صومالیہ میں الشباب کے بعد زندگی: ’پہلے شدت پسند تنظیم کے لیے اسلحے سے بھرا ٹرک چلاتا تھا، اب سکول بس‘


الشباب
صومالیہ کی اسلامی شدت پسند تنظیم الشباب نے ہزاروں سپاہیوں کو بھرتی کیا ہے لیکن انھیں ایسے افراد کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو ان کے زیر انتظام علاقوں میں عوامی خدمات انجام دیں سکیں۔

جس کسی نے بھی وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی اور پکڑا گیا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن اسی کے ساتھ ہی، حکومت نے لوٹنے والے باغی افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے اور معاشرتی دھارے میں دوبارہ داخل ہونے میں ان کی مدد کے لیے بحالی مراکز کھولے ہیں۔

ان میں سے تین سابقہ باغی ایسے ہی ایک مرکز میں ایک اندھیرے کمرے میں میرے سامنے بیٹھے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نہ ختم ہونے والی جنگ میں مستقبل کو سنوارنے کی جدوجہد

پاکستان سے انڈیا لوٹنے والے کشمیری جنھیں اپنوں نے ہی قبول نہیں کیا

بین الافغان امن مذاکرات پر جہادی گروہ منقسم

ابراہیم بائیں جانب ہے، اس کی آنکھوں میں اعتماد ہے، دھوپ کا چشمہ اس نے دھاری دار ٹی شرٹ میں اٹکایا ہوا ہے، ایک بڑی سے گھڑی اپنی کلائی پر باندھی ہوئی ہے اور اس کی موٹی موٹی بھوری آنکھیں اس کی بیس بال ٹوپی کے نیچے سے چمک رہی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ وہ 35 برس کا ہے۔

مولید درمیان میں بیٹھا ہے، وہ دبلا پتلاہے اور اس نےاپنی پیلی شرٹ کے ساتھ میچنگ کرتے ہوئے پیلے رنگ کی ہوائی چپل پہن رکھی ہے۔ اس کی عمر 28 برس ہے۔

دائیں جانب احمد بیٹھا ہے، اس کی ہلکی داڑھی ہے اور اس نے اپنے سر پر سکارف باندھ رکھا ہے۔اس نے ہلکے آسمانی رنگ کی ٹی شرٹ پر اس رنگ کی قیمض پہن رکھی ہے۔ اس کی عمر 40 برس ہے۔

انھیں ایک شکایت ہے ۔ موغادیشو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تار کے پیچھے، اس محفوظ جگہ پر پیش کیا جانے والا ناشتہ انھیں پسند نہیں ہے۔

احمد کہتے ہیں’یہ ہمارے روایتی کھانے کی طرح نہیں ہے، جیسا کے پین کیکس اور پھلیاں، ہمیں بوتل کا پانی پسند نہیں ہے، ہمیں سادہ زندگی اور سادہ پانی پسند ہے۔’

بدقسمتی سے ایئرپورٹ پر کھانے کی دکانوں پر بین الاقوامی ذائقے کے مطابق کھانے کی چیزیں موجود تھیں، وہاں پیزا، سٹیک اور بیئر تھی لیکن صومالی کھانا نہیں۔

میں نے ان تینوں افراد کو بتانا شروع کیا کہ میں ان کا اصل نام استعمال نہیں کروں گی، ان کی تصاویر نہیں لوں گی، اور کسی ایسی چیز کے متعلق رپورٹ نہیں کروں گی جس سے یہ مشکل میں آ جائے یا جس بارے میں وہ کھل کر بات نہ کرنا چاہتے ہوں۔

الشباب

ابراہیم نے مجھے ٹوکا، 'ہم اپنی کہانیاں بتانے پر خوفزدہ نہیں ہیں، آپ جو چاہیں ہم سے پوچھیں، آپ ہماری تصاویر بھی اتار سکتی ہیں اور ہمارے اصل نام بھی استعمال کر سکتی ہیں۔'

البتہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں نہ تو ان کے اصل نام استعمال کروں گی اور نہ ہی ان کی تصاویر لوں گی، کیونکہ مجھے ان کی زندگی کے متعلق خوف تھا۔

یہ اس لیے کیونکہ یہ تینوں اسلامی شدت پسند تنظیم الشباب سے باغی ہو کر آئے تھے۔صومالیہ میں شدت پسند تنظیم الشباب کو قائم ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے اور ملک کے زیادہ تر علاقوں پر اس کا قبضہ ہے اور یہاں سخت قوانین اور سزائیں رائج ہیں۔

اس گروہ نے صومالیہ میں ایک مساوی انتظامیہ قائم کر رکھی ہے جس میں ان کے اپنے وزرا، پولیس اور عدالتی نظام ہے۔وہ سکول، صحت کے مراکز چلاتے ہیں، زمینوں کو کاشت کرنے کے لیے پانی مہیا کرتے ہیں، سڑکوں اور پلوں کی مرمت کرتے ہیں اور اس سب کے لیے انھیں لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

بغاوت یا انھیں چھوڑ کی سزا موت ہے، الشباب نے مجھے بتایا تھا کہ یہ سزا صرف جنگجوؤں کے لیے ہی نہیں بلکہ جو کوئی بھی ان کا گروہ چھوڑ کر جائے گا ان سب کے لیے ہے۔

ان تینوں میں سے سب سے صاف اور سیدھی بات کہنے والے احمد کا کہنا تھا کہ ‘میں نے الشباب میں شمولیت صرف پیسے کے لیے اختیار کی تھی۔ وہ مجھے دو سو سے تین سو ڈالر مہینہ دیتے تھے اور میں اپنے علاقے میں ان کی ٹرانسپورٹ کا انچارج تھا۔’

الشباب

اس دوران ابراہیم نے اپنی انگلیوں کو ہاتھ پر رگڑتے ہوئے پیسوں کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ 'میں نے بھی الشباب میں پیسوں کی خاطر شمولیت اختیار کی تھی، میں تین سال تک ان کا سپاہی تھا، جب آپ ان میں ہوتے ہیں تو آپ کو مزہ آتا ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ ‘جس بات کو میں نے الشباب میں رہتے ہوئے ناپسند کیا وہ ان کی میرے ذہن کو بدلنے کی کوشش تھی، ہر دو ہفتوں بعد وہ ذہن سازی کرنے والی ٹیم ہماری بٹالین میں بھیجتے تھے۔ جو گھنٹوں ہمارے ساتھ بیٹھ کر قرآن کی آیات سناتی تھی اور بار بار یہ دہراتی تھی کہ کیسے صومالی حکومت، افریکن یونین اور بین الاقوامی مدد کرنے والے مرتد اور کافر ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ ایسے تھا کہ جیسے انھوں نے الشباب کے سم کارڈ ہمارے دماغوں میں ڈال دیے ہوں۔’

ان تینوں افراد کا کہنا ہے کہ اگرچہ الشباب نے پروپیگنڈا کے ذریعے اپنے نظریات سے ان کے ذہنوں کو تبدیل کر دیا تھا، لیکن انھیں یہ احساس ہوا کہ یہ گروہ اسلام کی ایک بہتر شکل کے لیے نہیں لڑ رہا ہے بلکہ یہ ایک بٹی ہوئی، گمراہ کن تنظیم ہے۔ اب یہ کافی نہیں تھا کہ عسکریت پسندوں نے انھیں رقم دی تھی۔

لیکن انھوں نے مجھے بتایا کہ اس تنظیم کو چھوڑنے کا فیصلہ بہت خوفناک تھا۔

پہلے وہاں سے فرار ہونا، پھر اکیلے طویل سفر پیدل طے کرنا تاکہ الشباب کے زیر انتظام علاقے سے نکلا جا سکے۔

الشباب

احمد نے بتایا کہ 'آغاز میں میں رات کو چلا تھا، میرے پیروں پر چھالے پڑ گئے تھے، خوش قسمتی سے میرے پاس میرا موبائل تھا، لہذا میں نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا، انھوں نے ایک ایسے شخص کا بتایا جس پر میں اعتماد کر سکتا تھا اور جس نے مجھے محفوظ جگہ تک پہنچنے میں رہنمائی کی۔ اس میں کئی روز لگے اور ہر قدم جو میں اٹھاتا تھا مجھے خوف گھیرے رہتا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ مجھے روک لیا جائے گا اور یقینی موت کے لیے واپس بھیج دیا جائے گا، جو کسی عوامی جگہ پر میرا سر قلم کر کے ہو گی، الشباب بغاوت کرنے والوں کو ایسے ہی سزا دیتی تھی۔'

لیکن دوسری طرف کیا ہوگا اس کا خوف بھی ہے۔ مسلح گروہ کے سینیئر رہنما نئے بھرتے کیے گئے افراد کو بتاتے ہیں کہ صومالی سکیورٹی ادارے واپس لوٹنے والوں کو الیکٹرک شاک دے کر ان پر تشدد کریں گے۔

کئی افراد بے خبر ہیں کہ حکومتی ایمنسٹی سکیم (عام معافی) یا ایسے لوگوں کے لیے بحالی کے مراکز موجود ہیں جہاں انھیں ‘تعلیمِ نو’ دی جاتی ہیں اور دوبارہ معاشرے کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

الشباب کے علاقوں میں ان سکیمز سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ رنگ برنگے کتابچے بنائے گئے ہیں جن میں ان پڑھ افراد کو سمجھانے کے لیے ایسی تصاویر موجود ہیں جن میں یہ دکھایا جا رہا ہے کہ کیسے لوگوں کو الشباب سے بچایا گیا۔ اور اس میں فون نمبر بھی دیے گئے ہیں تاکہ لوگ وہاں سے نکل سکیں۔

ان کوششیں سے واپس لوٹنے والوں میں اضافہ ہوا ہے اور رواں سال دو ماہ کے عرصے میں 60 افراد الشباب چھوڑنے میں کامیاب ہوئے۔

الشباب

ابراہیم تین سال تک الشباب کا حصہ رہے اور انھیں وہ جگہ چھوڑنے کا فیصلہ لینے میں میں دو ماہ لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ کبھی بھی اپنے آبائی گاؤں نہیں جائیں گے۔ اور اپنی باقی زندگی اس شہر کا حصہ بننے میں گزاریں گے، ورنہ الشباب کے اراکین انھیں ڈھونڈ کر ہلاک کر دیں گے۔

تینوں مرد بالآخر اس بحالی کے مرکز پہنچے جس کا نام سریندی ہے اور اسی شہر میں موجود ہے۔ انھیں اتنی زیادہ دھمکیاں مل چکی ہیں کہ جب میں ان سے ملنے گیا تو وہاں 84 افراد کے لیے 80 سکیورٹی گارڈ تعینات تھے۔

یہ مرکز الشباب کے سینیئر اراکین کو داخل نہیں کرتا۔ گروہ کے زیادہ خطرناک ماسٹر مائنڈز کی بحالی کے لیے ایک الگ پروگرام ہے۔ سریندی میں ان فوجیوں، پورٹروں، مکینک یا ایسے افراد کی بحالی ہوتی ہے جو نچلی سطح پر تھے۔

ان کے داخلے سے قبل نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی ایجنسی ان کی جانچ کرتی ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ انھوں نے گروہ سے علیحدہ ہو کر خود یہ فیصلہ کیا ہے اور وہ اس کے نظریے کی مذمت کرتے ہیں۔

الشباب

ایک صحافی کا کہنا ہے کہ الشباب کے کچھ متحرک اراکین پھر بھی ان بحالی کے مراکز تک پہنچ جاتے ہیں اور کیمپ سے اپنے سربراہان تک پیغام پہنچاتے ہیں۔

سریندی کا مقصد ان افراد کو جسمانی، ذہنی اور روحانی طور پر بحال کرنا ہے اور انھیں ایسے ہنر سکھانے ہیں تاکہ وہ باہر دنیا کا حصہ بن سکیں، چاہے وہ واپس اپنے گھر جاتے ہیں، کسی کمیونٹی میں یا کہیں اور۔

مولید کہتے ہیں کہ ‘جب میں الشباب میں تھا تو میں وہاں مسلح پِک اپ ٹرک چلاتا تھا جسے ہم ‘وولو’ کہتے تھے۔ مجھے کسی کا خوف نہیں تھا۔’

‘جب میں سریندی آیا تو یہاں نگران نے دیکھا کہ مجھے ڈرائیونگ آتی ہے۔ میں کیمپ میں لوگوں کو کار چلانا سیکھاتا رہا۔ اب میں ایک سکول کی بس کا ڈرائیور ہوں۔ ایک دن میں چاہوں گا میرا اپنا ٹرانسپورٹ کا کاروبار ہو۔’

احمد اب زمین خرید کر اور بیچ کر پیسے کماتے ہیں۔

ابراہیم بتاتے ہیں کہ انھوں نے سریندی میں حجام بننا سیکھا اور انھوں نے اتنا کام کیا کہ کیمپ میں ہی انھوں نے الشباب سے لوٹنے والوں اور سکیورٹی گارڈوں کی حجامت کر کے پیسے کمانا شروع کر دیے۔

الشباب

شہر میں اب ان کی حجامت کی دکان ہے اور ان کے لیے تین لوگ کام کرتے ہیں۔ 'میں نے اتنے پیسے کما لیے ہیں کہ اب میں اپنی دو بیویوں اور آٹھ بچوں کی دیکھ بھال کر سکتا ہوں۔' وہ کہتے ہیں کہ اب ان کا خاندان بھی ان کے ساتھ یہاں رہتا ہے۔

لیکن الشباب چھوڑنے کے بعد کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی آسان رہی ہو۔

مولید کہتے ہیں کہ ان کے خاندان کے کچھ افراد نے ان سے تعلق ختم کر دیا ہے اور باقی ان پر اعتماد نہیں کرتے۔

ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ اب اپنے لوگوں میں واپس نہیں جاسکتے کیونکہ وہاں خطرہ ہے کہ کوئی انھیں ڈھونڈ کر قتل کر دے گا۔ ان کے خاندان نے انھیں معاف کر دیا ہے لیکن ہمسایوں نے نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ الشباب کے ساتھ وقت گزارنے کی وجہ سے ابھی بھی ان کے کچھ زخم موجود ہیں جو انھیں خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔

‘میں اپنے دماغ سے الشباب کا سِم کارڈ نکالنے میں مشکل محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ میرے آنکھوں کے سامنےایسی بُری چیزیں آتی ہیں جن میں، میں ملوث تھا یا جن کا میں شکار ہوا۔’

الشباب

سریندی میں الشباب سے لوٹنے والوں کو کلاس رومز میں بنیادی تعلیم، انگلش، ریاضی، اور دوسرے مضمون پڑھائے جاتے ہیں۔ باقی لوگ مکینک، ویلڈنگ، آئی ٹی، ڈرئیونگ یا دوسرے ہنر سیکھتے ہیں۔

بڑے کمرے میں نئے درزی رنگ برنگے کپڑے بناتے ہیں۔ یہ کپڑے پتلوں کو پہنا کر کے دکھائے جا رہے ہیں۔ الشباب کے علاقوں میں خواتین کو اکثر سیاہ رنگ کا نقاب پہننا پڑتا ہے۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران درزیوں نے چہرے کے ماسک بنانا شروع کر دیے تاکہ لوگ وہ پہن کر وائرس کے پھیلاؤ سے بچ سکیں۔

کچھ نوجوان لوگ کمروں میں آرام کرتے ہیں۔ ان کمروں میں صاف ستھرے بنک بیڈ لگائے گئے ہیں۔ ان کے بیڈ کے نیچے لاک والے ڈبے رکھے گئے ہیں جن میں وہ اپنی چیزیں رکھ سکتے ہیں۔

دوسرے کمرے سے اونچی موسیقی کی آواز آتی ہے۔ دو مرد گانا گاتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔ مسلح گروہ ان چیزوں سے منع کرتے ہیں۔ صرف قرآن کو اونچی آواز میں پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ اکثر فوجی حلیے میں آجاتے ہیں۔ الشباب میں تعیناتی سے متعلق کچھ ویڈیوز میں یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ وہاں لوٹنے والے اپنا ماضی حذف نہیں کر سکتے۔ شاید انھیں اس طرز پر ‘پروگرام’ کر دیا گیا ہے جیسے الشباب میں وہ کام کر رہے تھے۔

ایک پروفیشنل فٹنال کوچ سریندی میں آتا ہے اور وہ ان لوٹنے والے افراد، عملے اور گارڈز کے ساتھ میچ کھیلتا ہے۔ یہاں یہ گراؤنڈ کافی اچھی حالت میں ہے۔

الشباب

علما لوگوں میں اسلام سے متعلق خیالات کی تصحیح کی کوششیں کرتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو تربیت دیتے ہیں کہ اسلام کی ایک دوسری قسم بھی ہے جو الشباب کے نظریات سے مختلف ہے۔

مرکز کا عملہ بتایا ہے کہ لوٹنے والے ان افراد کو سیاسی تعلیم کیسے دی جاتی ہے تاکہ وہ حکومت کو مثبت طور پر دیکھ سکیں۔

کچھ عرصے بعد انھیں ہفتہ وار چھٹیاں لینے کی اجازت مل جاتی ہے۔ کچھ پڑھتے ہیں، باقی باہر کام کرتے ہیں اور بعض شام کو واپس سریندی آجاتے ہیں۔

دو بستروں کا ایک کلینک موجود ہے جہاں طبی عملہ لوٹنے والوں کو ٹائیفائیڈ، ملیریا، غذائی قلت، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماروں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئے آنے والے لوگوں میں آتشک ایک عام بیماری ہے۔ کچھ اس مرکز پر پانی کی شدید کمی کے ساتھ آتے ہیں، ان کے جسم پر گولیوں کے نشان ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کے جسم میں گولیاں موجود رہتی ہیں۔

لیکن سریندی ہمیشہ سے ایسا ادارہ نہیں رہا جہاں اچھا کام ہوتا ہو۔ 2012 میں اس کا قیام ہوا اور اس میں بہت حد تک کوششیں جاری رہیں۔ بعض اوقات یہاں حالات اتنے بُرے ہوتے تھے کہ وہ اپنی ساتھیوں کو الشباب چھوڑنے کے حوالے سے حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ (مسلح گروہ کے رہنما نئے لوگوں کو فون رکھنے کی اجازت دیتے ہیں، اور کبھی کبھار ان سے ہفتے کے کچھ عرصے کے لیے فون واپس لے لیتے ہیں۔)

سریندی اب کامیابی سے چل رہا ہے اور اب لوٹنے والوں کی بیویوں کے لیے بھی بحالی کے مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ہوتی تھیں جب وہ الشباب کے ساتھ کام کرتے تھے۔ خواتین اس گروہ کا اہم اور متحرک حصہ رہی ہیں۔

الشباب

میں نوجوان بشیر سے ملا جنھوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بولنے میں نرم لہجہ رکھتے تھے۔ وہ سریندی میں دو سال گزارنے کے بعد وہاں سے چلے گئے تھے۔ یہ سوچنا مشکل ہے کہ ان جیسا شخص ایک ایسے گروہ کے ساتھ کیسے منسلک رہا جو پُرتشدد کارروائیوں اور نظریات پر مرکوز ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نوجوان تھا جب میں نے اس گروہ میں شمولیت اختیار کی۔ میں سائنس میں اچھا تھا۔ الشباب نے کہا کہ میں طبی عملے کی مدد کروں۔ میں انھیں نہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا اور مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔ وہ مجھے ایک ماہ کے 70 ڈالر دیتے تھے۔’

بشیر نے سریندی چھوڑنے کے بعد ان 250 ڈالر سے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور چھوٹا دوا خانہ بنایا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نے آئس کریم بھی بیچی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ الشباب ایک دن مجھے ڈھونڈ لیں گے۔’

یہ ممکن ہے۔ شہری کہتے ہیں کہ مسلح افراد شہر میں ہر طرف ہیں۔ وہ لوگوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں، عطیات تقسیم کرتے ہیں اور حکومتی نگرانی والے علاقوں میں بھی اپنے طور پر انصاف فراہم کرتے ہیں۔

ابتدائی مسائل کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ نچلے درجے کی یہ سکیم اچھے طریقے سے کام کر گئی ہے۔ سریندی کا عملہ کہتا ہے کہ سینکڑوں افراد نے پروگرام مکمل کیا ہے اور وہ ایسے لوگوں کو نہیں جانتے جنھوں نے دوبارہ الشباب میں شمولیت اختیار کر لی ہو۔

ہزاروں افراد اب بھی الشباب کا حصہ ہیں اور صومالیہ سمیت دیگر علاقوں میں اپنی دہشت پھیلا رہے ہیں۔ اس گروہ نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ہٹلوں اور شاپنگ مالز میں حملے کیے ہیں۔ موغادیشو میں اس نے بڑی سطح پر حملے کیے ہیں جن میں ہزاروں افراد ایک وقت میں ہلاک ہوئے۔

ابراہیم، مولید، احمد اور بشیر جیسے لوگ اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کر رہے ہیں اور وہ الشباب سے نکلنے پر خوش ہیں۔ وہ سریندی جیسے مراکز تک کیسے پہنچ سکتے ہیں یہ ایک چیلنج ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp