ادریس خٹک: ایک برس سے ’لاپتہ‘ انسانی حقوق کے کارکن کی اپنی بیٹی تالیہ سے پہلی ملاقات


'جب میں فوج کے کیمپ میں اپنے بابا سے ملنے جا رہی تھی تو میں نے سوچا جب میں بابا سے ملوں گی تو مضبوط رہوں گی۔ انھیں یہ تاثر دوں گی کہ باہر سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے لیکن جب میں ملی تو میں مسلسل رو رہی تھی۔ انھوں نے مجھے گلے لگایا۔۔۔'

پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کی تحویل میں موجود ادریس خٹک کی 21 سالہ بیٹی تالیہ خٹک نے اپنے والد کے ساتھ ایک سال بعد ہونے والی ملاقات کی تفصیلات کچھ اس طرح بیان کیں۔

انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک پچھلے سال اچانک لاپتہ ہو گئے تھے تاہم ان کی گمشدگی کے سات ماہ بعد حکومت نے ان کے فوج کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی تھی۔

ادریس خٹک کے وکیل لطیف آفریدی کے مطابق ان پر سکیورٹی اداروں کے بارے میں خفیہ معلومات رکھنے اور افشا کرنے کا الزام ہے اور ان کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمے کی کارروائی روکنے کا حکم

ادریس خٹک: ’میرے والد کو اغوا کیا گیا اور مجھے نہیں پتہ کیوں؟‘

ادریس خٹک ملٹری انٹیلیجنس کی تحویل میں، سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ

2020 کی لاپتہ عید

بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ادریس کی صاحبزادی تالیہ نے اپنے والد سے ہونے والی ملاقات کا تفصیلی احوال بتایا ہے۔

تالیہ کا کہنا تھا کہ اردیس خٹک کے ‘بال سفید ہو چکے تھے، وہ تھوڑے سے دبلے لگے، حلقے کچھ گہرے ہو چکے تھے۔

‘منھ پر چھوٹے چھوٹے سیاہ دھبے تھے۔ مجھے نہیں پتا یہ اس صورتحال کی وجہ سے مجھے ایسا دِکھائی دے رہا تھا کیونکہ میں ایک سال بعد بابا کو دیکھ رہی تھی اور یہ ملاقات صرف 20 منٹ کی تھی۔۔۔ پھر ہمیں کہا گیا کہ تین منٹ رہتے ہیں اور پھر کہا گیا وقت ختم ہوگیا ہے۔۔۔ جب تین منٹ بولا گیا تو مجھے لگا کہا گیا ہے کہ اب ایک بار پھر تمھارے بابا تم سے الگ ہو رہے ہیں اور نہیں معلوم پھر دوبارہ کب ملاقات ہو گی۔’

‘صرف ایک شخص اندر ملنے جائے گا’

تالیہ نے بتایا کہ پانچ اکتوبر کو انھیں ایک فون آیا اور انھیں بتایا گیا کہ وہ ادریس خٹک کے محافظ افسر بات کر رہے ہیں۔

‘مجھے انھوں نے سات تاریخ کو تین بجے منگلہ کینٹ کے داخلی دروازے پر بلایا اور کہا کہ اس سے آگے آپ کو اکیلے جانا پڑے گا۔’

وہ بتاتی ہیں کہ ‘ہم تھوڑے ڈرے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میرے وکیل یا میرے انکل میرے ساتھ آسکتے ہیں لیکن انھوں نے اس سے انکار کر دیا انھوں نے کہا کہ صرف ایک بندہ اندر جائے گا۔’

تالیہ نے کہا کہ وہ اسلام آباد سے جہلم گئیں اور پھر انکل کے ساتھ طے شدہ وقت کے مطابق منگلہ کینٹ کے داخلی دروازے پر سہ پہر تین بجے پہنچ گئی۔

‘ہمیں تھوڑا انتظار کرنا پڑا۔ یہ ملاقات تین سے پانچ بجے کے درمیان ہوئی تھی۔ داخلی دروازے پر انھوں نے میرے انکل کو روک دیا اور آگے صرف میں ہی گئی۔

‘دو بار میری کافی زیادہ چیکنگ کی گئی۔ تلاشی لینے کے لیے وہاں خواتین بھی موجود تھیں۔ مجھے کہا گیا کہ موبائل گاڑی میں ہی چھوڑ جائیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ جہاں انھیں لے جایا گیا ‘وہ ایک منزلہ عمارت تھی۔ وہاں شاید تین کمرے ہوں گے۔’

‘پشتو میں بات نہ کرنے کی شرط’

تالیہ نے بتایا کہ انھیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا اور ملاقات کے حوالے سے وضاحت کی گئی کہ پشتو میں بات بالکل نہیں ہوگی۔

تالیہ خٹک یونیورسٹی میں زیر تعیلم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اپنے والد کے ساتھ ہمیشہ پشتو میں بات کی ہے لیکن اس ملاقات میں شرط تھی کہ پشتو زبان میں بات نہیں کی جا سکتی۔‘

‘یہ بھی کہا گیا کہ کیس کے بارے میں بات کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ اگر ہم کیس کے بارے میں بات کریں گے تو ملاقات ختم ہو جائے گی۔

‘ہم اکیلے نہیں مل سکتے کمرے میں ہمارے ہمراہ دو اور آدمی ہوں گے۔ ملاقات 20 سے 25 منٹ کی ہو گی۔’

تالیہ کے بقول ملاقات کی شرائط بتانے کے بعد پھر ‘مجھے دوسری جانب لے گئے وہاں ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں بابا تھے۔ یہ وہ کمرہ نہیں تھا جہاں انھیں رکھا ہوا ہے۔

‘وہ ایک میٹنگ روم سا بنا ہوا تھا۔ دو کرسیاں تھیں اور ہمارے درمیان میں ایک ٹیبل۔ بابا کے بیچھے دو اور کرسیاں تھیں جہاں وہ دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور بالکل ہمارے آنے سے پہلے مجھے لگا کہ وہ بابا کو کہیں اور سے لے آئے۔ مجھے یہ نہیں لگتا کہ میرے بابا کو انھوں نے منگلہ کیمپ میں ہی رکھا ہوا ہے۔’

‘آپ کو یہاں پرفیوم بھی ملتا ہے؟’

وہ کہتی ہیں کہ وہ جب اس کمرے میں گئیں تو ‘میرے بابا پہلے سے کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے بانہیں اسی طرح کھولے ہوئے تھیں جس طرح گلے لگانے کے لیے ہاتھ کھولتے ہیں۔

‘بالکل اسی طرح جیسے چھٹیوں میں جب گھر جاتی تھی تو بابا ہمیں ایسے ہی ویلکم کرتے تھے۔ وہاں ملتے ہوئے پہلے ہی انھوں نے انگلش میں بات کرنا شروع کر دی تھی۔ ویلکم، ویلکم!’

‘جب ہم ملے تو مجھے تھوڑی دیر لگا کہ شاید سب کچھ بالکل ٹھیک ہے۔ میں اپنے والد سے ایک سال بعد مل رہی تھی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن وہ سب بہت مختصر تھا۔’

تالیہ نے بتایا ‘ہم بیٹھے۔ ہم نے بات کرنا شروع کی۔ شاید زبان کی رکاوٹ تھی یا ہم ایک سال بعد مل رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا اس سب کی وہ پہلے سے ریہرسل کر چکے ہیں یا جیسے پہلے انھیں بتایا جا چکا ہے کہ کیا بولنا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘وہ تیار ہو کر آئے تھے۔ انھوں نے بالکل اسی طرح شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جیسے عام طور پر پہنتے تھے۔

‘انھوں نے تازہ شیو کی ہوئی تھی۔ ہیئر کٹ نیٹ تھا۔ پرفیوم بھی لگایا ہوا تھا۔ میں جب بیٹھی تو میں نے پہلی بات یہی کی کہ کیا آپ کو یہاں پرفیوم بھی ملتا ہے۔ وہ تھوڑا سا ہنسے لیکن جواب نہیں دیا۔ ایسے لگتا تھا سب کچھ تیار کیا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں سہمی ہوئی تھی اس لیے یا کچھ اور تھا۔’

اس ملاقات میں گفتگو کا آغاز خاندان والوں کی خیریت کے بارے میں پوچھ کر ہوا۔

تالیہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے ان کی روٹین کے بارے میں پوچھا تو بابا نے بتایا وہ فجر کے وقت اٹھ جاتے ہیں پھر سو جاتے ہیں۔ پھر ایک پیرا میڈک انھیں اٹھاتا ہے جو ہفتے میں دو مرتبہ انھیں چیک کرتا ہے۔ میں نے پوچھا ناشتے میں کیا کھاتے ہیں۔ انھوں نے بولا آملیٹ اور پراٹھا اور وہ ہنسے بھی اور پھر مجھے بتایا کہ آج کل میں ٹوسٹ اور ایک اُبلا ہوا انڈا کھا رہا ہوں کیونکہ میرے گلے میں درد ہے۔’

‘کیس بوگس ہے، ہم جلد ملیں گے’

تالیہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے والد سے پوچھا کہ آپ نے یہاں میرا کتنی دیر انتظار کیا تو انھوں نے بتایا کہ 15 منٹ جس سے مجھے لگا کہ انھیں وہاں اس وقت لایا گیا تھا۔ انھیں وہاں رکھا نہیں گیا ہو گا۔’

‘میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا آپ سے کوئی یہاں بات کرنے والا ہوتا ہے تو انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ یہ بتایا کہ انھیں پڑھنے کے لیے کتابیں دی جاتی ہیں۔

اپنے انٹرویو میں تالیہ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ انھیں لگتا ہے کہ ادریس خٹک کو ملٹری کورٹ میں شروع ہونے والے ان کے کیس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ گفتگو کے دوران ادریس خٹک نے ایک جگہ بولا کہ ‘کیس بوگس ہے اور انشا اللہ ہم جلد ملیں گے۔’

جب بی بی سی نے ان سے دریافت کیا کہ ملاقات کی شرائط میں تو کیس پر بات کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن آپ کے درمیان جب یہ تذکرہ ہوا تو کیا اس موقع پر یا آگے وہاں موجود افسران نے ٹوکا؟

تالیہ اس کے جواب میں کہتی ہیں ‘نہیں۔ ہم نے زیادہ وقت فیملی اور روٹین کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ انھوں نے کیس کے بارے میں ایک مختصر جملہ بولا۔ پھر انھوں نے جلدی سے گفتگو کا رُخ بدل دیا تاکہ اس پر اور بات نہ ہو۔’

‘ٹائم از اپ’

ان کے بقول ایسا لگتا تھا کہ ‘ادریس خٹک کے لیے وقت رُک گیا ہے۔

‘بابا ابھی بھی نومبر 2019 میں ہیں۔ وہ سارے سوال اسی وقت کے بارے میں پوچھ رہے تھے، جیسے اس وقت میں کراچی میں تھی تو بابا نے اس بارے میں پوچھا۔ ہماری زندگی چل رہی ہے لیکن ان کے لیے وقت رُک گیا تھا۔’

تالیہ کہتی ہیں کہ ایک سال بعد فقط 20 منٹ کی ملاقات ہوئی، وہ بھی اپنی زبان میں نہیں۔ ‘سب شرائط کے تحت تو یہ ایک نارمل ملاقات نہیں تھی۔’

وہ کہتی ہیں جب تین منٹ رہ گئے تھے تو انھوں نے بولا کہ ‘تین منٹ رہ گئے ہیں اور جب ٹائم ختم ہو گیا تو کہا گیا ٹائم از اپ۔’

”تھری منٹس لیفٹ’ میرے لیے ایسا ہی تھا جیسے مجھے دوبارہ کوئی بتا رہا ہے کہ آپ کے بابا کو ہم لے جا رہے ہیں اور آپ کو نہیں پتا کہ آپ کب دوبارہ ملیں گی۔

‘آپ ملیں گی بھی یا نہیں اور آپ کو نہیں پتا ہو گیا کہ وہ کیسے ہوں گے۔ اس بار اور بھی زیادہ مشکل تھا کیونکہ مجھے پتا تھا اس کے بعد فیملی کے لیے کیا ہوتا ہے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں نے سوچا تھا کہ میں مضبوط رہوں گی ان کے سامنے نہیں روؤں گی انھیں یہ دکھانے کے لیے کہ باہر سب کچھ ٹھیک ہے لیکن میں جب انھیں ملی تو میں نے جیسے ہی انھیں دیکھا تو رونا شروع کر دیا۔ پوری ملاقات میں میں روتی رہی تھی۔ لیکن بابا پوری میٹنگ میں ٹھیک تھے۔ مسکرا رہے تھے شاید اس لیے کہ وہ مجھے یہ بتائیں کہ وہ بھی مضبوط ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارا بھی حوصلہ بڑھے۔’

وہ کہتی ہیں کہ ملاقات کے آغاز اور اختتام پر ان کے والد نے انھیں گلے لگایا۔

بی بی سی نے تالیہ سے پوچھا کہ کیا اس ملاقات کے بعد ان لوگوں کی جانب سے جنھوں نے خود کو آپ کے والد کا محافظ افسر بتایا ہے کبھی آپ سے دوبارہ رابطہ ہوا؟

اس کے جواب میں تالیہ نے بتایا کہ ان کا رابطہ میرے چچا سے ہوا تھا۔ ’انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ سول وکیل سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملٹری کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا۔‘

بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار نے ملٹری کورٹ کی کارروائیاں روکنے کا حکم دیا تھا۔ ‘پھر اس کے بعد رابطہ نہیں ہوا۔’

تالیہ کہتی ہیں کہ ‘مجھے ایک بار اس نمبر سے کال آئی لیکن میں وہ کال ریسیو نہیں کر پائی۔ مجھے پہلی کال پر بتایا گیا تھا کہ اس نمبر پر کال وصول نہیں کی جاتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘براہ راست مجھے کبھی فون پر کوئی دھمکی نہیں دی گئی۔ اگر میرے انکل کو ملتی ہے تو وہ بات نہیں کرتے۔‘

‘شروع میں کافی زیادہ کہا جاتا تھا، مختلف ذرائع سے کہ ہمیں اس کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بابا جلد واپس آ جائیں گے۔’

کیا پاکستان کی حکومت کی جانب سے آپ سے رابطہ کیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں تالیہ کا کہنا تھا ‘نہیں۔ کبھی کسی نے رابطہ نہیں کیا۔’

ادریس خٹک کا کیس فی الحال معطل ہے۔ اس پر تالیہ نے بتایا کہ ‘ایسے لوگ ہیں جو سالوں سے انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے باپ، بیٹے اور اپنے پیاروں سے ملیں گے۔

‘میں بہت شکر گزار ہوں کہ کم سے کم مجھے والد سے ملنے کا موقع ملا۔ کم از کم مجھے یہ پتا چل گیا کہ وہ زندہ ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے انھیں دیکھ لیا ہے۔’

لاپتہ افراد کے خاندان والے اپنے پیاروں کے بازیابی کے لیے احتجاج کرتے رہے ہیں (فائل فوٹو)

تالیہ نے بتایا کہ 'پہلی بار جب میں نے والد کی رہائی کے لیے ویڈیو اپ لوڈ کی تو مجھے بہت نامناسب قسم کے ریمارکس دیے گئے۔‘

‘جب ایم آئی نے تسلیم کیا کہ وہ ان کی تحویل میں ہیں کیس بھی شروع ہوا تو ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے کہا کہ انھوں نے کچھ کیا ہو گا اس لیے اٹھایا گیا۔

‘مجھے بابا کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے کے لیے زیادہ لوگوں کی جانب سے سپورٹ ملی ہے۔ ان میں دوست، فیملی، ایسے لوگ جن کو میں جانتی بھی نہیں ہوں، ایمنسٹی اور ہیومن رائٹس واچ شامل ہیں اوراس سپورٹ کی وجہ سے میں پرامید ہوں۔ بہت سے لوگ اس بارے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں اور یہی مجھے بہت امید دلا رہا ہے۔’

ادریس خٹک کب اور کیسے حراست میں لیے گئے؟

ادریس خٹک کو گذشتہ سال 13 نومبر کو سادہ لباس میں ملبوس افراد نے اسلام آباد پشاور موٹروے پر خیبرپختونخوا کے شہر صوابی انٹرچینج سے ان کی کار میں سے مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ ادریس خٹک کا گھر بھی صوابی میں ہی ہے۔ ان کے ڈرائیور کو حراست میں لینے کے دو دن بعد چھوڑ دیا گیا۔

بعد میں ڈرائیور نے پولیس کو بیان دیا کہ ‘نامعلوم افراد ان کے سروں پر کپڑا ڈال کر انھیں الگ گاڑی میں لے گئے تھے۔ دو دن بعد نامعلوم افراد ادریس کے گھر آئے اور ان کا لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈرائوز لے کر چلے گئے۔’

ادریس خٹک کے بھائی نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور پشاور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروانے کی کوشش کی تاکہ وہ پولیس کو اس کی تحقیقات پر مجبور کر سکے۔

پشاور ہائیکورٹ نے 15 اکتوبر کو ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا عمل معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔

ادریس خٹک کی گمشدگی کے بعد ان کے اہلخانہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک مہم کا آغاز کیا تھا تاکہ حکام پر بین الاقوامی دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے دفتر اور برطانیہ کے فارن اور دولت مشترکہ کے دفتر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

ایمنسٹی اینٹرنیشل بھی ان اداروں میں شامل ہے جو تسلسل کے ساتھ ادریس خٹک کی بازیابی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔

ادریس خٹک کون ہیں؟

ادریس خٹک کے وکیل اور پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی کے مطابق ادریس خٹک سابق سوویت یونین اور موجودہ روس سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انھوں نے وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی جبکہ پاکستان میں وہ روس سے فارغ التحصیل طلبہ کی تنظیم ‘ایلومینی ایسوسی ایشن آف رشیا گریجیویٹ ان پاکستان’ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔

وہ اکثر اوقات روس کے سفارت خانے میں مختلف تقریبات میں جاتے رہتے تھے۔

ادریس خٹک کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ ترقی پسند سیاسی نظریات رکھتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں۔ وہ روس تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے جہاں وہ دس سال تک مقیم رہے۔ اور تعلیم مکمل کر کے واپس آنے کے بعد وہ کبھی بھی دوبارہ روس نہیں گئے۔

انھیں اکثر اوقات اسلام آباد میں روس کے سفارت خانے سے مختلف تقریبات میں شرکت کے دعوت نامے ملتے رہے اور وہ ان میں شرکت کرتے رہے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ان پر کبھی بھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا اور ‘نہ ہی ان کی کسی سے کوئی دشمنی ہے۔’

ادریس خٹک مختلف ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کے لیے بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ ان میں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی ملکی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشل کے مطابق ادریس خٹک نے صوبہ خیبر پختونخواہ اور حال ہی میں صوبے خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں ہونے والی مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعدد کیسز پر کام کیا۔ وہ اور بھی کئی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp