گلگت بلتستان: دھاندلی کے الزامات پر ہنگامے پھوٹ پڑے، علاقے کے چیف الیکشن کمشنر کے اپوزیشن جماعتوں پر الزامات


احتجاج
پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے دارالحکومت گلگت میں خطے کے حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے تنازع کے بعد جاری پرامن مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراو اور توڑ پھوڑ ہوئی ہے۔ انتظامیہ نے اس کا ذمہ دار حزب اختلاف کی جماعتوں کا قرار دیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

پیر کے روز گلگت شہر میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج اور ہنگامہ آرائی بھی ہوئی۔

خیال رہے کہ علاقے میں حالیہ انتخابات کے نتائج کو ملک کی دو بڑی حـزب اختلاف کی جماعتوں۔۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز۔۔۔ نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے اور حکومت پر الیکشن کمشین کے ساتھ مل کر دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

ان انتخابات میں پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ جیتنے والے آزاد امیداروں کی اکثریت نے بھی حکومتی جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مریم کا گلگت بلتستان انتخابات میں دھاندلی کا الزام، بلاول کی ’اسلام آباد جانے‘ کی دھمکی

گلگت بلتستان انتخابات: کیا تحریک انصاف کو وہ کامیابی نہیں مل پائی جس کی توقع تھی؟

مظاہروں اور احتجاج سے متعلق گلگت بلتستان کی نگران حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے الزامات عائد کیے ہیں کہ جس وقت چیف الیکشن کمشنر گلگت میں شکایات سن رہے تھے اس دوران پیپلز پارٹی کے انتخاب ہارنے والے امیدوار اور کارکنان نے دروازے کو لاتیں ماریں اور باہر نکل گئے، جس کے بعد ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی تھی۔

ترجمان کے مطابق ہنگامہ آرائی کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور انھوں نے حکومت کی رٹ کو بحال کیا۔

گلگت سے صحافی عبدالرحمٰن بخاری کے مطابق مشتعل مظاہرین نے چنار باغ کے قریب روڈ کو بلاک کیا تو پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ ان کے مطابق اس موقع پر پولیس نے شدید آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ہوائی فائرنگ بھی کی تھی۔

گلگلت بلتستان

ان کے مطابق پولیس کارروائی کے بعد شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔

اب تک نامعلوم مظاہرین نے محکمہ جنگلات کے دفتر اور چار گاڑیوں کو جس میں فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی شامل ہے نذر آتش کردیا ہے۔

مظاہرین آخری اطلات تک گلگت کی مختلف سڑکوں پر ٹولیوں کی شکلوں میں موجود تھے اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

مقامی لوگوں کے مطابق گلگت شہر کا حلقہ نمبر دو تقریباً بند ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک جام ہے اور مختلف مقامات پر ٹائروں کو آگ لگائی گئی ہے۔

بلتستان کے شہر سکردو میں بھی احتجاج کی اطلاعات آ رہی ہیں۔

حلقہ دو میں احتجاج کیوں شروع ہوا؟

پاکستان پیپلز پارٹی حلقہ دو گلگت سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل احمد کے مطابق ووٹوں کی گنتی کے دوران پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں نے جو کہ پی ڈی ایم میں موجود ہیں پوسٹل بیلٹ پر اعتراضات اٹھائے تھے، جن کے نتیجے میں ریٹرنگ آفیسر کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا کہ جب تک پوسٹل بیلٹ کے ووٹوں کی محکمہ انکوائری اور فارنسنگ رپورٹ تیار نہیں ہوجاتی ان کی گنتی نہیں ہو گی۔

جمیل احمد کا کہنا تھا کہ پیر کے روز ہمیں چیف الیکشن کمشنر نے نوٹس کیا ہوا تھا اور ہم اس نوٹس پر پیش ہوئے۔ ان کے مطابق اس موقع پر نواز لیگ کے امیدوار اور اپوزیشن کی دیگر پی ڈی ایم اتحاد سے تعلق رکھنے والے امیدوار بھی موجود تھے۔

’ہم نے چیف الیکشن کمشنر کو بتایا کہ ہمارا ریٹرنگ آفیسر سے معاہدہ ہوا ہے کہ پوسٹل بیلٹ کے ووٹوں کی گنتی سے پہلے ہر ایک ووٹ کی محکمانہ انکوائری کے علاوہ فارنزک رپورٹ تیار ہو گی۔‘

’مگر چیف الیکشن کمشنر نے ہمیں کھلا ہوا لفافہ دیا حالانکہ ہم لوگوں نے لفافہ خود سیل کیا تھا۔‘

پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر اور نو منتخب ممبر اسمبلی امجد ایڈووکیٹ کا دعویٰ تھا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق حلقہ دو کے کوئی تیرہ سو سے زائد بیلٹ پیپر جاری ہوئے تھے مگر جب ریٹرنگ آفیسر کے پاس ہمارے امیدوار گنتی کررہے تھے تو یہ سترہ سو سے زائد نکلے۔

گلگلت

ان کے مطابق اس ’دھاندلی‘ پر ہم نے احتجاج کیا تو یہ طے ہوا کہ ہر پوسٹل بیلٹ کے ووٹ کی گنتی کی جائے گی۔

مگر اب اس سے انکار کرکے نہ صرف معاہدہ کی خلاف ورزی کی جارہی ہے بلکہ بڑے واضح طور پر ہمارے انتخابات بھی چرائے جا رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف کیا ہے؟

چیف الیکشن کمشنر راجہ صاحبزادہ خان کا کہنا ہے کہ آج الیکشن کمشن افسران کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد امجد ایڈووکیٹ نے ان کے سامنے دلائل دیے اور ایک گھنٹے کے بعد انھوں نے دلائل چھوڑ کر فائل پھینک دی اور باہر نکل کر احتجاج شروع کردیا۔

چیف الیکشن کمشنر نے پیپلز پارٹی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کسی بھی جماعت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی معاہد نہیں ہوا ہے۔

راجہ صاحبزادہ خان نے مزید بتایا کہ ’میرے پاس ایسا کوئی معاہدہ نہیں پہنچا ہے۔ میرے پاس قانون کے مطابق ریٹرنگ افسر فارم 48 اور 49 لے کر آئے۔

چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کے مطابق پہلے تو ایسا کوئی معاہدہ میرے پاس نہیں پہنچا ہے لیکن ایک لمحہ کے لیے فرض بھی کرلیں کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انتخابات قانون کے مطابق ہوتے ہیں معاہدوں کے مطابق نہیں ہوتے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ قانون کے مطابق ہمیں الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت چلنا ہے، جس میں اس طرح کے معاہدوں کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

راجہ صاحبزادہ خان نے تجویز دی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے تو وہ پھر الیکشن ٹربیونل میں جائیں۔ جہاں پر ہائی کورٹ کے جج تعینات ہیں۔ اس میں الیکشن کمیشن کو بھی پارٹی بنائے۔ وہاں قانون کے مطابق فیصلہ ہوجائے گا۔

ہنگامے کیسے شروع ہوئے؟

پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل احمد نے الزام عائد کیا کہ جب چیف الیکشن کمشنر نے سرے سے معاہدہ کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تو پھر یہ واضح ہو چکا تھا کہ وہ ہمارا انتخاب اور ووٹ چرانا چاہتے تھے۔ جس پر ہم لوگوں نے الیکشن کمشنر کے پاس موجود کاروائی کا بائیکاٹ کیا اور باہر نکل کر دھرنا دے دیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ’ہمارے پُر امن لوگوں پر پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی مگر اس صورتحال میں ہم نے اپنے کارکنان کو کنٹرول کیا اور ان کو لے کر دوسرے مقام پر چلے گئے۔‘

جلاؤ گھیراؤ

’جس کے بعد مجھے لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے پہلے سے اپنی منصوبہ بندی کے مطابق توڑ پھوڑ کی اور اس کا الزام پیپلز پارٹی اور اپوزیشن پارٹیوں پر لگایا ہے۔‘

گلگت انتظامیہ کے مطابق اس وقت گلگت میں امن وامان بحال کردیا گیا ہے۔

انتظامیہ کے مطابق ہنگامہ آرائی اپوزیشن پارٹیوں کے احتجاج کے دوران شروع ہوئی، جس میں سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس ہنگامہ آرائی کے ذمہ اداروں کے خلاف مقدمات درج ہورہے ہیں اور مختلف لوگوں کی شناخت کا عمل جاری ہے، جس کے بعد گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔

اپوزیشن جماعتوں کے انتخابات پر اعتراضات

امجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے ان کا انتخاب چرایا ہے۔ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کا ’پاپولر‘ ووٹ ہے۔

انھوں نے کہا کہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں نے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق ڈیڑہ لاکھ سے زائد ووٹ لیے ہیں جبکہ حکومتی اتحاد ایک لاکھ تک ووٹ حاصل کر سکا ہے۔

ان کے مطابق اس کے باوجود اپوزیشن پارٹیوں کے پاس صرف چھ سیٹیں ہیں، جس میں تین پیپلز پارٹی، دو نون لیگ اور ایک جمعیت علماء اسلام ف جبکہ سات آزاد اور آٹھ تحریک انصاف کے لوگوں کو فاتح قرار دیا گیا ہے۔

امجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں شروع دن ہی سے ہمارے ساتھ دھاندلی ہورہی ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ گلگت بلتستان کے پہلے دو انتخابات میں فرائض مقامی عدلیہ کے جوڈیشنل افسران نے انجام دیے تھے۔

مزید پڑھیے

جہاں عورت کے ووٹ ڈالنے پر چار قتل ہوئے، وہاں سعدیہ نے الیکشن لڑنے کی جرات کیسے کی؟

گلگت بلتستان میں انتخابی مہم اور بابا جان سمیت 14 اسیران کی رہائی کے لیے دھرنا

مگر اس مرتبہ وفاقی حکومت کے ملازمین ان انتخابات میں ریٹرننگ افسران بن گئے، جس پر ہم نے احتجاج کیا، عدالت بھی گئے مگر ہمارا مؤقف مسترد کردیا گیا۔

امجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات ہمیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہیں۔ ان کے خلاف اب ہم احتجاج کر رہے ہیں اور پورے گلگت بلتستان میں احتجاج کی کال دی جاچکی ہے جبکہ گلگت کے ساتھ ساتھ دیامیر، ہنزہ اور دیگر علاقوں میں اب بھی احتجاج جاری ہے۔

چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ موجود انتخابات گلگت بلتستان کی تاریخ کے پُر امن ترین اور صاف ترین انتخابات ہیں۔

ان کے مطابق انھوں نے ایک ایک ووٹ گنا ہے۔ صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ انتخابات کے بعد تقریباً ہر حلقے سے دوبارہ گنتی کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور ہم نے وہ پراسس بھی مکمل کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp