فرانس پر تنقید سے داخلی مسائل حل نہیں ہوں گے


پشاور میں پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے جلسہ میں دو باتیں سامنے آئی ہیں۔ ایک: اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن فوج کا دفاعی ادارے کے طور پر احترام کرتی ہے لیکن اسے سیاسی مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔ ان کا پیغام تھا کہ ’ اگر فوج سیاست میں مداخلت کرے گی تو تنقید بھی ہوگی اور نام بھی لئے جائیں گے‘۔ دوئم: پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوری تک تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوجائے گی۔

پاکستانی سیاست کے ان دونوں پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس دوران فرانس سے آنے والی ایک خبر پر وزیر برائے انسانی حقوق کی ٹوئٹ اور پھر فرانس کے احتجاج پر اسے حذف کرنے کا معاملہ بھی توجہ چاہتا ہے۔ شیریں  مزاری نے اپنی ٹوئٹ میں کسی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ فرانسیسی حکومت مسلمانوں کو ویسے ہی شناختی علامت پہننے پر مجبور کرنا چاہتی ہے جیسے نازی دور میں یہودیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔ پیرس میں مسلمان رہنماؤں کے ساتھ صدر میکرون کی ملاقات کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں میں فرانسیسی حکومت کے مطالبات سامنے آئے تھے۔ صدر میکرون نے  فرانس کے مسلمان رہنماؤں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وزارت داخلہ کے ساتھ مل کر جمہوری چارٹر پر اتفاق کریں جس کے بنیادی نکات میں سیاسی اسلام کو مسترد کرنا اور بیرونی امداد لینے سے  انکار شامل ہے۔

صدر میکرون کی حکومت اپنے ملک میں آباد مسلمانوں سے جو بات منوانا چاہتی ہے اس کا بنیادی نکتہ یہ تسلیم کروانا ہے کہ اسلام کو مذہب کہا جائے ، اسے سیاسی تحریک کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔ تاکہ فرانس میں نوجوان مسلمانوں کو انتہاپسندی کی طرف مائل ہونے سے روکا جاسکے۔ فرانسیسی صدر کی طرف سے مسلمانوں پر دباؤ کی کوششوں کا آغاز گزشتہ ماہ پیرس میں ایک  استاد کے بہیمانہ قتل کے بعد ہؤا ہے۔ اس استاد کو تدریس کے دوران گستاخانہ خاکے دکھانے پر ایک نوجوان نے سر قلم کرکے ہلاک کردیا تھا۔ فرانس میں مقتول استاد کو قومی ہیرو کا درجہ دیتے ہوئے اسے ملک کا سب سے بڑا سول اعزا دیاگیا تھا۔ صدر میکرون کا مؤقف تھا کہ ’آزادی رائے جس میں مذہب کی توہین کو اہمیت حاصل ہے، فرانسیسی تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے اور اس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی‘۔ صدر میکرون کی باتوں اور تبصروں کو پاکستان سمیت متعدد مسلمان ملکوں میں مسترد کیا گیا تھا اور اسے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم کہا جارہا تھا۔ اسلامی دنیا میں گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ تشہیر پر سخت احتجاج بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ مبصرین اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتے رہے ہیں کہ فرانسیسی صدر ملک کے نسل پرست قوم پرستوں کی مقبولیت سے بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں، اس لئے وہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرکے آئندہ صدارتی انتخاب کے لئے اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔

فرانسیسی حکومت نے ملک میں ایک نیا قانون لانے کا اعلان کیا ہے۔ مسلمان لیڈروں سے صدر میکرون کی ملاقات بھی اسی قانون کے حوالے سے تھی۔ اس میں مسلمان بچوں کو مقامی اسکولوں میں بھیجنے کی نگرانی کے طریقہ کار کی بات کی گئی ہے۔ اس بارے میں چونکہ تفصیلات موجود نہیں ہیں اس لئے عام طور سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے کہ فرانس میں مسلمان بچوں کو شناختی نمبر دیا جائے گا جبکہ باقی بچوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس تجویز کو بعض مسلمان مبصرین کی جانب سے نازی جرمنی میں یہودی بچوں کو امتیازی نشا ن دینے کے مترادف قرار دیا جارہا ہے۔ شیریں مزاری نے بھی اپنے ٹوئٹ میں اسی پہلو کا حوالہ دیا تھا جس پر فرانسیسی وزارت خارجہ نے شدید احتجاج کیا۔ تجویز یا اس پر تنقید میں استعمال کئے گئے الفاظ سے قطع نظر معاشرے کے کسی بھی گروہ کو عام لوگوں سے ممیز کرنا جمہوریت اور مساوات کے  بنیادی اصولوں سے متصادم ہے جس کی کسی صورت میں توثیق نہیں کی جاسکتی۔ اس قسم کے فیصلہ سے ایک خاص گروہ ، عقیدہ یا تہذیب کے خلاف تعصب اور نفرت میں اضافہ ہوگا۔

تاہم فرانسیسی حکومت کی طرف سے ملک میں آباد مسلمانوں سے جس بنیادی اصول پر اتفاق کا مطالبہ کیا گیا ہے، وہ ایک ایسا اصول ہے جس پر مسلمانان عالم اور ان کی حکومتوں کو بھی دو ٹوک مؤقف اختیار کرنا پڑے گا۔ یعنی یہ طے کرنا ہوگا کہ اسلام عقیدہ ہے یا ایک سیاسی نظریہ ۔ یعنی اگر کوئی شخص مسلمان ہے تو کیا وہ ازخود کسی ایسے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کا پابند ہوجاتا ہے جس کے خد و خال کے بارے میں نہ تو عام مسلمانوں کو آگہی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں اجماع پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض گروہوں نے اسلام کی تشریح کرتے ہوئے نہ صرف دہشت گردی کو جائز ہتھکنڈا قرار دیا بلکہ اسے غیر مسلح لوگوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کا طریقہ بھی متعارف کروایا۔ اس پس منظر میں دہشت گرد گروہوں کے حملوں سے تنگ آیا ہؤا کوئی بھی ملک یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ اسلام عقیدہ ہے یا کوئی ایسی سیاسی تحریک ہے جس میں قتل و غارت گری جائز ہوتی ہے۔

مسلمان لیڈراور حکومتیں ایک طرف اس سوال پر غور کرنے میں ناکام ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی کو مسترد بھی کرتی ہیں۔ فرانس میں حالیہ حملوں کے بعد پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں کی طرف سے اسلامو فوبیا کے اندیشے اور گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے آزادی رائے کی نئی تشریح پر زور دینے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن کسی طرف سے ایک استاد کے قتل یا عام شہریوں پر حملوں کی دو ٹوک مذمت سامنے نہیں آئی۔ تشدد کے واقعات کو نظرانداز کرنے سے غیر مسلم دنیا میں یہ اندیشہ اور خوف پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان زور زبردستی سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔ پاکستان سمیت مسلمان ملکوں میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے کے طرز عمل سے بھی اس منفی تاثر کو تقویت ملتی ہے۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے گستاخانہ خاکوں پر احتجاج کرنے کے لئے فرانس سے پاکستانی سفیر واپس بلانے کی قرار داد منظور کی تھی حالانکہ فرانس میں اس وقت پاکستان کا سفیر ہی تعینات نہیں ۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے تحریک لبیک کے ساتھ حکومت نے ایک معاہدہ پر اتفاق کیا ہے جس میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ تین ماہ کے اندر اسلام آباد سے فرانس کا سفیر نکال دیا جائے گا اور سرکاری سطح پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

تصویر کا یہ رخ سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی حکومت اور اس کے ارکان پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاکہ مقامی سیاسی ضرورتیں پوری کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات متاثر نہ ہوں۔ شیریں مزاری نے ایک غیر واضح تجویز اور فرانس کی داخلی حکمت عملی کے حوالے سے بعض فیصلوں پر غیر مصدقہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹوئٹ کرنا ضروری سمجھا۔ اسی لئے انہیں اس بیان کو حذف کرنے کی خفت بھی اٹھانا پڑی اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کے حوالے سے بھی غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی۔

حکومت اس وقت داخلی طور پر شدید سیاسی دباؤ کا شکار ہے اور ملک میں مذہبی انتہاپسندی کا یہ عالم ہے کہ احمدی باشندوں کا قتل معمول بن چکا ہے لیکن سرکاری ادارے اور سیاسی حکومت اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکی۔ ایسے میں وفاقی وزیر یا وزیراعظم جب فرانس کو مذہبی رواداری کا سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں تو مضحکہ خیز صورت پیدا ہوتی ہے۔ جو حکومت اپنے ملک میں اقلیتوں کی حفاظت سے معذور ہو ، وہ کسی دوسرے ملک میں مسلمان اقلیت کی وکیل کیسے بن سکتی ہے؟

اسی طرح سیاسی لحاظ سےغیر مستحکم حکومت بھی متوازن اور مؤثر خارجہ پالیسی بنانے کی اہل نہیں ہوتی۔ عمران خان کی حکومت نے کورونا وبا کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرنے کے بعد اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کو بھی الزام تراشی سے دبانے کی کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم اس سیاسی حقیقت سے  بے بہرہ دکھائی دیتے ہیں کہ  اپنی حکومت کی جمہوری بنیاد کو انہوں نے خود ہی ’ایک پیج‘ کی پالیسی کے تلے دبا دیا ہے۔ اب یہ بات تسلیم کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف حکمران ضرور ہے لیکن نہ وہ کام کرنے کی اہل ہے اور نہ ہی اس کےپاس اہم فیصلوں کا اختیار ہے۔ وزیر اعظم اس صورت حال کو اگر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں تو پشاور میں پی ڈی ایم لیڈروں کی باتیں سننے کے بعد یہ گمان دور ہوجانا چاہئے۔

بلاول بھٹو زرداری نے جنوری کو حکومت کی روانگی کا مہینہ کہا ہے۔ اسے اگر بے بنیاد قیاس آرائی بھی مان لیا جائے تو بھی یہ سیاسی حقیقت تو نوشتہ دیوار ہے کہ مصالحت اور تعاون سے مسلسل گریز کرنے والی تحریک انصاف آئینی مدت پوری کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ پارلیمانی نظام میں کسی بھی پارٹی کو اقتدار محفوظ رکھنے کے لئے کارکردگی دکھانا پڑتی ہے اور قومی سطح پر مفاہمت اور مصالحت کا ماحول پیدا کرنا پڑتا ہے۔ بیک وقت کئی محاذ کھولنے والی حکومت نہ معیشت بہتر کرسکتی ہے اور نہ ہی سماجی اطمینان کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ بلاول کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لئے عمران خان کو اپنا سیاسی طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان  نے فوج کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے تعلق کو دو ٹوک انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ مؤقف نواز شریف کی طرف سے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کا نام لینے کے طرز عمل کی توثیق کرتا ہے۔ اپوزیشن فوج کے سیاسی کردار کو مسترد کررہی ہے۔ فوج کو یا تو اپوزیشن کو ہمنوا بنانا پڑے گا یا ایک منتخب حکومت کی سیاسی پشت پناہی سے گریز کرنا ہوگا۔ پشاور میں پی ڈی ایم کے پاور شو میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ اب فیصلوں کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلے جتنی جلد کرلئے جائیں ملک و قوم کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali