاد نہیں آتا؟ آخر کیا جرم ہے کسی ہندو، عیسائی، شیعہ یا احمدی کا؟ صرف اتنا کہ وہ ایک مخصوص مسلک یا مذہب کی شناخت کے ساتھ پیدا ہو گئے؟

مجھے بتائیں کہ آپ کے مسلمان اور سنی ہونے میں کتنے فیصد آپ کا ہاتھ ہے؟ اگر آپ لوگوں کو صرف علیحدہ مسلک میں پیدا ہونے کے لیے قتل کرنا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں انسان کا پیدا ہونا خود اس کے اختیار میں نہیں یہ خدائی کام ہے اور خدا ہی یہ طے کرتا ہے کہ کب کس بچے کو سنی، شیعہ، ہندو یا احمدی کے گھر پیدا کرنا ہے پھر بتائیں کس حق سے کسی کا قتل کرنا جائز ہے؟ قرآن مجید میں کوئی ایک بھی آیت کسی مظلوم کے قتل کی ترغیب نہیں دیتی، ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل شمار ہوتا ہے پھر ذرا اپنے ناقص دماغوں پر بوجھ ڈال کر سوچیں کہ آپ کو کس نے خدائی معاملات میں اپنا حصہ ڈالنے کو کہا ہے؟

قرآن مجید میں کہیں بھی زبردستی مسلمان کرنے کا تصور تک موجود نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اپنا سلوک لوگوں سے اتنا اچھا رکھا جائے کہ اگلا خود ہی ہمارے اوصاف سے متاثر ہو کر اسلام کی جانب کھنچا چلا آئے، اس کے علاوہ کسی کافر کو مسلمان کرنے کی کوئی صورت نہیں پھر کس بنیاد پر کم عمر ہندو بچیوں کو اغوا کر کے جبراً ان کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے؟

مجھے حیرت ہوتی ہے ہمارے معاشرے کی اس درجہ منافقت پر جو کشمیر، فلسطین، برما کے مسلمانوں کا درد پالنے کے باوجود آج خود ظلم کی اسی انتہا پر کھڑے ہیں جس پر دوسری اکثریتوں کو کوستے ہیں۔ بلیک لائف میٹرز کا ہیش ٹیگ لگا کر دور دراز کے مظلوموں کے لیے آٹھ آٹھ مگر مچھ کے آنسو بہانے والوں نے اپنے ہی ملک میں جبر اور زیادتی کی تمام حدیں پار کردی ہیں۔ بلیک لائف میٹرز کا ٹیگ لگا کر منافقت کا رنگ بھر کے دنیا کے آگے اپنا جھوٹا چہرہ دکھانے کے بجائے اپنے معاشرے سے جنونیت اور بربریت کا خاتمہ کرنے کے لیے احمدی لائف میڑرز اور مائنورٹی لائف میٹرز کا ہیشٹیگ استعمال کریں اور اس معاشرے کو بلا تفریق سب انسانوں کے زندہ رہنے کے لائق بنائیں۔

اقلیتوں اور دوسرے مسالک کے افراد کے ساتھ اسی طرح پیش آئیں جس طرح دیگر ممالک میں اقلیت کے طور پر آپ ان کا رویہ چاہتے ہیں۔ لوگوں کی عبادت گاہوں کی اسی طرح تعظیم کریں جیسے کسی دوسرے ملک میں اپنی عبادت گاہ کی تعظیم چاہتے ہیں۔ لوگوں کو ان کے مسلک، ان کے مذہب کے ساتھ جینے کا حق دیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جہاں جہاں مسلمان اقلیتوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اس کو بھی ان کی ریاستوں اور ریاست میں بسے والی اکثریت کا حق سمجھ کر تسلیم کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).