کورونا ایک منافع بخش سیاسی ہتھیار



سوچئیے اگر کورونا کی وبا کے دوران عمران خان کے بجائے نواز شریف یا یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم ہوتے اور کورونا سے عوام کو بچانے کے لیے تین سو افراد سے زیادہ کے اجتماع اور جلسوں پر پابندی لگا دیتے تو کیا حزب اختلاف پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان عوامی مفاد عامہ میں حکومت کے خلاف اپنی عوامی رابطہ مہم وبا کے ٹلنے تک ترک کر دیتے؟

ایک فیصد امکان ہے کہ ہاں عمران خان کورونا کے سبب جلسوں جلوسوں کی سیاست وقتی طور پر حکومت وقت کے کہنے پر ملتوی کر دیتے مگر ننانوے فیصد امکان ہے کہ وہ آج کی پی ڈی ایم کی طرح کہتے کہ چونکہ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں لہذا وہ کورونا کی آڑ میں ہم پر سیاسی قدغن لگانا چاہتی ہے۔ گو نواز گو۔

آپ بھلے کسی بھی جینیاتی لیب سے چیک کروا لیں۔ عوام ہوں کہ اہل سیاست۔ ذہنی ڈی این اے ایک جیسا ہی نکلے گا۔ ہم گڑ بھی کھائیں گے مگر چینی کے مضر اثرات پر بھی بھاشن دیں گے۔ لہذا کسی بھی لفظ میں کوئی تاثیر اور کسی بھی حکم کے پیچھے کوئی اخلاقی قوت نافذہ باقی نہیں رہی۔ سب کے پاس اپنے کرتوتوں کے جواز کثیر ہیں مگر مثال بننے پر کوئی آمادہ نہیں۔

جب پاکستان میں فروری کے آخر میں کورونا کی پہلی لہر آئی تو سندھ حکومت نے مکمل لاک ڈاؤن میں پہل کی۔ مگر وفاق میں وزیر اعظم سے لے کر ان کے وزیروں مشیروں تک سب نے شور مچا دیا کہ مکمل لاک ڈاؤن ہم جیسے ملک کے لیے موزوں نہیں۔ غریب اگر کورونا سے نہیں مرا تو بھوک سے مر جائے گا۔

مگر پھر عقل کی عارضی جیت ہوئی اور وفاقی حکومت بھی لاک ڈاؤن اور پھر جزوی لاک ڈاؤن اور پھر سمارٹ لاک ڈاؤن کی افادیت پر قائل ہوتی چلی گئی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں دیگر علاقائی ممالک کی نسبت کورونا کے اثرات اور شرح اموات قابو میں رہی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ماڈل پر مسلسل عمل کیا جاتا تاکہ کورونا کی دوسری لہر سے بھی بہ احسن نمٹا جا سکتا۔ مگر جب حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم نے اکتوبر میں کورونا کی دوسری وبا کے آغاز کے باوجود جلسوں کی سیاست شروع کی تو حکومت نے اپنے ہی بنائے ہوئے ایس او پیز پر عمل کرنے کے بجائے اپنی سیاسی قوت دکھانے کا فیصلہ کیا۔

اسلام آباد کے کھچا کھچ بھرے کنونشن ہال میں وزیر اعظم نے یوتھ کنونشن سے خطاب کیا۔ سوات اور حافظ آباد میں جلسہ عام منعقد کیے گئے اور پھر گلگت بلتستان کی انتخابی مہم شروع ہو گئی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ اور پنجاب کے بعد کورونا نے سب سے زیادہ زور دکھایا ہے۔ مگر کیا حزب اقتدار کیا حزب اختلاف سب ہی جلسوں کی دوڑ میں کود پڑے۔

جیسے ہی انتخابی عمل مکمل ہوا تو وفاقی حکومت کو اچانک یاد آ گیا کہ ملک کورونا کی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہے اور وزیر اعظم نے پی ٹی آئی کی اجتماعی سیاسی سرگرمیوں کو ’رضاکارانہ‘ طور پر معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب کوئی بتائے کہ اس رضاکارانہ اعلان میں دیگر جماعتوں کے لیے مثال قائم کرنے کی کتنی قوت باقی رہی ہو گی۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی کورونا کی دوسری وبا سے نمٹنے کے لیے باقی صوبوں کی طرح ایس او پیز جاری کیے ۔ اس کے باوجود کراچی میں پی ڈی ایم کا جلسہ کثیر حلال قرار پایا۔ وزیر اعظم کے ایک منہ پھٹ مشیر کے اس ٹویٹ میں وزن تلاش کرنا آپ کا کام ہے کہ ایک جانب تو بختاور بھٹو کی منگنی کے دعوت نامے میں مہمانوں سے پیشگی کوویڈ ٹیسٹ کروانے کی استدعا کی گئی ہے دوسری جانب بلاول بھٹو بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔

اور پھر کوویڈ کی رہی سہی احتیاطی کثر لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ نے کر دی۔ یقیناً اس اجتماع کو روکنا ناممکن تھا مگر کیا حکومت پنجاب نے جھوٹے منہ ہی سہی جنازے کے منتظمین سے اپیل کی کہ کوویڈ سے عام لوگوں کو بچانے کے لئے اپنے حامیوں سے کم ازکم ماسک پہن کر شرکت کرنے کی ہی درخواست کر دیں۔

یہ حال صرف پاکستان کا ہی نہیں۔ سرحد پار بھارت میں ریاست بہار کے حالیہ انتخابات میں وزیر اعظم مودی سمیت ہر پارٹی کے رہنما نے لاکھوں کے جلسوں سے دیوانہ وار خطاب کیا حالانکہ امریکہ کے بعد بھارت کورونا سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ خود ٹرمپ نے دنیا کے سب سے زیادہ متاثر ملک میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرنا آخری وقت تک ترک نہ کیا۔

مطلب یہ ہوا کہ ہر جگہ عام آدمی وہ خام مال ہے جو سیاسی مصنوعات بنانے اور چمکانے کے کام آتا ہے۔ فرق ہے تو بس اتنا کہ ہم جیسے ممالک میں عام آدمی ٹکے ٹوکرا کے حساب سے دستیاب ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں ایک ڈالر کا ایک ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).