فرانس کے سیکیولرازم میں مسلمانوں کے لیے جگہ ہے یا نہیں؟


میکخواں، میکرون، فرانس، سیکیولرازم، سیکیولر، سیکولر
کئی حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا فرانس میں رائج سیکیولرازم مسیحی بنیادوں پر قائم ہے اور کیا اس کی وجہ سے مسلمان اس ملک میں نتہائی کے شکار ہیں؟
فرانس میں ہونے والے حالیہ پرتشدد واقعات نے یورپ میں مسلمانوں اور وہاں کی سیکیولر حکومت کے تعلقات میں موجود خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

‘اسلامی علیحدگی پسندی’ کے بارے میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں کی تقریر کے بعد ‘روشن خیالی کے ملک’ میں سیکولرازم کے مسئلے کے بارے میں پرانی بحث نے ایک نیا جنم لیا کیونکہ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ سیکیولرازم عیسائی ثقافتی خصوصیات کا حامل ہے۔

کچھ مبصرین کے نزدیک حکومت کا یہ جامع سیکیولر ماڈل اگرچہ تمام شہریوں کے لیے عقیدے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اسلام کو ایک ‘غیر ملکی’ نظریے اور مسلمانوں کو ‘عارضی مہمان’ کی حیثیت سے قبول کرتا ہے بھلے ہی وہ تارکینِ وطن کی تیسری اور چوتھی نسل کے بچے ہوں۔

جبکہ دوسرے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کہ مسلمان تارکین وطن اپنے اصل ملکوں میں ظلم اور غربت سے دوچار ہیں جبکہ فرانس جیسے ممالک انھیں مواقع اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتے ہیں، لہٰذا میزبان معاشرے کے قوانین کا احترام کرنا ان کا فرض ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فرانس ’حلال ٹیکس‘ کیوں نافذ کرنا چاہتا ہے؟

فرانس کی حکومت کا ’اسلامی انتہا پسندی‘ کے خلاف کریک ڈاؤن

فرانس میں مسلمانوں کی تاریخ اور قومی شناخت کا محافظ نظریہ ’لئی ستے‘ کیا ہے؟

کیتھولک چہرے کے ساتھ فرانسیسی سیکولرائزیشن؟

فرانسیسی ریاست نے ایک مکمل قدیم سیکولر نظام اپنا رکھا ہے جو فرانسیسی انقلاب اور روشن خیالی کے دور کے فلاسفہ کی وراثت کا حصہ ہے جنھوں نے گرجا گھر کو ریاست اور معاشرے سے الگ کرنے کے نظریات پیش کیے تھے۔

1905 میں تیسری جمہوریہ کے دوران جاری کردہ ‘گرجا گھروں اور ریاست کی علیحدگی کے قانون’ کے مطابق ‘(فرانسیسی) جمہوریہ کسی بھی عقیدے کی مذمت نہیں کرتی اور نہ ہی کسی فرقے کی حمایت یا مالی اعانت کرتی ہے۔’

اس قانون نے ریاست کے تمام قانون ساز، تعلیمی، اور انتظامی اداروں سے چرچ کو الگ کردیا، پادریوں کے جماعتیں بنانے اور سیاست میں دخل اندازی کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، عبادت گاہوں کو عوامی املاک میں تبدیل کردیا اور سرکاری اداروں میں مذہبی نشانات اور علامات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔

لبنانی مصنف وسام سعادت نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ فرانسیسی سیکولرائزیشن کے ماڈل نے ‘چرچ اور مذہب کو ریاستی نظام کے ماتحت کرنے کی کوششوں کی ناکامی اور فرانسیسی انقلاب کے دوران 1791 میں پادریوں پر شہری قوانین کے نفاذ کے بعد اُن سے ہونے والے شدید تنازعے’ کے پس منظر میں جنم لیا۔

دوسری طرف فرانسیسی سلطنت نے ایک مختلف پالیسی اپناتے ہوئے اپنی مسلم اکثریتی کالونیوں میں فتووں اور علما کے ساتھ تعلقات کو منضبط کرنے کے لیے انھیں ریاستی اداروں سے منسلک کر دیا۔

وسام سعادت سینٹ جوزف یونیورسٹی لبنان میں سیاسیات اور تاریخ کے پروفیسر ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘تیسری فرانسیسی جمہوریہ نے ایک ایسی بنیاد بنائی ہے جو دو مختلف طریقوں سے سیکیولرائزیشن کی وضاحت کرتی ہے: ‘مسیحیوں کے لیے ریاست اور سرکاری سکولوں کو چرچ سے الگ کرنے اور مسلمانوں کے لیے فتوے اور مذہبی اداروں کو ریاست سے جوڑنے کی بنیاد پر۔’

ان کے مطابق ریاست اور چرچ کے درمیان تصادم فرانسیسی تاریخ کا ایک پُرتشدد مرحلہ تھا لیکن اسی وقت سیکیولرائزیشن بذاتِ خود ‘مسیحی مذہب کی سیکیولرائزیشن’ تھی۔

ان کی رائے میں ’فرانسیسی سیکیولرازم جب ریاست اور مذہب کے مابین مکمل علیحدگی کی بات کرتا ہے اور جب یہ کہتا ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں ہے’ تو یہ جھوٹ نہیں بولتا، ‘لیکن یہ بنیادی طور پر مذہب کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر مبنی ہے کیونکہ اسے چرچ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔’

انھوں نے نشاندہی کی کہ ‘فرانس کی تیسری جمہوریہ جو بیسویں صدی کے اوائل میں مذہبی علما کی شدید مخالف تھی، پانچویں جمہوریہ سے مماثلت نہیں رکھتی جو اس کے بانی چارلس ڈی گال کے قدامت پسند رجحانات سے متاثر تھی اور اس کا رجحان کیتھولک ثقافت کے ورثے اور اس کی بحالی کی طرف تھا۔’

سپین کے شہر بارسلونا کی پومپیو فیبرا یونیورسٹی میں سیاسی فلسفے کے پروفیسر کیمیلے انگوریانو کا کہنا ہے کہ ‘فرانسیسی سیکیولرازم تاریخی اعتبار سے بالکل غیر جانبدار نہیں رہا بلکہ کثیر جہتی رہا ہے کیونکہ فرانسیسی ریاست نے کیتھولک اور یہودی فرقوں کے ساتھ ایک مراعاتی رشتہ استوار کیا ہے۔’

تاہم کیمیلے انگوریانو نے مزید کہا کہ ‘یہ کہنا بہت آسان ہے کہ فرانسیسی سیکیولرازم اپنے مسلمان شہریوں کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔’

تاریخی پیچیدگیوں کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرانسیسی سیکیولر ماڈل ‘جمہوری، منصفانہ اور تکثیریت پسند ہے، مسلمانوں کو گلے لگانے کے لیے ایک اچھا فریم ورک مہیا کرتا ہے ، اور انھیں معاشرے کا حصہ بننے کا موقع فراہم کرتا ہے کیونکہ سیکیولرازم کی بنیاد تمام مذاہب اور عقائد کا احترام ہے، اور اس کے تحت قانون کے سامنے تمام شہری اپنے آبائی ملک، نسل یا مذہب کی تفریق کے بغیر برابر ہیں۔’

کیمیلے انگوریانو کے مطابق موجودہ صورتحال کے بارے میں تشویشناک بات سیکولرازم کا ماڈل نہیں بلکہ موجودہ خلیج کی وسعت ہے جو دونوں طرف سے ‘آمرانہ’ ردعمل کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے، چاہے وہ ‘سیکیولر صلیبی جنگوں’ کے بارے میں خدشات کا اظہار کرنے والے ہوں یا پھر فرانسیسی ریاست۔

فرانس

فرانس میں قانون کے تحت سرکاری اداروں میں مذہبی نشانات اور علامات کے استعمال پر پابندی ہے

ان کی رائے میں اگرچہ ریاست کو سیکیورٹی خدشات کا متناسب جواب دینے کا حق ہے مگر اس نے ‘پریشان کُن’ اقدامات کا ایک سلسلہ شروع ہے جن میں ‘اسلاموفوبیا کے خلاف مصروف انجمنوں کو منسوخ کرنے کی کوشش، وزارتِ تعلیم اور وزارتِ داخلہ کی طرف سے کچھ جارحانہ بیانات، اور آخرکار ‘جامع سلامتی’ کا قانون، جس کے بارے میں چند حلقوں کو خدشات ہیں کہ یہ اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی لگا سکتے ہیں۔’

فرانسیسی پارلیمان نے چند دن قبل مذکورہ بالا قانون پر ایسے وقت میں بحث شروع کی جب اس کی کئی دفعات پر تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے، کیونکہ اس قانون کے تحت پولیس کارروائی کے دوران پولیس افسران کی عکس بندی کرنا جُرم ہوگا۔

کیا سیکیولرازم ایک دقیانوسی خیال ہے؟

دنیا بھر میں بہت سے سیاسی دھارے انسانی حقوق کے تحفظ اور شہریوں کے درمیان برابری پیدا کرنے والے سیکیولرازم کا تصور فرانسیسی نظامِ حکومت سے حاصل کرتے ہیں۔

دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکیولر یورپی حکومتوں نے اپنے معاشروں کو نفرت پر مبنی جرائم اور نسل پرستی سے اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے فروغ سے محفوظ نہیں رکھا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکولرازم کا تصور اب دقیانوسی ہو چکا ہے اور اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے؟

کیمیلے انگوریانو کے نزدیک ‘ماضی کے کسی بھی دور کی بہ نسبت آج کے زمانے میں ایک منصفانہ اور سیکیولر ریاست کا نظریہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ ‘جدید تکثیری معاشروں میں (خواہ مغربی ممالک ہوں یا دیگر) امن و خوشحالی کے ساتھ رہنے کے لیے سیکیولرازم ایک مفید اور ضروری طریقہ ہے۔ تاہم سیکیولرازم لازمی طور پر جمہوری اور تکثیریت پسند نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر سٹالن ازم کے ماڈل پر ایک مذہب مخالف مؤقف پر مبنی ایک آمرانہ اور نظریاتی سیکولرازم بھی ہے۔’

وسام سعادت کا ماننا ہے کہ سیکیولرازم کا موجودہ چیلنج یہ ہے کہ ‘اسے ماضی اور موت کے بعد کی زندگی کے مسئلے سے تبدیل ہو کر مستقبل اور دنیا کی زندگی کے بارے میں بننا ہے مگر یہ ایسا مسئلہ ہے جو ایک ہی جھٹکے میں ہمیشہ کے لیے حل نہیں ہو سکتا۔’

ان کی رائے میں ‘جدوجہد آخرت کو مکمل طور پر خارج کرنے، لوگوں سے اس کی تشویش کو مٹانے، یا عوامی حلقوں میں پھیلائے بغیر اسے ان لوگوں تک ہی محدود رکھنے کا دھوکہ دینے کی نہیں ہے کیونکہ یہ ناممکن ہے۔ ذہنیتوں کی تاریخ تیزی سے تبدیل نہیں ہوتی، حادثات کی تاریخ میں تبدیلی آتی ہے۔’

اس تناظر میں لبنانی مصنف یہ نکتہ چینی کرتے ہیں کہ تمام ‘سیکیولرازم کسی چیز کی سیکیولرائزیشن ہے جیسے کہ مسیحی بنیاد پر سیکیولرازم ایک مسیحی یا مابعدِ مسیحیت پس منظر کے ساتھ قائم ہے اور اسے تکبر نہیں کرنا چاہئے۔’ اس بات کا اطلاق اسلامی، ہندو یا بدھ مذہبی پس منظر والے سیکیولرازم پر بھی ہوتا ہے۔

کیا سیکیولرازم مذہبی شناختوں کے ساتھ متصادم ہے؟

اگر ہم ترکی کی جانب سے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے پس منظر میں ہونے والی اس مہینوں پرانی بحث کی جانب جائیں تو ہمیں یاد ہے کہ دنیا بھر کے بہت سے ترکوں اور مسلمانوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا کیونکہ اُن کے نزدیک اس اقدام نے اسلامی بنیادوں پر قائم اصل ترک شناخت کو ابھارا ہے جسے عشروں کی سیکیولرائزیشن مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔

اگر وسام سعادت کے نزدیک تمام ‘سیکیولرائزیشن’ کسی مذہبی ورثے کی سیکیولرائزیشن ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شہری قانون کا کوئی بھی منصوبہ جو تمام شہریوں کو برابر رکھے، آج کی دنیا میں مذہبی شناخت اور قومی جذبات کے عروج کے ساتھ ناکام ہوجائے گا؟

کیمیلے انگوریانو کے نزدیک ‘سیکیولرازم یقینی طور پر اس وقت بھی ممکن ہے جب قوم پرست جذبات شدت اختیار کرتے ہیں۔ آپ کو یقیناً مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ کچھ رہنما اور جماعتیں ان جذبات کو ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ ترکی میں آج ایک مذہبی مطلق العنان حکومت موجود ہے جو جمہوری تنوع کو خطرہ میں ڈالتی ہے لہٰذا مسئلہ سیکیولرازم نہیں بلکہ مطلق العنانیت ہے۔’

انگوریانو کے مطابق ترک سیکیولرائزیشن کی بہترین مثال ترکی کے مصنف اورحان پاموک کے ناول ‘برف’ (2002) میں مل سکتی ہے، جو ‘مذہب اور روحانیت کے احترام اور اس کے ساتھ ہی ساتھ کسی بھی طرح کے مطلق العنان رجحان کو رد کرنے کا درس دیتا ہے خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی۔’

وسام سعادت ہمیں ترک سیکیولرازم کی ابتدا کی طرف لے جاتے ہیں جس کی بنیاد کمال اتاترک نے رکھی تھی، ‘جب کمال نے خلافت عثمانیہ کو منسوخ کیا، اذان کی زبان تُرک کر دی، اور آئین اور قوانین میں مذہب کے ذکر کو ختم کردیا۔’

‘یہ سچ ہے کہ اب ریاستی ادارے مذہبی بنیادوں پر قائم نہیں ہیں لیکن ریاست مذہب کو قابو میں رکھتی ہے۔ مذہب ریاستی معاملات میں فتوے جاری نہیں کرتا بلکہ اتاترک کے زمانے سے ہی ترکی میں محکمہ مذہبی امور مذہبی حالات اور مبلغین کی تیاری کرنے والے مدرسوں کو منضبط کرتا ہے۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘قطعی طور پر نہ ہی ترک سیکیولرازم آیا صوفیہ کو عجائب گھر کی شکل لینے کا انتظار کرتا ہے اور نہ ہی اسے مسجد کی صورت دے کر یہ سیکیولرازم تحلیل ہو رہا ہے۔ تو کیا اس وقت یہ اسلامی پس منظر کے ساتھ سیکیولر ہے؟ ایسا ہوسکتا ہے۔ ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ ترکی کا یورپی یونین میں شمولیت سے انکار یورپ کی مسیحی جڑوں پر دباؤ سے منسلک تھا۔’

کیا سیکیولرازم مذہبی آزادیوں کے منافی ہے؟

فرانس اور اسلام کے مابین تعلقات پر حالیہ بحران نے فرانسیسی حکومت اور دیگر سیکیولر حکومتوں کے مابین موازنے کو جنم دیا ہے، کہ ان میں سے کون سی حکومت مذہبی آزادیوں کی زیادہ حمایت کرتی ہے۔

اس مسئلے نے حالیہ امریکی صدارتی انتخاب کے دوران، اور دو متصادم جماعتوں کی مہموں میں کردار ادا کرنے والے مذہبی احساسات کے دوران خصوصی اہمیت اختیار کر لی تھی، چاہے بات جو بائیڈن کے کیتھولسزم کی ہو یا ایونجلیکل مسیحیوں کی ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے حمایت، یا پھر بحث ملک میں مذہبی آزادی کے مستقبل کی ہو۔

فرانس

فرانس اور اسلام کے مابین تعلقات پر حالیہ بحران نے فرانسیسی حکومت اور دیگر سیکیولر حکومتوں کے مابین موازنے کو جنم دیا ہے

کیمیلے انگوریانو کا کہنا ہے کہ سیکیولرائزیشن کے بہت سارے ماڈلز کے مابین مماثلت ہر ماڈل کے مخصوص مسائل کو الگ سے ختم نہیں کرتی۔ ‘امریکہ میں ٹرمپ نے عوامیت پسند مطلق العنانیت کے ایک نمونے کی نمائندگی کی جس میں ایونجلیکل مسیحیت کو سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کیا گیا مگر برطانیہ میں ثقافتی اور معاشرتی سطح پر ہمیشہ مذہبی تنہائی کی بات کی جاتی ہے۔’

ان کی رائے میں آج فرانس میں اصل خطرہ ‘شدید قطبیت میں مضمر ہے اور یہ مسلسل باہمی عناد اور انتہا پسندی کو ہوا دیتا ہے۔ ریاستی مطلق العنانیت اور مطلق العنان مذہبی رجحانات ایک دوسرے کو بڑھاوا دیتے ہیں اور آزادی اظہار کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر سکتے ہیں۔’

وسام سعادت یاد دلاتے ہیں کہ سوویت یونین کی سرکردہ جماعت نے لادینیت کو ریاستی نظریے کے طور پر اپنایا تھا لیکن آئین نے مذہبی پروپیگنڈے اور مذہب مخالف پروپیگنڈے کو یکساں حق دیا تھا۔ حقیقت میں ریاست نے چالیس کی دہائی کے آغاز سے ہی کام کیا ہے کہ وہ چرچ کو ختم کرنے کی کوششیں جاری رکھنے کے بجائے خود کو چرچ کے ساتھ مزید جوڑ دے۔’

اس سیاق و سباق میں وسام سعادت نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ‘تنظیم کا لیننسٹ تصور مسیحی خانقاہی ماڈل سے متاثر ہوا تھا جس طرح الاخوان المسلمون نے کسی صوفی سلسلے کو صوفی یا بالشویک مسیحی ہوئے بغیر باقاعدہ صورت دینے کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا تھا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32487 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp