میڈیا کے میر جعفر اور میر صادق


(محترم عمران امین صاحب کو اپنی بات کہنے کا مکمل حق ہے۔ محض یہ نشاندہی کرنا مقصود ہے کہ صحافیوں کی رٹ پٹیشن میں نواز شریف یا کسی دوسرے سیاسی رہنما کا کوئی نام نہیں۔ و – مسعود)

اللہ نے انسان کو فیصلے کا اختیار دیا ہے کہ وہ انا اور خود داری کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے یا غلام بننا پسند کرتا ہے۔ حق کا علمبردار بنتا ہے یا بے ایمانی، جھوٹ، خود غرضی اور مفاد پرستی کے بوجھ کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے۔ کوئی بھی عمل یا فعل کسی بھی انسان کی حقیقت جاننے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ”اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے“۔ گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم اور مجرم نواز شریف کی تقاریر پر پیمرا کی جانب سے لگائی گئی پابندی کو چند سینئر اینکرز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر کے عوام کے سامنے سب عیاں کر دیا۔

”مسیحا کے روپ میں شفا بانٹنے آئے تھے کچھ صیاد“۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دال روٹی سیاسی قائدین کے مرہون منت ہوتی ہے آپ کو یاد ہو گا جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو ابتدا میں ہی عمران خان نے میڈیا ہاؤسز کی سرکاری سرپرستی چھوڑ دی تھی تب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سارے بکاؤ مال نئے وزیر اعظم پر چڑھ دوڑے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے ان کے منہ کو ”مال مفت دل بے رحم“ کا چسکہ لگا رکھا تھا مگر جب مفت مال بند ہوا تو اس کے غم میں نامور اینکرز سمیت کالم نگار بھی شام غریباں میں شامل ہو گئے

دوسری جانب قربان جائیں! عمران خان پر کہ وہ اپنے مضبوط کردار اور اعلیٰ ظرفی کی بدولت نہایت مہارت سے ان اجرت زدہ اور بکے ہوئے جوکروں کے پھینکے ہوئے جال سے نہ صرف خود کو بچاتا رہا بلکہ مختلف اوقات میں اینکرز سے ملاقاتوں کے دوران ان کے مسخ شدہ اور بنجر چہرے عوام کے سامنے عمدگی سے آشکار بھی کر دیے۔ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو ”داستان ایمان فروشوں کی“ شاید یاد ہو یا شاید کچھ کے ذہنوں سے محو ہو گئی ہو مگر اینکرز کی ہائی کورٹ میں رٹ اس کا تازہ نمونہ ہے۔

پاکستان کی ہمیشہ سے بد قسمتی رہی ہے کہ ہمارا نام نہاد پڑھا لکھا اور دانشور طبقہ اس ملک و قوم کے ساتھ کبھی بھی مخلص نہیں رہا ہے۔ وقت بدلتا رہا، پیمانے بدلتے رہے۔ مے کدہ تو وہی رہا مگر مے کش بدلتے رہے۔ چہرے ضرور نئے آئے مگر سوچ وہی پرانی رہی۔ بس یہی ہمارا نصیب رہا اور یہی ہمارے رہنما ٹھہرے۔ ان نام نہاد مفکروں اور صحافت کے پردھانوں کو ذاتی مفادات اور ذاتی پسند سے آگے دیکھنے کا کبھی شوق بھی نہیں رہا اور نہ ہی ان کی سوچ کبھی اپنی ذات کے محور سے آگے گئی۔

”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“ ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت معاشی بحرانی کیفیت اور حالت جنگ سے باہر آ رہا ہے اس موقع پر ہر ذمہ دار شہری کا حق بنتا ہے کہ وہ ذاتیات کے خول سے باہر نکل کر ملکی بقا و سلامتی کو مد نظر رکھے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس نازک صورتحال میں ایسی سیاسی قیادت موجود ہے جو اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں کو پہلے ہی عالمی برادری میں منوا چکی ہے اس وقت وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ملکی صنعتیں بحالی کی طرف جا رہی ہیں، خارجی دنیا میں پاکستان کی نیک نامی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، صوبہ گلگت بلتستان میں پر امن الیکشن کا انعقاد ہوا، معاشرے میں مکمل مذہبی ہم آہنگی ہے، بیرونی ادارے پاکستان کو ایک محفوظ سیاحتی ملک قرار دے رہے ہیں اور پاکستانی روپیہ دن بدن مضبوط ہو رہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سب ٹھیک چل رہا ہے تو پھر ان نام نہاد سینئر اینکرز نے نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کے خلاف عدالت جانے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ یہ لوگ اس وقت عدالت کیوں نہیں گئے جب پیمرا نے الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی لگائی تھی؟ ہمارے معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں مگر ان اینکرز کی جانب سے ٹی وی شوز میں بیٹھ کر بھاشن دینے کے علاوہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا تب انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتا؟

اس وقت ان کی اخلاقیات، حمیت، غیرت کہاں سو جاتی ہے؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ پہلی قسط ”سیاسی میر جعفر اور میر صادق“ کے بعد دوسری قسط ”میڈیا کے میر جعفر اور میر صادق“ حاضر ہے۔ ان جوکروں کی جانب سے دائر کی جانے والی رٹ پر سوال یہ ہے کہ کیا کسی مجرم کو ملکی اداروں پر تنقید کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں مجرم کو سرعام پریس کانفرسوں کی اجازت ہے؟ کیا مجرم کو معزز عدالتوں پر بہتان تراشی کے لیے کھلا چھوڑا جاتا ہے؟

کیا سلامتی کے اداروں پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں؟ تحقیقی اداروں کے خلاف بد زبانی کی جاتی ہے؟ جب ایسا ممکن نہیں تو پھر کیوں پاکستان میں اشرافیہ کے لیے قانون اور ہو؟ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب ہو۔ یاد رکھیں! ان صحافتی مسخروں کا ایجنڈا انسانی حقوق کی بحالی ہرگز نہیں ان کو صرف اپنے مالیاتی مائی باپ اور غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل کرنا ہے سب جانتے ہیں کہ رٹ دائر کرنے کے لیے کہاں ملاقات ہوئی اور کہاں سے ہدایت آئی۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس رٹ کی وجہ سے عوام کی اکثریت نے ان ماسک پہنے بہروپیوں کو پہچان لیا اور جان گئے ہیں کہ ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے یہ ”رنگ باز“ دراصل ”روپے پیسے“ کے یار ہیں۔ ان کا تو یہ حال ہے ”جس نے ماری آنکھ، اس کی گاڑی میں بیٹھ گئے“۔ وزیر اعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ پوری دل جمعی کے ساتھ اپنے کام سرانجام دیں عوام کو ان پر اعتماد ہے اور عوامی طاقت ان کے ساتھ ہے۔ ان کو اپنی پوری توجہ موجودہ مسائل کو حل کرنے پر لگانی چاہیے اور یاد رہے کہ حکومت کو اپنی عمدہ کارکردگی عوام تک پہنچانے کے لیے ان ”میڈیا کے میر جعفروں اور میر صادقوں“ کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).