سکول اور کورونا کی دوسری لہر: وبا کے باعث طلبا کا تعلیمی سال ضائع ہو گیا تو کیا ہوگا، والدین کے خدشات کیا ہیں


سکولز
آن لائن تعلیم دیہاتوں میں ممکن نہیں اس لیے ایک تجویز ہے کہ بچوں کو کھلے میدانوں میں دو میٹر کے فاصلے پر بٹھایا جائے
’میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے سکول جائیں اور وہاں پر انھیں کورونا ہو جائے۔ اس لیے میں حکومت سے چھٹیوں کی اپیل کرتا ہوں۔‘

یہ کہنا تھا عاقب ملک کا جو پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث فکر مند ہیں۔ بچوں کو سکول بھیجتے رہنے کا فیصلہ یا گھروں پر رہ کر آن لائن تعلیم پھر سے ہر گھر میں موضوع بحث ہے۔ امکان ہے کہ حکومت جلد ہی سکولوں کو پھر سے بند کر کے چھٹیوں کا اعلان کرنے والی ہے۔

ایسے میں بیشتر والدین کا کہنا ہے کہ پہلے ہی پڑھائی کا اتنا حرج ہو چکا ہے کہ انھیں خطرہ ہے کہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع ہو جائے گا اور پاکستان جیسے ملک میں جہاں شرح تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کے سکول جانے کا رجحان بھی کافی کم ہے، بچے سکول کی عادت ہی نہ بھلا دیں۔

سکول نہ جانے سے نقصان کیا ہوگا؟

والدین کو خدشہ ہے کہ بچوں میں تعلیم کے لیے رغبت ختم ہو جائے گی۔ بچوں کے سکول نہ جانے پر پریشان والدین میں سے ایک اسلام خان بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’مطلب ھر سال سردیوں میں فلو کی وجہ سے سکول بند اور گرمیوں میں گرمی کی وجہ سے سکول بند؟ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ وائرس ختم ہو جائے گا؟ تو کیا تعلیم دینا بند کر دیں۔ بند کرنا حل نہیں بلکہ اس کے ساتھ جینا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’دو گھنٹے کے سکول سے زیادہ مجھے اپنے بچے کی جان عزیز ہے‘

پاکستان میں سکول کھلنے پر کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی؟

بورڈ امتحانات منسوخ: ’کیا یونیورسٹی طلبا کورونا وائرس سے محفوظ ہیں؟‘

فیصل اظہر بھی اس سے متفق ہیں اور تعلیمی اداروں کی بندش کو مسئلے کا حل نہیں سمجھتے ’پہلے ہی چھٹیاں بہت ہو چکی ہیں اس لیے جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جا رہا وہاں انتظامیہ کو جواب دہ بنایا جائے، جرمانے کیے جائیں، گرفتار کیا جائے یا کوئی بھی سزا دی جائے۔‘

سکول

کچھ والدین کا کہنا ہے کہ جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جا رہا وہاں انتظامیہ کو جواب دہ بنایا جائے

واصف اقبال کی نظر میں بچوں کے مستقبل کے تناظر میں صورتحال اتنی سادہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سکول سے بہتر کوئی بھی تعلیم نہیں دے سکتا ہے۔ آج اگر سکول بند ہو جاتے ہیں تو ایک نہیں دو تعلیمی سال ضائع ہو جائیں گے۔ والدین کسی بھی صورت میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن جب تعلیمی عمل پوری طرح تباہ ہو جائے گا یہ ہاتھ مل مل کر روئیں گے۔‘

کیا والدین کے یہ خدشات صحیح ہیں؟ بچے اگر زیادہ دنوں تک سکول نہیں جاتے تو ان پر کیا اثر پڑے گا؟ یہی سوال میں نے ادارہ تعلیم و آگہی کی سربراہ بیلا جمیل سے کیا، ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بچے کسی بھی جماعت میں ہوں ان کی سیکھنے کی صلاحتیوں پر اس تعطل سے فرق تو پڑے گا۔

وہ کہتی ہیں ’یہ بالکل غلط تصور ہے کہ پرائمری اور مڈل پر تعلیمی سلسلہ رک جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مرحلے تو بچوں کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مفروضہ رکھنا کے بورڈ کے امتحان اصل امتحان ہوتے ہیں غلط ہے۔ بچے بورڈ کے امتحانات بھی تبھی اچھے دے پائیں گے جب ان کی بنیاد اچھی ہو گی۔ ‘

موجودہ حالات کے پیش نظر آن لائن کلاسز کے ممکنہ متبادل کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں براہ راست ڈیجیٹل لرننگ صرف دس لاکھ بچوں تک ہے جبکہ ڈھائی کروڑ سے زائد بچے کسی نہ کسی توسط سے اس سہولت کا استعمال کر پاتے ہیں۔ اس کے لیے بھی بچے انھیں یہ سہولت دینے والوں کے محتاج ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ان حالات میں بچوں پر سلیبس کور کرنے اور امتحانات دینے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جانا چاہیے کیونکہ اس سے بچوں میں ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے مطابق ’ اس وقت 35 سے 40 فیصد بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور ان کا کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا۔‘

ماہر تعلیم اور بیکن ہاؤس سکول سسٹم کے ساتھ منسلک فاریہ یوسف کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے بھی میرے بچے کی صحت سب سے اہم ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ وقت ضائع جائے گا۔ کیونکہ ہم بچوں کو ہنر سیکھنے کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ان سے بڑی بڑی چیزیں کروائیں، ان کی مدد سے گھر کا بجٹ بنوایا جا سکتا ہے، گھر کے کام سکھائے جا سکتے ہیں انھیں بہن بھائیوں کو پڑھانے میں مصروف کیا جا سکتا ہے۔‘

سکولز

کچھ والدین کی نظر میں سکول سے بہتر کوئی بھی تعلیم نہیں دے سکتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ بچوں کی سیکھنے کی صلاحیتوں پر کسی حد تک فرق ضرور پڑے گا لیکن اگر اساتذہ بچوں کے ساتھ رابطے میں رہیں جیسے کے آج کل آن لائن تعلیم کی وجہ سے ہو رہا ہے کسی نہ کسی شکل میں تو اس سے کلاس روم سے زیادہ ربط بڑھ رہا ہے۔ اور طلبہ اور اساتذہ میں دوستی ہو گئی ہے۔‘

ماہر تعلیم بیلا جمیل اس بات سے تو اتفاق کرتی ہیں کہ ’اس تعطل سے بچے کی سیکھنے کی صلاحیت کسی حد تک تو خسارے میں جائے گی تاہم والدین اور بڑے بہن بھائیوں نے اس لاک ڈاؤن کے دوران بچوں کے ساتھ بہت تعاون کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے 85 فیصد دیہاتوں میں فون کی سہولت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ چاہے وہ ایس ایم کے ذریعے ہو یا واٹس ایپ کی مدد سے، حتیٰ کے محلے میں واٹس ایپ کی سہولت سے بچوں نے سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔

کیا بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا؟

ایسے بچے جو اس تعلیمی سال میں پوری روح سے علم کا حصول ممکن نہیں بنا پائے یا جو سکول جانا ترک بیٹھے ہیں ان کا مستقبل کس قدر خطرے میں ہے اس حوالے سے بیلا جمیل کا کہنا تھا ’یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ جو بچہ ایک سال کسی بھی وجہ سے تعلیمی سلسلے جاری نہیں رکھ پایا وہ اس خلا کو پر نہیں کر پائے گا اس مفروضہ میں کوئی وزن نہیں ہے۔ ‘

انھوں نے اپنے ایک تعلیمی پروگرام ’سیکنڈ چانس‘ یعنی دوسرا موقع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کے دوران ایسے بچے جو تین سال سے سکول چھوڑ چکے تھے انھوں نے ڈیڑھ سال میں تین جماعتیں پڑھیں۔‘

کورونا وائرس

فاریہ یوسف بھی ان سے اتفاق کرتی ہیں کہ بچوں کو ایک یا دو سال کے لیے اگر سکول سے ہٹا بھی لیا جائے تو اس سے ان کا مستقبل خطرے میں ہرگز نہیں پڑتا کیونکہ پاکستان میں دینی تعلیم کے لیے اکثر والدین ایسا پہلے سے ہی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کا تعلیمی سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے، اگرچہ گریڈز نہیں آ رہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’اس جز وقتی تعطل سے بچوں کی تعلیم متاثر ضرور ہو گی لیکن یہ ان کا مستبقل تباہ کرنے کا سبب ہرگز نہیں بنے گا۔‘

نصاب اور نظام تعلیم میں تبدیلی

سوشل میڈیا پر مباحثے کے دوران والدین کی جانب سے تعلیمی نظام اور طریقہ کار بدلنے کی تجاویز بھی آئیں جن میں سے ایک میں کہا گیا کہ ’سکولوں کو اوپن یونیورسٹی کی طرز پر اپنے کورسز کو ڈیزائن کرنا چاہیے۔‘

جنید اقبال بھی اسی خیال سے متفق ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں سکول بند۔ نہیں ہونے چاہیں کیونکہ یہی بچے گھر میں کونسا احتیاطی تدابیر اپنائیں گے۔ جبکہ سمارٹ لاک ڈاؤن والی پالیسی کار گر ہے۔ اور اگر حالت زیادہ خراب ہو رہے ہو تو ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ حکومت نے ٹیلی سکول بھی قائم کیا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لیکچرز اور اسائنمنٹ کا کام ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہ ایک نئے ماڈل کو ٹیسٹ کرنے کا اور ڈیجیٹلائیزیشن کی طرف جانے کا ایک نادر موقع ہے۔‘

ماہرِ تعلیم بیلا جمیل کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال دنیا بھر کو در پیش ہے۔ ’ہم جو ماہر تعلیم ہیں یا جو ہم تعلیم کے علمبردار بنتے ہیں ہمیں سیکھنا پڑے گا کہ اس ایک سال میں بچوں کا جو تعلیمی حرج ہوا ہے، یا بچوں کے تصورات جو کمزور پڑ گئے ہیں اس کے لیے ہم کیا کیا کر سکتے ہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پوری دنیا میں تعلیم سے متعلق افراد کے لیے وقت ہے کہ وہ اکھٹے ہو جائیں۔‘

بیلا جمیل کا کہنا ہے کہ نصاب کے معاملے میں چنیدہ مضامین اور ابواب کا انتخاب کیا جانا ضروری ہے۔ تاہم انھوں نے صوبوں میں پہلے سے کم کیے جانے والے نصاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بھی سب سے مشکل اسباق کو شامل کر لیا گیا۔

انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح سلیبس کم نہیں ہوتا۔ اس میں ذہانت کا استعمال ضروری ہے۔ اس میں آسان اور مشکل چیزوں کا تناسب رکھا جاتا ہے۔ جس میں ماضی اور مستقبل میں ایک ربط قائم رکھا جاتا ہے۔ ‘

دوسری جانب فاریہ یوسف کا کہنا ہے کہ بچوں کے نصاب میں تبدیلیاں اس وقت ناگزیر ہیں اس میں مدد کے لیے ٹیلی وژن کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے پروگرام نشر ہونے چاہیے جن میں سائنس، ریاضی پر گفتگو ہو اور سوال حل کیے جائیں۔ اور والدین جتنے چاہے غریب ہوں ان کے گھر میں کسی نہ کسی طور ٹیلی وژن ضرور ہوتا ہے۔ یا ایف ایم ریڈیو کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کا کسی بھی چیز کے لیے توجہ کا دورانیہ اب چھ منٹ سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اس لیے نصاب ترتیب دینے والوں کو سوچنا ہو گا کہ مضامین کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ بچوں کو مطالعے کی عادت ہونی چاہیے وہ مطالعہ کرے گا تو سلیبس کور کر لے گا۔`

سکولز

محمد علی طیب کا خیال ہے بچوں کے لیے ایس او پیز کا خیال رکھنا ممکن نہیں ہے

والدین کے خدشات اور ان کے ممکنہ حل

کئی والدین کے لیے گھر اور دفتر کے کام کے ساتھ ساتھ بچوں کو پڑھانا ایک مسئلہ ہے تو کئی کے خیال میں تحفظ زیادہ ضروری ہے۔ ہم نے والدین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بچوں کو سکول بھیجنے سے متعلق ان کے کیا خدشات ہیں اور کیا اس کا کوئی حل نکل پایا؟ سوشل میڈیا پر صارفین کی رائے منقسم نظر آتی ہے۔

آن لائن تعلیم

اگر سکولز بند ہوتے ہیں تو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے والدین اور سکولز کے پاس کیا راستے ہیں یہ تو شاید لاک ڈاؤن کے پہلے دور میں کسی حد تک واضح ہو چکا ہے۔ شہری اور کسی حد تک دیہی آبادی میں بھی آن لائن تعلیم کے ذریعے یہ سلسلہ جاری رکھا گیا۔ تاہم کئی والدین کے لیے اس وقت اور طویل المدتی قابل عمل طریقہ نہیں ہے۔

مرسلین حسن کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں آن لائن ایجوکیشن کے کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ،نہ ٹیچرز کا تجربہ ہے نہ سٹوڈنٹس کا اور نہ ڈیویلپ سٹیٹ ہے کہ ہر سٹوڈنٹ کو فیسیلیٹیٹ کرسکے، ممکن بھی نہیں ہے لیکن مسئلہ وبا کے دوران سب کو چاہیے کہ کچھ مہینوں کے لیے آرام سے گھروں میں رہیں، صرف ایجوکیشن مسئلہ نہیں سیاسی جماعتوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے ،بازاروں پر ،شادی ہالز پر اجتماعات پر تاکہ محفوظ رہے۔‘

کھلے میدانوں میں کلاسز کا اہتمام

جاوید اسکانی کی نظر میں آن لائن تعلیم بڑے شہروں میں تو ممکن ہے لیکن دیہاتوں اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں ممکن نہیں انھوں نے تجویز دی ہے کہ ابھی سردی کے موسم میں بچوں کو کھلے میدانوں میں دو میٹر کے فاصلے پر بٹھایا جائے۔ ’ایک اچھی تدبیر ہے۔ یعنی سکولوں کے باہر کمرے میں نہیں۔ پڑھائی جاری رکھنے چاہیے ۔تعلیمی ادارے بند نہیں کرنا چاہیے۔ یہ طلبہ کے لیے نقصان ہے اور تو اور ھمارے مکران میں آن لائن پڑھائی نہیں ہو سکتی انٹرنیٹ دس سالوں سے بند ہے۔‘

گرما کی تعطیلات کے طرز پر کام

محمد ندیم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں آن لائن پڑھائی کا نظام پسند نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں ’پچھلے 6 مہینے کے تلخ تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے حوالے سے آن لائن تعلیم محض ایک خام خیالی ہے۔ یہ بچے تو سکول میں اساتذہ کی موجودگی میں بمشکل تعلیم پر آمادہ ہوتے ہیں۔ چہ جائکہ آن لائن۔ زیادہ تر بچوں نے اس بہانے والدین سے موبائل فون ہتھیا لیے ہیں اور کلاسز کے دوران وہ ویڈیو گیمز اور ویڈیوز انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔ والدین کا مخمصہ یہ ہے کہ یہ سب جانتے ہوئے بھی آن لائن کلاسز کے نام پر بچوں کو موبائل اور نیٹ مہیا کرنے پر مجبور ہیں۔ میرے خیال میں سکولوں کو 2 مہینوں کے لیے بند کرکے ہوم ورک دیا جائے۔‘

سکولز

والدین کہتے ہیں کہ 6 مہینے کے تلخ تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے حوالے سے آن لائن تعلیم محض ایک خام خیالی ہے

آن لائن تعلیم کے معیار پر شبہات

ثاقب احمد کی نظر میں بھی آن لائن تعلیم ایک معیاری نظام تعلیم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا ’پاکستان میں آن لائن تعلیم یونیورسٹی لیول پر معیاری نہیں ہے تو سکولوں میں کیسے آن لائن ممکن ہے؟؟ خاص کر پرائمری لیول پر آن لائن نا ممکن سے بات ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے اور سکول بند نہ کیے جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں ایک پرائمری سکول میں استاد ہوں، بہت مشکل سے بچے پڑھائی کی طرف راغب ہوئے ہیں، امیر طبقہ تو پر بھی بچوں کے لیے ٹیوشن کا بندوبست کر سکتا ہے، نچلے اور درمیانے طبقے کہ بچے بالکل ایسے ہو جائیں گے جیسے سکول گئے ہی نہ ہوں۔‘

تعلیمی سال کی مدت میں اضافہ

عظمی بتول کے پاس ایک اور حل ہے وہ کہتی ہیں ’میرے خیال میں بچوں کا تعلیمی سال بڑھا کر اگست تک لے جائیں تاکہ وقت مل سکے اور چھٹیاں دے دی جائیں کیوں کہ آن لائن کلاسز بالکل کامیاب نہیں رہیں بچوں کو بہت سی الجھنیں پریشان کر رہی ہیں اور اسا تذہ بھی بہت الجھن کا شکار ہیں کورس بار بار ریوائز ہو رہا ہے اور سوائے الجھن کے کچھ نہیں ملا، والدین پک اینڈ ڈراپ،سکول فیس اور ٹیوشن اکیڈمیز کی فیسیں بھر بھر کے بیزارہو رہے ہیں۔‘

طلبہ کی گروپس کی شکل میں کلاسز

محمد علی طیب کا خیال ہے بچوں کے لیے ایس او پیز کا خیال رکھنا ممکن نہیں ہے اس لیے اگر سکول کھلے رکھنا ناگزیر ہے کو موجود تعداد کو گروپوں میں تقسیم کرنے لیے پندرہ پندرہ دنوں کے لیے بچوں کو بلایا جائے۔

سکولوں میں بھی سمارٹ لاک ڈاؤن

منتظر احمد کی نظر میں سب سکولوں کو بند کیے جانے کے بجائے سکولوں کے لیے بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کا لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی زیادہ بہتر ہے۔ جن علاقوں میں کورونا وائرس نہ ہو یا بہت کم ہو ان علاقوں میں سکول، کالج کھلنے چاہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp