اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ: ’لگے رہو مُنا بھائی‘


سورج کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے سے نہ تو حدت کم ہو جاتی ہے اور نہ ہی روشنی ختم۔ دن میں جلایا جانے والا چراغ سورج کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے اور ہوائیں ذہنوں میں جلتے دیوں کو کیسے بُجھا سکتی ہیں؟

مگر ہم حقیقت سے نظریں چرا کر اجالوں کو فریب دینے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔

ہر صبح ایک نیا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے اور دن گزرتے ہی ’رات گئی بات گئی‘ کے مصداق اگلے دن میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے کوئی نئی بات گھڑ لی جاتی ہے۔ یوں بظاہر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کامیاب مظاہرہ ہر روز جاری رہتا ہے۔

لوہے کے کھوپے چڑھا کر تیار کی جانے والی پوری نسل دلیل کو دفن کر کے الزام اور بہتان بیچتی ہے اور فکرِ فردا سے بے پرواہ اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اپنی انگلیاں سوشل میڈیا پر گھسیٹ گھسیٹ کر ’قومی فریضہ‘ سرانجام دیتی ہے۔

سوشل میڈیا پر اپنے بینرز میں کلمہ طیبہ کے پاک حروف، پاکستان کا قومی پرچم، کپتان وزیرِ اعظم کی تصاویر نمایاں طور پر سجائے یہ ’گالم گلوچ بریگیڈ‘ بھرپور ناپاک زُبان کا استعمال کرتی ہے اور ’ریاستِ مدینہ‘ کا نام لے کر وہ وہ مغلظات سُناتی ہے کہ الامان الحفیظ۔

نفرت اور تعصب کے ہتھیاروں سے لیس یہ پوری پود ’پاکستان کی نظریاتی سرحدوں‘ کی محافظ بن کر صبح شام خوب پاکستانیت کا پر چار کرتی ہے۔

یہ سوشل میڈیائی جنگجو صحافت کو ایمان بنانے والے قلمکاروں کو ’لفافوں‘ اور تنقید کرنے والے اخباروں کو ’غداری‘ کے طعنے دیتے ہیں۔ یوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیہاڑیاں پکی اور روزگار مستقل ہونے کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بھی مل جاتے ہیں۔

ٹیلی ویژن کی جانب آئیے۔ ’ترجمانوں‘ کی کرایہ دار معاون بریگیڈ ہر اُس مسئلے کو مسئلہ بناتی ہے جو مسئلہ نہیں۔ پرائم ٹائم کے جغادری اپنی دکان سجا کر مصالحہ فراہم کر دیتے ہیں اور یوں سات سے 12 کے پرائم ٹائم کا اہم مرحلہ بھی روزانہ کی بنیاد پر لایعنی اور بے معنی مباحثوں میں نکل جاتا ہے۔ اور پھر دن بھر کی تھکی ہاری قوم تفریحی لمحات سے محظوظ ہوتی ہوئی مزید گہری نیند سو جاتی ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ خطے کی صورت حال کیا ہے، افغانستان میں کیا کھچڑی پک رہی ہے، خلیجی ریاستوں میں کیا چل رہا ہے، سعودی عرب اسرائیل رابطے کیوں ہو رہے ہیں اور اسرائیلی اخبارات میں پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں کیا کیا چھپ رہا ہے؟

گذشتہ ایک ہفتے میں پاکستانی وزیرِ اعظم کے حالیہ انٹرویوز میں اسرائیل سے متعلق بیانات کو نمایاں جگہ دی جا رہی ہے جن میں وزیرِ اعظم نے فرمایا تھا کہ دوست ملک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ موجود ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیرِ اعظم کے سعودی عرب کے مبینہ دورے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے کچھ قریبی صحافتی حلقوں کے بیانات کو بھی اسرائیلی اخبارات میں کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ جاتے جاتے خطے میں کیا کرنا چاہتی ہے، ہم اس سے بے خبر ہیں یا جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ سعودی عرب ہم سے دو ارب ڈالرز کی واپسی کیوں چاہتا ہے، ہم جاننا نہیں چاہتے۔ خلیجی ریاستوں میں پاکستانیوں پر دباؤ کیوں بڑھ رہا ہے، ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلے جیسی گرمی کے ساتھ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہ کرنے کا کیوں نہیں کہا، ہمیں اس سے کیا؟

اسرائیلی اخبار کیوں لکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ اسرائیل سے روابط رکھنے میں کوئی حرج نہیں رکھتی، ہم اس بارے میں کوئی بات لکھنے اور بولنے کو تیار نہیں۔

ہم تو اس سے بھی بے پروا ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہم کشمیر پر حق حاکمیت کھو دیں گے اور جنوبی ایشیاء میں 5 اگست سے جاری کھیل اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔

آئندہ چند دنوں میں بلی تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی اور یہی کپتان کا بڑا امتحان بھی ہو گا۔ خوب بحث مباحثے ہوں گے اور پھر ہم کسی نئی بحث کو چھیڑ کر اس میں مگن ہو جائیں گے۔

ہم بے خبر ہیں کہ ہمارے معاشی مسائل کیوں بڑھ گئے ہیں؟ گندم اور چینی کے بعد اب کپاس بھی درآمد کرنی پڑے گی۔ سٹاک مارکیٹ مسلسل گر رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر دوست ممالک کی مہربانی سے بہتر ہیں لیکن اگر ان شفیق ممالک نے ہمارے سر سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا تو ہم کدھر جائیں گے؟

گرتی معیشت اور بڑھتے عالمی مطالبات ہمیں کس حد تک ’خود مختار‘ رہنے دیں گے، یہ بحث الگ ہے، مگر ہمیں تو صرف میڈیا اور سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیادوں پر لوگوں کو نان ایشوز میں الجھانا ہے۔

دنیا کہاں سے کہاں چلی جائے، ہم بس صبح سے شام ٹوئٹر، فیس بُک اور پرائم ٹائم ’مینیج‘ کرنے میں مصروف رہیں گے جیسا کہ پہلے بھی ’ہم مصروف تھے‘ سو، لگے رہو منا بھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).