علامہ خادم حسین اور چند افراد کا ٹولا


اپنی پیدائش سے لے کر اب تک میں مملکت خداداد میں ایک ہی بات سنتا آ رہا ہوں کہ مولوی کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ ان سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ یہ ایک ہو گئے تو ان کے مدرسے بند ہوجائیں گے۔ بلاشبہ ملک میں ایسے کئی علما موجود ہوں گے جو منبر رسول پر بیٹھ کر دوسرے مسالک کے خلاف بات کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے لیکن علما کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کی دین اور ملک کے لئے قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان نے تمام مسالک کے علما کو ایک پلیٹ فارم جمع کیا لیکن یہ اتحاد ملک دشمن طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا اور مولانا ڈاکٹر عادل کو شہید کر دیا گیا۔

مولانا ڈاکٹر عادل کی طرح علامہ خادم رضوی بھی مسلم اتحاد کے ضامن تھے۔ علامہ خادم رضوی اپنے جلسوں میں دیگر مسالک کو دعوت تو نہ دیتے لیکن نبی ﷺ کی ناموس اور عقیدہ ختم نبوت کی کی حفاظت کے لئے سب کو کہتے۔ علامہ کی وفات پر شیعہ، دیوبندی اور اہلحدیث مسالک کے علما نے بھی غم کا اظہار کیا اور ان کے جنازے میں شرکت کی۔ وہیں ایک محدود افراد پر مشتمل گروہ نے مولانا کی وفات کے بعد ان پر ملک دشمنی، امن دشمنی اور انتہا پسندی اور نا جانے کون کون سے لیبل لگا دیے۔

خود کو صحافی، سوشل ورکر اور دکھی انسانیت کے خدمت گار سمجھنے والے اس گروہ کے افراد میں سے ایک نے یہ تک کہہ دیا کہ علامہ کا جنازہ کسی جید عالم دین کا جنازہ نہیں تھا، ایک کا کہنا تھا کہ جنازوں میں لاکھوں افراد کی شرکت فیصلہ نہیں کرتی کون حق پر تھا یعنی جنازے میں شریک لاکھوں افراد جاہل اور بس وہی ایک اہل علم ہیں؟ موصوفہ نے آئین پاکستان کے خلاف قادیانی مذہب کو ایک مسلک قرار دے دیا اور قادیانی کے قتل کا ذمہ دار بھی علامہ کو اور ان کی تقاریر کو قرار دیا۔

کون جید عالم تھا کون نہیں، کون جنت میں گیا کون جہنم میں یہ فیصلہ اللہ نے کرنا ہے لہذا میں انہیں پر چھوڑ دیتا ہوں لیکن علامہ خادم رضوی تھے کون ناسمجھ افراد کو بتانا فرض ہے۔ خادم رضوی پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیپ میں موضع نکہ کلاں کے ایک زمیندار اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 22 جون 1966 کو پیدا ہونے والے خادم حسین رضوی نے پرائمری تک ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور اس کے بعد 80 کی دہائی میں لاہور منتقل ہو گئے۔

علامہ خادم رضوی کے والد کا نام لعل خان اعوان تھا، جن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ گاؤں سے ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور منتقل ہو گئے تھے، علامہ کے متعلق تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ بچپن سے ہی خوش مزاج اور دوسروں کی مدد کرنے والی شخصیت تھے جبکہ زمیندار گھرانے سے تعلق کے باوجود بھی غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ اب یہاں کوئی اہل علم یہ سوال کرے کہ خوش مزاجی نظر نہ آئی ان میں وہ ہمیشہ سخت الفاظ کا چناو کرتے تھے تو نبی کے گستاخوں کے لئے خوش مزاجی طبیعت میں آخر کیسے ہو سکتی ہے؟

جن موصوفہ نے ان کے جید عالم دین ہونے پر خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے علم میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ وہ کئی سال تک محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب رہے، جہان انہیں منفرد انداز بیان کی وجہ سے شہرت ملنا شروع ہوئی۔ انہوں نے مذہبی تعلیم و تدریس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور سے حاصل کی اور عالم کی ڈگری درس نظامی کی تکمیل کی۔

علامہ خادم رضوی مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی جمہوری طاقت بھی تھے 2017 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت تحریک لبیک نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔ اہم بات یہ ہے کہ علامہ کی جماعت نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کبھی دھاندلی کا رونا نہیں رویا، انہوں نے کبھی خود انتخاب لڑنے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا، ان کی جماعت کو کالعدم قرار دیا گیا اس عمل کے خلاف ان کے کارکنان کبھی میدان میں نہیں آئے جب بھی ان کو میدان میں دیکھا ختم نبوت کے دفاع میں دیکھا۔

انہیں کبھی زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے نہیں سنا ہمیشہ ”لبیک یا رسول اللہ“ کی صدا بلند کرتے سنا۔ کہنے والوں کے اپنے نظریات ہیں کوئی انہیں اچھا کہے گا کوئی ان کا مخالف بھی ہوگا لیکن یہ بات ماننا ہوگی کہ علامہ خادم رضوی ختم نبوت کے لئے ایک توانا آواز تھے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے اگر دو چار کا ٹولا اپنی شہرت کے لئے اسے سیکیولر بنانے کی کوشش کرے گا بھی تو ایسا کبھی ممکن نہ ہوگا۔ علامہ خادم رضوی اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، ان کا جانا ایک بڑا خلا ہے جس کا پر ہونا آسان نہیں لیکن عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کی جو پر امن تحریک حضرت عطا اللہ شاہ بخاری سے ہوتی ہوئی علامہ شاہ احمد نورانی، مفتی محمود اور ذوالفقار علی بھٹو تک آئی اور پھر علامہ خادم جیسی آواز نے اسے بلند کیا اس کی گونج کبھی ختم نہ ہوگی۔ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، حکومت پاکستان اور پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ہر طرح سے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بناتے آئے ہیں اور آگے بھی بناتے رہیں گے لیکن آئین پاکستان سے غداری اور رسول اللہ کے گستاخ ملک پاکستان میں قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).