میاں نواز شریف کی اپنی ماں سے محبت


جب سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے خلاف بنائے گئے ریفرنسز کا سامنا کرنے کے لئے پاکستان واپس آرہے تھے تو ان کی والدہ مرحومہ شمیم اختر کا ایک ویڈیو پیغام وائرل ہوا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ”پاکستان کا بیٹا میرا بیٹا ہے جس نے اسے روشن بنایا، کل وہ واپس آ رہا ہے تاکہ میں پھر سے اس کا ماتھا چوم سکوں۔“ ان کا کہنا تھا کہ اگر میرے بیٹے نواز شریف کو جیل بھیجا گیا تو میں بھی ان کے ساتھ جیل جاؤں گی۔ ”یہ ایک ماں کا اپنے بیٹے کی محبت میں ایک والہانہ ویڈیو پیغام تھاجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیگم شمیم اختر اپنے بیٹے نواز شریف سے کس قدرمحبت کرتی تھیں۔

جب 2018 میں الیکشن ہوئے تو بیگم شمیم اختر نے اپنا ووٹ ٹیکنالوجی کالج ریلوے روڈ پر کاسٹ کیا۔ اس وقت ان کا ووٹ نمبر 193 تھا۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ان کی تصویر بھی شیئر کی گئی جس میں وہ اپنے انگوٹھے پر ووٹ کاسٹ کرنے بعد لگایا جانے والا نشان دکھا رہی تھیں، تصویردیکھنے والوں کو اندازہ ہو چکا تھا کہ کہ ایک ماں اپنے بیٹے کی کامیابی کے لئے کس قدرکوشاں ہے۔ دوسری جانب جب میاں نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں منتقل کیا جانے لگا تا تو انھوں نے کوٹ لکھپت لاہورجیل میں منتقل ہونے کی درخواست دی تاکہ ان کی والدہ جو ویل چیئرکے سہارے نقل وحرکت کر سکتی تھیں، ان کو اپنے بیٹے نواز شریف سے ملنے میں آسانی ہو۔

ماں اور بیٹے کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف اپنے ہر اہم فیصلے سے قبل اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورانھیں اپنی سیاسی مہم جوئی یا اہم فیصلوں سے متعلق پہلے آگاہ کرتے اور پھر اجازت ملنے پر اپنے ان فیصلوں یا مہم جوئی پر عملدرآمد کرتے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کی کامیابی میں ان کی والدہ کی سرپرستی اور رہنمائی کا کردار سب سے زیادہ تھا۔

کچھ عرصہ قبل جب جیل میں میاں نواز شریف علیل ہو گئے اور انھیں ملک سے باہر بھیجنے کے لیے کوششیں شروع ہوئیں توانھوں نے کہا کہ وہ باہر نہیں جائیں گے بلکہ اپنی سرزمین پر جیل میں ہی مرنا پسند کریں گے چنانچہ اس موقع پرمیاں نواز شریف کو علاج کے لئے بیرون ملک علاج کے لئے رضامند کرنے کے لئے ان کی والدہ سے درخواست کی گئی تھی۔ والدہ کے کہنے پر نواز شریف رضامند ہو گئے اور علاج کے لئے لندن چلے گئے۔

بیگم شمیم اختر جب اپنے بیٹے سے اداس ہو گئیں تو ملنے کے لئے لندن چلی گئیں حالانکہ ڈ اکٹروں نے انھیں سفر کرنے سے منع کیا تھا اور وہ کچھ عرصہ سے علیل بھی تھیں۔ بیگم شمیم اختر اپنے تمام بیٹوں سے پیار کرتی تھیں اپنے بیٹوں کا ماتھا چومتے ہوئے یا بیٹوں کا ماں کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے اکثر تصویریں بھی وائرل ہوتی رہتی تھیں۔ بیگم شمیم اختر ایک ایسی ماں تھیں جن کے پیار، شفقت اور دعاؤں سے دوسرے بھی فیض یاب ہوتے رہتے تھے۔

شریف خاندان پر جب بھی سیاسی کڑی مشکلات آئیں یا میاں شریف مرحوم، عباس شریف مرحوم اور مرحومہ کلثوم نواز کی وفات جیسی دردناک آزمائشیں ہوں، بیگم شمیم اختر نے ہر حالات کا مقابلہ کیا اورکبھی بھی اپنے شوہر، بیٹوں یا خاندان کے لئے کمزوری کا سبب نہیں بنیں بلکہ ان کے لئے ہمت اورطاقت کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ وہ ایک گھنے درخت کی طرح سایہ کیے ہوئے اور ایک چٹان کی طرح اپنے خاندان کے ساتھ کھڑی تھیں۔

بیگم شمیم اختر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ شاید میاں نواز شریف اپنی والدہ کی تدفین میں شرکت نہ کرسکیں۔ یہ بھی ایک دلخراش اتفاق ہے کہ نواز شریف جلا وطنی کے باعث اپنے والد کی تدفین میں بھی شرکت نہیں کرسکے تھے۔ والدہ کی وفات پر جب دونوں بھائیوں (نواز شریف اور شہباز شریف) کی آپس میں بات ہوئی تو دونوں آبدیدہ ہو گئے اور اس وقت کو بھی یاد کیا جب ان کے والد فوت ہوئے تھے لیکن جلا وطنی کے باعث وہ دونوں پاکستان ان کی تدفین کے لیے نہیں آسکے تھے۔

حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جیل میں سزا کاٹ رہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کوبیگم شمیم اختر کی تدفین میں شرکت کے لئے پیرول پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیگم شمیم اختر کی وفات پر وزیر اعظم عمران خان اورآرمی چیف قمر جاوید باجوہ سمیت تمام سیاسی رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ بیگم شمیم اختر نے اپنی زندگی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تادیر یاد رکھی جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).