انتخابی اصلاحات، حکومت اور اپوزیشن


عقل مند انسان فوائد و نقصانات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان اللہ کی ذات پر توکل سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم عمران خان نے تنہا کیمرے کے سامنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے قوم کو انتخابی اصلاحات کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ وہ بائیومیٹرک طریقہ انتخاب رائج کرنے جا رہے ہیں جبکہ سمندر پار پاکستانیوں کے لئے بھی حق رائے دہی کا حق دلائیں گے جو کہ بہت ہی خوش آئند فیصلہ ہے۔ لیکن فیصلہ لیتے وقت درپیش تمام وسائل و مسائل کا جانچنا ضروری ہے۔

انتخابی اصلاحات کے لئے وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کا تعاون درکار ہوگا جس کا برملا اپنی پریس کانفرنس میں اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن سے تعاون کی اپیل بھی کی، لیکن سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کیونکر حکومت سے تعاون کرے گی، وہ تو پہلے سے ہی حکومت کے خلاف اپنی آستینیں چڑھائے کھڑے ہیں اور ملک کے تمام بڑے شہروں میں جلسے کر رہے ہیں۔

جمیعت علمائے اسلام ف اور پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب تو پہلے ہی اپنے اتحادیوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے اسمبلیوں سے استعفوں پر زور دے رہے ہیں۔ تو ایسے حالات میں وزیراعظم عمران خان کا انتخابی اصلاحات کا فیصلہ اور اپوزیشن سے تعاون کی اپیل کرنا ایک سیاسی پینترا تو ہو سکتا ہے لیکن یہ فیصلہ حقیقت سے متصادم لگتا ہے۔

پی ڈی ایم کے ملک بھر میں جلسے جلوسوں کی بات کی جائے تو اپوزیشن اتحاد کی تمام جماعتیں ملک کے مختلف علاقوں ہو گئی یا کردی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2008 میں مرکز میں حکومت قائم کی لیکن 2013 اور 2018 کے انتخابات میں وہ سندھ تک محدود ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح مسلم لیگ نون نے 2013 میں مرکزی حکومت قائم کی لیکن پنجاب جو مسلم لیگ نون کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا وہ بھی 2018 انتخابات میں ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ اب مسلم لیگ نون کے پاس دھاندلی کا شور مچانے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں۔

میاں صاحب جیسے ہی پہلی دفعہ جنرل جیلانی کے کندھوں پر سوار اور بے نظیر کی عزت پر پاؤں رکھ کر پاکستانی سیاست میں آئے تھے اب ویسے ہی وہ اسٹیبلشمنٹ کی چھاتی پر پاؤں رکھ واپس انٹری لینا چاہتے ہیں۔ عدالت سے میاں صاحب نا اہل بھی ہوئے اور ان پر پابندی بھی لگ گئی۔ اب وہ ہم تو ڈوبے ہے صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق اپنی سیاست چلا رہے ہیں۔ تین بار کے وزیراعظم لندن میں بیٹھ کر اپنے سیاسی پتے کھیل رہے ہیں اور اپنے خلاف تمام فیصلے ختم کرا کر ہی وہ دم لیں گے۔

واپس آتے ہیں اپنے انتخابی اصلاحات پر تو سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لئے جیسا خان صاحب نے کہا کہ تمام اراکین ہاتھ اٹھا کر اپنا ووٹ کاسٹ کرسکیں گے تو یہ فیصلہ نہایت ہی خوش آئند ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ سینیٹ میں جو بھی معاملہ زیربحث ہو اس پر بھی یہی طریقہ انتخاب رائج کیا جائے کیونکہ قوم نے دیکھا کہ اپوزیشن کے تحریک عدم اعتماد اور ان کے اکثریت کے باوجود صادق سنجرانی کس طرح دوبارہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ اور آرمی چیف کے مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق معاملے پر کس طرح سے تمام سینیٹرز نے اچھے بچوں کی طرح ہاتھ اٹھا کر اپنا اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

علاوہ ازیں انتخابی اصلاحات سو فیصد ہونی چاہیے۔ یہ جمہوریت اور پاکستان کی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا لیکن انتخابی اصلاحات سے قبل عوام کو اتنا باشعور ضرور بنانا چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ کی قدر اور طاقت جان سکے، ووٹر پولنگ سٹیشن میں فرائض پر معمور عملے سے ووٹ پارٹی اور اس کے انتخابی نشان کے بارے میں نہ پوچھیں اور اسی دوران اس کا ووٹ ضائع نہ ہو سکے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب اصلاحات ضرور لائیں۔ لیکن اصلاحات کا یہ وعدہ پچاس لاکھ گھر، اور ایک کروڑ نوکریوں جیسا ثابت نہ ہو۔

اور نہ ہی کرونا وائرس سے بچانے جیسے عہد سا ہو کہ پہلے پہل تو کرونا کو محض دو ہفتے کا زکام کہا گیا، گلگت بلتستان انتخابات میں حکومتی وزرا جلسے جلوسوں اور حکومتی وزرا کی جوائنٹ پریس کانفرنسز میں ایس او پیز کی جب دھجیاں اڑائی جا رہی تھی تو کرونا پھیلنے کا ذرا سا خیال تک نہ آیا۔ لیکن جب اپوزیشن جلسے جلوسوں پر اتر آئی تو کرونا وبا پھیلنے کا خدشہ ظاہر کر دیا۔ البتہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت اور وہاں ایس او پیز کا ذرا بھی خیال نہ رکھنے پر حکومتی وزرا چپ کا روزہ رکھ کر بیٹھے ہیں۔ بہر حال اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).