’شمیم اختر ایک سیدھی سادی، عبادت گزار گھریلو خاتون تھیں‘


میں نے والدہ محترمہ کی صبح سے زیارت نہیں کی، بس دس منٹ دیجئے، عطا صاحب'۔

میاں شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن والے گھر میں معزز صحافی کا خیر مقدم کیا اور ان سے کچھ مہلت طلب کی۔ عطا الرحمن کہتے ہیں، یہ کوئی دکھاوا نہیں، شہباز شریف کا معمول اور اپنی والدہ سے تعلق ایسا ہی تھا۔ والدہ سے ملاقات اور ان کی دعاؤں کے حصول کے لیے شہباز شریف ہی نہیں میاں نواز شریف اور عباس شریف (جن کی وفات ہو چکی ہے) بھی اسی طرح بے چین رہا کرتے تھے۔

جن لوگوں کو محترمہ شمیم اختر سے ملاقات کے مواقع ملے، کسی محفل میں انھیں دیکھا یا کوئی گفتگو سنی، ان کا خیال ہے کہ وہ ایک سیدھی سادی، عبادت گزار گھریلو خاتون تھیں جن کا کسی سیاسی سرگرمی یا دنیا داری کے کسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا، سوائے اس کے کہ جو کوئی بھی ان کے سامنے آتا اور احترام سے جھک کر انھیں سلام کرتا، وہ اپنے نرم مہربان لہجے میں انھیں دیر تک دعائیں دیا کرتیں۔

1999 میں جنرل مشرف کے فوجی انقلاب کے وقت سب سے پہلے سڑکوں پر نکل کر صدائے احتجاج بلند کرنے والے مشاہد اللہ خان کہتے ہیں، ‘مجھے وہ بالکل نہیں جانتی تھیں، ذاتی حیثیت میں نہ سیاسی حیثیت میں لیکن پہلی بار جب ان سے میرا سامنا ہوا اور میں نے انھیں سلام کیا تو ماں کی گرم آغوش کی یاد تازہ ہو گئی، اپنے پوپلے منہ سے وہ تادیر مجھے دعائیں دیتی رہیں، بالکل مشرقی ماؤں کی طرح جو اپنے اور ہمسائی کے بچوں میں کبھی فرق نہیں کر پاتیں’۔

محترمہ شمیم اختر کے بارے میں مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے بیشتر راہ نماؤں کے خیالات کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے لیکن شریف خاندان سے گہرا تعلق اور اس کے مزاج سے آگاہی رکھنے والے بزرگ صحافی مجید نظامی کی معلومات اس بارے میں مختلف ہیں۔

مجید نظامی سے لاہور کے ایک اخبار کے ایڈیٹر عطا الرحمن کی قربت بہت گہری رہی ہے۔ ان کے بقول نظامی صاحب کہا کرتے تھے کہ محترمہ شمیم اختر کوئی معمولی خاتون نہ تھیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ شریف برادران کی پرورش اور تربیت میں ان کے والد میاں محمد شریف کی آہنی شخصیت اور مزاج کا حصہ بہت زیادہ ہے، یہ تاثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں لیکن نظامی صاحب کے خیال میں ان کی والدہ کا حصہ کہیں زیادہ ہے، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ شمیم اختر کی شخصیت کا ایک پہلو تو وفادار اور پروقار خاتون خانہ کا تھا لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ وہ ایک روحانی خاتون بھی تھیں۔

یہی وجہ تھی کہ میاں صاحبان، خصوصاً نواز شریف اپنے ہر فیصلے سے قبل ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنے منصوبوں، فیصلوں اور سیاسی مہم جوئی کے ارادوں سے انھیں سب سے پہلے آگاہ کرتے اور ان کی اجازت کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے۔

‘میاں نواز شریف کی کامیابی میں ان کی والدہ کی سرپرستی اور راہ نمائی کا کردار سب سے زیادہ ہے’۔ مجید نظامی اکثر کہا کرتے۔

سیاسی حریف اور شریف خاندان کی سیاست کے نقاد یہ کہتے اکثر پائے جاتے ہیں کہ یہ کاروباری لوگ سیاست کو کیا جانیں؟ لیکن روزنامہ ‘پاکستان’ کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی مختلف کہانی سناتے ہیں۔

یہ 1999 کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، نواز شریف اور خاندان کے دیگر افراد ابھی تک مختلف جیلوں میں بند تھے جب کہ ان کے والد میاں محمد شریف کی نظر بندی چند روز پہلے ہی ختم کی گئی تھی۔

مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے اعجاز الحق ان دنوں فوجی حکومت اور شریف خاندان میں بیچ بچاؤ کرانے کے لیے متحرک ہوئے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے شامی صاحب سے رابطہ کر کے میاں محمد شریف تک رسائی کی کوشش کی۔ مجیب الرحمن شامی نے یہ درخواست ان تک پہنچائی تو انھوں نے اگلے روز ناشتے پر انھیں اس شرط پر مدعو کرلیا کہ ملاقات میں اعجاز الحق کے علاوہ خود مجیب الرحمن شامی اور لاہور کے ایک مؤثر دینی مدرسے کے مہتمم مولانا عبدالرحمن اشرفی بھی موجود ہوں، اس موقع پر شامی صاحب کے صاحبزادے اور روزنامہ ‘پاکستان’ کے ایڈیٹر عمر مجیب شامی بھی موجود تھے۔

قید و بند کی کیفیت سے گزرنے والے خاندان میں بے ترتیبی، ذہنی دباؤ اور جھنجھلاہٹ ایک معمول کی بات ہے، میاں محمد شریف سے ملنے کے لیے جانے والے اس وفد کے سامنے اگر اس کے کچھ مظاہر آجاتے تو ان کے لیے حیرت کی کوئی بات نہ ہوتی۔

مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ میاں شریف اپنے والوں سے عام طور پر ناشتے کی میز پر ملاقات کیا کرتے تھے جو ان کی اہلیہ شمیم اختر کے حسن انتظام اور سیلقہ شعاری کی تصویر پیش کیا کرتا۔ اس میز پرنان کلچے، چکڑ چھولے اور حلوہ پوری سمیت وہ تمام اجزا موجود ہوتے کو لاہوری ناشتے کی پہچان ہیں۔ میاں شریف کے مہمانوں نے نظر بندی کے خاتمے سے اگلے روز بھی اس انتظام میں کوئی کمی نہ پائی۔ اس خاندان کے مضوط اعصاب کی ایک گواہی تو اس منظر سے سامنے آتی ہے لیکن ناشتے کی اس میز پر ہونے والے گفتگو ایک اور ہی منظر سامنے آیا۔

اعجاز الحق نے مفاہمت کے سلسلے میں اپنی تجاویز پیش کیں جب کہ مولانا عبدالرحمن اشرفی نے ان تجاویز کے حق میں دینی دلائل کے ساتھ حکمت اور مصلحت کی اہمیت واضح کی۔شامی صاحب کے مطابق میاں شریف اطمینان کے ساتھ یہ باتیں سنتے رہے جب یہ لوگ خاموش ہوئے تو انھوں نے بڑے مضبوط لہجے میں ایک ہی بات کہی:

’انعام جتنا بڑا ہوتا ہے، اللہ کی طرف سے آزمایش بھی اتنی ہی بڑی آتی ہے جو کوئی آزمائش پر پورا نہیں اتر سکتا، وہ شکر گزاری کا حق ادا نہیں کرسکتا۔‘

مجید نظامی تک جب یہ مکالمہ پہنچا تو انھوں نے کہا کہ بے شک یہ جملہ میاں محمد شریف کی زبان سے ادا ہوا ہے لیکن یہ مزاج ان کی اہلیہ کا ہے، انھوں نے ہی ابتلا کے ان دنوں میں یہ بات اپنے خاندان کے لوگوں میں راسخ کی ہوگی۔ مجیب الرحمن شامی اس کی تائید اس طرح کرتے ہیں کہ آسائشوں کے عادی اس خاندان پر 1999 کے بعد پے درپے مصیبتیں آئیں، یہ لوگ صرف اقتدار سے محروم نہیں ہوئے،جیلوں میں نہیں بھیجے گئے بلکہ ان موقع پر میاں شریف، عباس شریف اور کلثوم نواز کی وفات جیسی آزمائشیں بھی آئیں لیکن ان تمام مراحل پر کسی روایتی عورت کی طرح وہ اپنے شوہر بیٹوں کے لیے کمزوری کا باعث نہیں بنیں بلکہ چٹان کی طرح ان کی پشت پر کھڑی ہوگئیں۔ اپنے اس کردار کے لیے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تادیر یاد رکھی جائیں گی۔

کچھ عرصہ قبل جب جیل میں میاں نواز شریف علیل ہو گئے اور انھیں ملک سے باہر بھیجنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں تو عطا الرحمن کے مطابق اس موقع پر انھوں نے کہا کہ وہ باہر نہیں جائیں گے بلکہ اپنی سرزمین پر جیل میں ہی مرناپسند کریں گے۔ وہ شریف خاندان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس مرحلے پر بعض فوجی حکام نے ان کی والدہ سے ہی رابطہ کر کے درخواست کی تھی کہ ان کی بیٹے کی صحت خراب ہے، اگر مزید بگڑ گئی تو اس سے بہت پیچیدگی پیدا ہو جائے گی، اس سے لیے آپ انھیں بیرون ملک بھیجنے کے لیے قائل کریں۔

یہ بحران بھی شمیم اختر مرحومہ کے متحرک ہونے سے ٹلا تھا، اس طرح اس دنیا سے جاتے جاتے بھی خالص گھریلو خاتون ہوتے ہوئے بھی قومی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp