کورونا کا خوف، پر جوش جنازہ اور اپوزیشن کی ’عوام دشمنی‘


پشاور میں اتوار کو جلسہ کی وجہ سے وزیر اعظم سمیت وفاقی کابینہ کے متعدد ارکان نے پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی قیادت پر شدید تنقید کی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر اپنے سیاسی مفاد کے لئے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ گزشتہ روز پشاور کے ڈپٹی کمشنر نے شہر میں کورونا کیسز کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ کی بنیاد پر اپوزیشن کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیاتھا۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جلسہ ہر صورت میں ہوگا۔
حکومت کے اہم ترین عہدیداران پاکستان جمہوری تحریک کو ایک ایسے روز جلسہ کرنے پر مطعون کررہے تھے جب لاہور میں تحریک لبیک کے رہنما علامہ خادم رضوی کی نماز جنازہ میں لوگوں کی کثیر تعداد شریک تھی۔ کورونا وائرس ایک حقیقی خطرہ ہے جو کسی ایک علاقے یا شہر تک محدود نہیں ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا ، اس مہلک وائرس کے نشانے پر ہے ۔ وائرس کی دوسری لہر نے بیشتر ممالک کو شدید تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی حکومت کی پریشانی قابل فہم ہے ۔ تاہم عمران خان نے وائرس اور اس کی روک تھام کے لئے اقدمات کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اپریل کے دوران جب ملک میں وائرس کی شدید لہر سے خطرہ لاحق تھا اور سندھ حکومت سماجی دوری کے نقطہ نظر سے سخت اقدامات کررہی تھی اور لاک ڈاؤن نافذ کرنا چاہتی تھی، عمران خان نے اس وقت غریبوں کے روزگار کو عذر بنا کر لاک ڈاؤن کی شدید مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اسے اپنی سیاسی ساکھ اور ذاتی عزت کا مسئلہ بنا کر سندھ حکومت کی بات سننے یا اس سے تعاون کرنے کی بجائے ، اس کے ہر اقدام کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح آج لاہو میں ہزاروں افراد کا مجمع نہ صرف مرحوم خادم رضوی کی نماز جنازہ میں شریک تھا بلکہ جنازے کو جلوس کی صورت میں اس کے آخری مقام تک لے جایا گیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے خود نماز جنازہ میں شرکت کرکے درحقیقت اعلان کیا کہ کورونا کے حوالے سے اجتماع پر پابندی ’بے معنی اور ناقابل قبول‘ ہے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے جلوس کو مناسب سہولتیں فراہم کرکے یہ واضح کیا کہ سماجی دوری کے بارے میں قواعد صرف ’کمزور اور لاچار ‘ لوگوں پر ہی لاگو ہوسکتے ہیں۔ تحریک لبیک جیسا کوئی گروہ اگر کسی نماز جنازہ کے لئے بھی غیر محدود اجتماع کا اہتمام کرے گا تو اسے قبول کر لیا جائے گا۔ کورونا کا حقیقی خطرہ موجود ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے ایک بار پھر اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور استعمال کرنے کی افسوسناک کوشش کی ہے۔
اس ماہ کے شروع میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی برائے اطلاعات کا عہدہ سنبھالنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پنجاب میں پی ڈی ایم کے جلسوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صوبے میں اپوزیشن نےلوگ جمع کرنے کی کوشش کی تو ’قانون حرکت میں آئے گا‘۔ تاہم وہ بھی یہ بتانے سے قاصر تھیں کہ آج علامہ خادم رضوی کی نماز جنازہ کے جلوس و اجتماع کے موقع پر قانون کی نگاہیں کیوں جھکی ہوئی تھیں؟ کورونا وائرس یہ نہیں دیکھتا کہ لوگ نواز شریف ، بلاول بھٹو زرداری یا مولانا فضل الرحمان کو سننے کے لئے جمع ہوئے ہیں یا کسی نماز جنازہ میں مرنے والے کے ساتھ عقیدت کے اظہار کے لئے گھروں سے نکلے ہیں۔ اس کی ہلاکت خیزی دونوں صورتوں میں مسلمہ ہے۔ یہ وائرس اس وقت بھی خطرے کا سبب تھا جب گزشتہ ہفتہ کے دوران وزیر اعظم خود اپوزیشن کی ’مقبولیت‘ کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے جلسے منعقد کررہے تھے اور اپنے تئیں یہ ثابت کررہے تھے کہ وہ اب بھی عوام میں اسی طرح مقبول ہیں جیسے اقتدار سنبھالنے سے پہلے تھے۔
مولانا فضل الرحمان یا دیگراپوزیشن لیڈروں کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حکومت کورونا وائرس سے زیادہ ’مہلک ‘ ہے۔ اس لئے اس کو نکال باہر کرنے کے لئے احتجاجی اجتماعات کرنا ضروری ہے۔ عالمی وبا سے بچاؤ کے مشوروں کو مسترد کرنا درست حکمت عملی نہیں ۔ تاہم جب حکومت کسی وبا کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی بلکہ اسے اپنی کامیابی قرار دیاجائے گا تو وہ ’حکم نامہ‘ یا مشورہ پر عمل کرنے کے لئے اپوزیشن پرکیسے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں صورتوں میں نشانہ تو عوام ہی بن رہے ہیں لیکن تصادم کی موجودہ افسوسناک صورت حال پیدا کرنے میں عمران خان ، ان کی ضد اور انانیت کو جتنا عمل داخل ہے، اپوزیشن لیڈروں پر اس کی اتنی ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی۔
یوں بھی حکومت اگر واقعی کورونا کے پھیلاؤ سے کسی حقیقی تشویش میں مبتلا ہے اور صرف اپوزیشن کے احتجاج کو ختم کروانے کے لئے کورونا کو عذر کے طور پر استعمال نہیں کررہی تو اس مقصد کے لئے کسی شہر کے ڈپٹی کمشنر سے ’حکم نامہ‘ جاری کروانے اور ٹوئٹ پر اپوزیشن لیڈروں کو ’آئینہ ‘ دکھانے اور ’عوام دشمن‘ ثابت کرنے کی بجائے ان سے حکومتی سطح پر براہ راست رابطہ و مشاورت کے ذریعے متفقہ حل تلاش کرنے کی ضرورت تھی۔ اپوزیشن کے پہلے سے اعلان کردہ جلسہ کو دو روز پہلے ڈی سی کے حکم اور ایک روز پہلے طعن و تشنیع سے بھرپور متعدد ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے روکنے کی نام نہاد کوشش کا حقیقی مقصد اپوزیشن کو یہ پیغام دینا ہے کہ اگر اس نے اب جلسہ روکا تو حکومت اسے اپنی سیاسی کامیابی قرار دینے میں حق بجانب ہوگی۔
آج لاہور میں تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم رضوی کی نماز جنازہ کے اجتماع کومحدود کرکے اور قواعد پر عمل کرواکے حکومت اپنے اس عزم کا اظہار کرسکتی تھی کہ وہ وبا کی روک تھام کو اہم سمجھتی ہے۔ اس مقصد کے لئے تحریک لبیک کے رہنماؤں کو کسی ایسے انتظام پر راضی کیا جاسکتا تھا جس میں شرکا کی حفاظت ممکن ہوتی۔ یا پابندی نافذ کرنے کا عندیہ دیا جاتا۔ کورونا وبا کے دوران دنیا کے بیشتر ممالک میں جنازے کی تقریبات کو محدود کیا گیا ہے۔ اور اگر یہ شبہ ہو کہ ہلاک ہونے والا کورونا وائرس کی وجہ سے جان سے گیا ہے تو احتیاطی تدابیر کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں کوورنا کے بارے میں عمران خان کی قیادت میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا۔ نہ مناسب تعداد میں ٹیسٹ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی، نہ احتیاطی تدابیر کا اطلاق ہؤا اور نہ ہی سفر پر پابندیوں لگیں ۔ ان حالات میں حکومت، اپوزیشن اتحاد کو کیسے اپنی اطاعت پر مجبور کرسکتی ہے۔
موجودہ صورت حال دراصل حکومت کی بےبسی اور ملکی انتظامات میں مکمل طور سے غیر فعال ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔ لاہور میں جنازہ کا اجتماع اس کی مثال ہے اور ایک نئی مثال اتوار کو پی ڈی ایم کے جلسہ سے سامنے آجائے گی۔ یہ حالات دراصل عوام الناس کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حکومت ملک میں کسی قاعدہ قانون کو نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسد عمر کے ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان کے ٹوئٹ میں اپوزیشن لیڈروں پر تنقید کی گئی۔ اس کے بعد شبلی فراز ، فواد چوہدری، سید علی حیدر زیدی اور شیریں مزاری کے طعنوں اور توہین آمیز الزامات سے بھرپور ٹوئٹ پیغامات اس معاملہ کی طبی اہمیت اور انتظامی ضرورت کی بجائے سیاسی پہلو کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ ٹوئٹ پیغامات اس حقیقت کا اعتراف بھی ہیں کہ حکومت اپنے کسی فیصلہ کو نافذ کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور کورونا کی روک تھام کے نیشنل کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹر کے سربراہ اسد عمر اپوزیشن کا جلسہ رکوانے کے لئے ٹوئٹ پیغامات کافی سمجھ رہے ہیں۔ جب ملکی حکومت کے پاس قوت نافذہ ہی نہ ہو تو درحقیقت وہ خود ہی حکمرانی کا استحقاق کھودیتی ہے ۔ تاہم یہ احساس مہذب اور جمہوری ملکوں میں ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ پاکستان میں تو ایک بار حکومت مل جانے کے بعد اس سے علیحدہ ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تاآنکہ باد مخالف اس تخت کو ہی نہ الٹ دے جس پر حکمرانی کا شوقین براجمان ہوتا ہے۔
اس دوران لاہور میں علامہ خادم رضوی کی تدفین کی جاچکی ہے۔ اس حوالے سے ان سطور میں جو معروضات پیش کی گئی تھیں، ان پر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ ایک عالم دین کی رحلت کو محض انسانی المیہ کہتے ہوئے ایک احمدی ڈاکٹر کے قتل کو کیوں کر ’ قومی سانحہ‘ کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جاچکا کہ خادم رضوی کی تحریک اور طریقہ احتجاج کے بارے میں ہر شخص کو رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس کے باوجود ان کا انتقال ایک فرد کی موت ہے جس پر ان کے اہل خاندان ، احباب اور ارادت مندوں کو یقیناً دکھ ہے ۔ اس کا احترام ہونا چاہئے۔ تاہم جب دسویں کلاس کا ایک نوعمر طالب علم صرف عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے کسی شخص کو بلا اشتعال ہلاک کردیتا ہے تو وہ دراصل ایک فرد پر نہیں بلکہ معاشرے کی بنیاد پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس حملہ کو خاموشی سے برداشت کرنے والا معاشرہ اور اس پر کوئی رد عمل نہ دینے والی حکومت درحقیقت قوم کو ایسے بحران کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتی ہے جہاں ہر شخص اپنی عدالت لگائے گا اور پھر جلاد بن کر خود ہی نشانے پر آئے ہوئے شخص کو ہلاک کردے گا۔ اجتماعی خود کشی کے اس مزاج کو قومی المیہ و سانحہ ہی کہا جائے گا۔
اہل بصیرت نے نوٹ کیا ہوگا کہ جس خادم رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک نے محض چند روز پہلے حکومت کو ایک ناجائز اور ناقابل عمل مطالبے پر گھٹنے ٹیکنے پر پر مجبور کیا تھا ، ان کے انتقال پر وزیر اعظم نے تعزیت کا ٹوئٹ کرتے دیر نہیں کی۔ آرمی چیف بنفس نفیس خادم رضوی کی وفات پر اظہار افسوس کرچکے ہیں اور پیر نور الحق قادری نے جنازہ میں شریک ہوکر گویاحکومت کی نمائندگی کردی ہے۔ اس دوران اپنے گھر کے دروازے پر ہلاک کئے گئے ایک شخص کی مظلومیت پر ملال کا کوئی اظہار سامنے نہیں آیا۔ اس منظر نامہ میں پریشر گروپس کے خوف اور قومی مفاد کے بیچ موجود باریک لائن کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali